• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
دے کر خط، منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغام زبانی اور ہے
میاں صاحب کی اوباما سے ملاقات کی جھلکیاں ٹی وی پر دیکھتے ہوئے جب میاں صاحب نے جیب سے لکھا ہوا پرچہ نکالا اور پڑھ کر سنانا شروع کیا تو میرے ذہن میں غالب کے مندرجہ بالا اشعار خود بخود امڈ آئے۔ میرے خیال میں یہ غزل ہمارے بارہویں جماعت کے اردو کے کورس میں تھی۔ اتنے سال بعد اچانک یاد آگئی۔ حالات ہی کچھ ایسے ہیں۔ کبھی تو دونوں رہنما ایک دوسرے کو اکھیوں کے جھروکوں سے دیکھ رہے تھے اور کبھی بالمشافہ بات چیت کا دور تھا۔ دراصل دونوں رہنما ایک دوسرے کو کچھ کہنا چاہ رہے تھے مگر کہہ نہیں پا رہے تھے۔ ان کی باڈی لینگویج ان کے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہی تھی اسی لئے شاید میاں صاحب نے جیب سے نکال کر سبق پڑھنا شروع کردیا۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور اس میں یہ تسلی ہوجاتی ہے کہ سارا کچھ بتادیا ہے اب جو رہ گیا ہے یا تو زبانی بتادیں یا پھر وہ خود ہی سمجھ لیں، ہمارے بچپن میں ریڈیو پر ایک گانا بجتا تھا جس کے بول کچھ یوں تھے ’’چپ چپ بیٹھے ہو ضرور کوئی بات ہے، پہلی ملاقات ہے جی پہلی ملاقات ہے‘‘، اکثر ایسا ہوتا ہے مگر پھر آہستہ آہستہ بات آگے بڑھ جاتی ہے۔ ملالہ نے بھی ملاقات کے بعد یہی بتایا تھا کہ اس نے ڈرون حملوں کی بات کی ہے۔ میاں صاحب بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی جس کسی کو کسی امریکی افسر سے ملاقات کا شرف نصیب ہوا اس نے باہر آکر یہی بتایا کہ اس نے ڈرون حملوں کی بات کی ہے۔ چلو ہم تو دعاگو ہیں کہ کسی کے کہنے ہی سے سہی ڈرون حملے تو رک جائیں کیونکہ بے وقت کے یہ حملے مذاکرات کی راہ میں نہ صرف رکاوٹ ہیں بلکہ غلط فہمیاں بھی پیدا کردیتے ہیں اور پھر ہمیں قیمت چکانا پڑتی ہے۔ مجموعی طور پر اخبارات اور تجزیہ نگاروں کے مطابق میاں صاحب کی ملاقات اوباما کے ساتھ کامیاب رہی ہے اور سب سے خوبی کی بات یہ ہے کہ میاں صاحب کو دیکھ کر اوباما کو پاکستانی قیمہ اور دال یاد آگئی، اوباما 1980ء میں اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران اپنے روم میٹ کے ساتھ پاکستان آئے تھے جہاں ان کے دوست کی والدہ نے انہیں قیمہ اور دال پکانا سکھائی تھی۔ اس کا ذکر اوباما پہلے بھی کرچکے ہیں اور ہمیں اس بات کی بہت خوشی ہے۔ اگر صدر اوباما ہمارے صدر صاحب سے مل لئے ہوتے تو برنس روڈ کی نہاری اور دہی بڑے بھی یاد کرتے۔ خیر میاں صاحب نے انہیں فوراً ہی پاکستان آنے کی دعوت دے دی ہے اور اب انشاء اللہ وہ پاکستانی کھانوں سے محظوظ ہوں گے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی کہانی 1950ء ہی سے شروع ہوجاتی ہے۔ امریکہ نے ہر موقع پر پاکستان کی مالی امداد کی۔ کاش وہ امداد کی رقم اگر ایمانداری سے عوام کے اوپر خرچ ہوجاتی تو آج ہماری حالت ہی کچھ اور ہوتی۔مگر وہ تمام پیسہ جیسے آیا ویسے ہی یا تو حکمرانوں اور بیوروکریسی کی جیبوں میں چلا گیا یا پھر گھما پھرا کر امریکنوں کے پاس ہی اس کا کافی حصہ ٹیکنیکل بنیادوں پر چلا گیا۔ عوام بے چارے منہ دیکھتے رہ گئے۔ اب دوبارہ امداد جاری کرنے کی یقین دہانیاں ہیں اور پرانے رکے ہوئے پیسوں کی ادائیگی کی باتیں ہورہی ہیں۔ شاید ان اقدامات سے پاکستانی روپے کی قیمت سنبھل جائے اور روپیہ پھر اپنی پرانی قیمت پر آجائے۔ ابھی تک ڈالر کے مقابلے میں 107روپے کا بھائو ہے جو نہ صرف خطرناک ہے بلکہ عبرت ناک بھی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ امداد کے بدلے میں امریکہ کے ہم سے جو مطالبات ہیں ہم وہ پورے بھی کرپائیں گے یا نہیں۔ آئندہ تعلقات کا انحصار امریکہ کی پاکستان سے توقعات کے ساتھ منسلک ہے۔ پچھلے دور میں تو ہم ’’ڈومور‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا رہے اور پچھلی حکومت نے اپنی تمامتر کمزوریوں کے باوجود اپنے پانچ سال مکمل کرلئے اور جمہوری عمل کو رواں دواں رکھا۔ اس میں ہمارے سابق صدر جناب آصف علی زرداری کی حکمت عملی کا بہت بڑا ہاتھ ہے جس کی وجہ سے اقتدار کی پرامن منتقلی جمہوری انداز میں ہوئی اور دونوں حکمرانوں نے بلیم گیم کی بجائے ایک دوسرے کے بارے میں مثبت رویہ اختیار کرکے ایک مثال قائم کی جوکہ آنے والی حکومتوں کے لئے مشعل راہ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پانچ سال مکمل کرنے میں حکومتی کوششوں کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً سپریم کورٹ کے ریمارکس کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ اب وزیر اعظم پاکستان کا امریکہ کا دورہ بھی ختم ہوگیا۔ بہت سے کام اس دورے کی وجہ سے رکے ہوئے تھے اور ان کا انحصار دورے کے مضمرات پر تھا۔ اب خیر کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اسی ہفتے کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف اور جوائنٹ چیف کا نام بھی سامنے آجائے کیونکہ زبان عام میں اس کی تاخیر دورے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اب اللہ جانتا ہے کہ اصل بات کیا ہے بہرحال کچھ تو باعث تاخیر ہے!
خالد شریف کا ایک پرانا شعر ہے۔
رخصت ہوا تو بات میری مان کر گیا
جو اس کے پاس تھا وہ مجھے دان کر گیا
مگر میں نہیں سمجھتا کہ موجودہ ملاقات یا رخصتی میں ایسا کوئی تاثر ہے اور اگر ہوتو پتہ نہیں!
مختصر یہ کہ ابھی تو ہفتہ بھر وزیر اعظم اور صدر اوباما کی ملاقات پر تجزئیے اور تبصرے جاری رہیں گے۔ اور ابھی آہستہ آہستہ پتہ چلے گا کہ ملاقات کے نتائج مثبت ہیں یا ایک اور ملاقات کی ضرورت ہے۔ بہرحال اب بات چل نکلی ہے اور نہ جانے کہاں تک پہنچے۔ ہماری یہ دعا ہے کہ اس ملاقات کے نتیجے میں پاکستان سے بدامنی، بے روزگاری اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔ ملکی وسائل اور غیرملکی امداد کا استعمال مثبت طریقے پر ایمانداری سے ہو تاکہ اس کا فائدہ غریب عوام کو ہو۔ ڈالر صرف مخصوص لوگوں کی جیبوں میں نہ چلے جائیں اور بھوکے ننگے عوام پھر ہاتھ ملتے رہ جائیں ہمیں ماضی میں امداد تو بہت ملی ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ نہ تو ہمارا پیٹ بھرا ہے اور نہ ہی داڑھ گیلی ہوئی ہے۔ امداد آئی ضرور ہے مگر گئی کہاں ہے؟ عام آدمی کا یہی سوال ہے۔ اب ہر آدمی کی خواہش ہے کہ امداد کے اثرات اس تک بھی پہنچنے چاہئیں اور اونچے ایوانوں کے دریچوں سے کچھ روشنی چھلک کر اندھیری کٹیا تک بھی پہنچے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر امداد واپس کردیں۔ کیا فائدہ؟ اپنی عزت نفس بھی گنوائیں اور کچھ حاصل بھی نہ ہو۔ یہ پارلیمینٹیرین کا کام ہے کہ اس کا جائزہ لیں اور عوام کے حقوق کا تحفظ کریں۔ ورنہ یہ ملاقاتیں تو ہوتی رہیں گی مگر بندہ مزدور کے اوقات وہی رہیں گے۔ آخر میں حبیب جالب کا حسب حال شعر پیش خدمت ہے۔
ہم کو غیروں سے ڈر نہیں لگتا
اپنے احباب ہی سے ڈرتے ہیں
ہر قدم پر ہے محتسب جالب
اب تو ہم چاندنی سے ڈرتے ہیں
تازہ ترین