• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے اطراف سلامتی کا ماحول ہر روز نئی جہت اختیار کر رہا ہے۔ افغانستان میں حالات معمول پر آنے اور امن و امان کے قیام کی امیدیں ناامیدی میں بدل رہی ہیں۔ ایک طرف امریکی ایک بڑے معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ امریکہ کی سپر پاور حیثیت کو ایک طرف پھر بڑے چیلنجز کا سامنا ہے دوسری طرف اوباما دور کی دفاعی اور سیاسی حکمت عملی کو مسلسل ناکامی کا سامنا ہے۔ وہ مشرق وسطیٰ میں بین الا قوامی سطح پر پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔ امریکہ نے شام کے ایشو پر روس کے مقابلے میں کمزوری دکھا کر اور مؤقف سے ہٹ کر روس کو اس علاقے میں پیر جما کر کھڑے ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ روس کے حامی ملکوں کا اپنے حلیف پر اعتماد بڑھا ہے جب کہ امریکہ کے حلیف ممالک کی نہ صرف پوزیشن کمزور ہوئی ہے بلکہ امریکہ پر سے ان کا اعتماد بھی کمزور ہوا ہے۔ سعودی عرب نے سلامتی کونسل کا ممبر بننے سے انکار کر دیا اور اس کی بڑی وجہ امریکہ کی شام کے ایشو پر دوغلی پالیسی ہے۔
ہر مسئلے کے دو رخ ہوتے ہیں، ایک عام نظر سے پوشیدہ ہوتا ہے اور دوسرا دکھایا جاتا ہے۔ اس کا منظر امریکہ اور بھارت کے تعلقات و تعاون کا ہے۔ یہ جو امریکی طرزعمل میں تبدیلی آنی شروع ہوئی ہے اور بھارت کا رویّہ اشتعال میں تبدیل ہو رہا ہے، یہ امریکی حکومت اور بھارتی حکومت کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ ابھی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گا اس کا فائدہ امریکہ اور نیٹو ممالک کی اسٹرٹیجک حکمت عملی پر پڑے گا۔ اس صورتحال سے ایک زیرک وزیراعظم ہی نمٹ سکتا ہے۔ امریکہ شٹ ڈائون اور مالی بحران سے وقتی طور پر نکل گیا ہے اور ایسا ہونا ہی تھا اس لئے کہ کوئی امریکی، امریکہ کی مالی ساکھ کو ختم ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ ری پبلکن پارٹی کی قیادت امریکہ دشمن نہیں ہے لیکن انہوں نے اپنے طرزعمل سے، حکمت عملی سے امریکی قوم کو یہ باور کرا دیا ہے کہ امریکہ کی مالی بدحالی کا ذمہ دار کوئی اور نہیں امریکی صدر اور اس کی حکومت و انتظامیہ کی ناقص کارکردگی ہے۔ امریکہ کو سترہ دن کے شٹ ڈائون میں نصف کھرب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
امریکی عوام نے جب دوسری دفعہ صدر اوباما کو حکومت کا موقع دیا تو ان کا خیال تھا کہ صدر اوباما اپنی مالی، معاشی اور دفاعی حکمت عملی کی اصلاح کر لیں گے۔ بین الا قوامی امور میں امریکہ کو افغانستان میں سخت ترین جھٹکا لگا ہے۔ افغانستان میں وہاں کے طالبان ان کا پیچھا کر رہے ہیں، ان کو گھیر رہے ہیں، ان پر دبائو بڑھا رہے ہیں۔ ملا عمر جو طالبان کے سربراہ ہیں انہوں نے امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب مذاکرات سے انکار کرنے والا فریق یہ سمجھتا ہے کہ سامنے والا فریق کمزور ہے۔امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ اب افغانستان میں رکنے کا وقت نہیں ہے حالانکہ یہ فیصلہ اسے پہلے کر لینا چاہئے تھا۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کے طالبان اور پاکستانی حکومت میں امن معاہدہ ہو۔ دوسری طرف شواہد اور زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان اپنی شرائط پر طالبان کو مذاکرات کی میز پر نہیں لا سکے گا۔ پاکستان میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے، اگر دونوں فریق مذاکرات کی میز پر آ بھی جائیں تو مذاکرات بغیر کچھ لو اور کچھ دو کے بغیر نہیں ہوں گے۔ مذاکرات دو فریقین میں اسی وقت ہوتے ہیں جب ایک دوسرے کی شرائط کو مانا جائے۔ امریکہ کے بعض اقدامات پاکستان سے طالبان کے مذاکرات کو سبوتاژ کر سکتے ہیں۔ امریکہ کی حکمت عملی پہلے سے یعنی سابق صدر پرویز مشرف کے دور سے یہ رہی ہے کہ افغان جنگ کا دبائو پاکستان پر بڑھے۔ جنگ پاکستان کے علاقوں میں پھیل جائے، اس طرح پاکستانی فوج مختلف علاقوں میں بکھر جائے گی۔ اب جو بھارت کی طرف سے پاکستانی سرحدوں پر اشتعال انگیزی شروع ہوئی ہے اس کا مقصد بھی پاکستانی فوج کو مشرقی محاذ پر مصروف رکھنا ہے۔ یہ معاملہ آگے بھی بڑھ سکتا ہے بلکہ بڑھتا نظر آ رہا ہے۔وزیراعظم نواز شریف کو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ اس وقت امریکہ کو کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور نہ امریکہ سے کچھ حاصل کرنے کا موقع ہے خواہ وہ ایٹمی سول ٹیکنالوجی ہی کیوں نہ ہو۔ امریکہ بے وفائی پر تلا ہوا ہے، وہ بہت زیادہ بھارت کی طرف بڑھ چکا ہے اور کسی وقت بھی پاکستان کو آنکھیں دکھا سکتا ہے بلکہ دکھا رہا ہے۔
امریکہ نے ایک حکمت عملی اور اسٹرٹیجی کے تحت پاکستانی فوج کو سوات اور جنوبی وزیرستان میں پھنسایا، وہ اسے شمالی وزیرستان میں بھی پھنسانا چاہتا ہے۔ امریکہ کا یہ الزام ہےکہ حقانی گروپ شمالی وزیرستان میں فعال ہے۔ پاکستان کو امریکہ کے سامنے اپنا نقطۂ نظر پوری قوّت سے رکھنا چاہئے کہ پاکستان اپنے ہی علاقے میں مزید جنگی کارروائیاں نہیں کرے گا۔
وہ وقت بہت کٹھن ہوتا ہے جب دوست بے وفائی پر آمادہ نظر آنے لگتے ہیں۔ پاکستان نے اپنے وعدوں کا ہمیشہ پاس رکھا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اس سطح کی نہیں رہی جیسی پاکستان جیسے اہم ملک کی ہونی چاہئے تھی اور آج بھی وہی صورتحال ہے۔ ایسے کئی مواقع آئے کہ پاکستان اندرونی سلامتی کو محفوظ تر بناسکتا تھا لیکن ان سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اب اس کو بار بار بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے بچا جاسکتا تھا لیکن غیر معیاری قیادت صحیح سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکی۔
دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ فوجی آپریشن آخری آپشن ہوتا ہے۔ پاکستان میں اسے پہلے آپشن کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ 1975 میں جب بلوچستان میں فوجی آپریشن ہوا تو وہاں امن و امان ہو گیا تھا۔ حکومت کی رٹ قائم ہو گئی تھی۔ وہاں سے فوج کو ہٹا لینا چاہئے تھا اور سول ایڈمنسٹریشن بحال ہوجانا چاہئے تھا۔ بلوچوں کے تحفظات دور کرنے چاہئے تھے لیکن یہ نہیں ہوا۔ یہ وفاق کی بہت بڑی غلطی تھی، ایسا ہی خیبر پختون خوا میں بھی ہوا۔ یہ تو ابھی کی بات ہے۔ ہمارے سامنے کی سوات، باجوڑ اور جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن ہوا۔ فوج نے امن و امان اور حکومت کی رٹ بحال کر دی۔ یہ 2009 میں ہوا اب 2013 چل رہا ہے۔ وفاقی حکومت سول انتظامیہ بحال کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اب امریکہ یہ کر رہا ہے اور پرویز مشرف کے دور میں بھی کر رہا تھا۔ میں نے پہلے بھی اپنے کالموں میں بار بار لکھا تھا کہ امریکہ کا رویّہ دوستانہ نہیں ہے اور پاکستان کو اس جنگ میں جن ہتھیاروں کی ضرورت ہے وہ اسے نہیں دے رہا ہے۔ 9؍دسمبر 2009 کو میں نے اپنے کالم میں جس کا عنوان تھا ’’نئی حکمت عملی کی ضرورت‘‘ یہ بات زور دے کر لکھی تھی کہ امریکہ پاکستان کو مالی معاونت دینے میں بخل سے کام لے رہا ہے۔ طرح طرح کی شرائط کیری لوگر بل میں لگائی گئیں، بحران پیدا کر دیا گیا۔ بلاشبہ اس کی ذمہ داری امریکہ میں پاکستانی سفیر اور وزیر خارجہ پر آتی ہے۔ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے رہا ہے لیکن اس کی پالیسیوں سے پاکستان کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘
تازہ ترین