• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُردو ادب میں برسہا برس سے ’’دریا دل‘‘کی اصطلاح مستعمل ہے جو کشادہ دلی ،سخاوت اور فیاضی کا وصف بیان کرنے کے کام آتی ہے۔بچپن میں دریا کنارے نہاتے ہوئے کئی بار یہ بھید پانے کی جستجو کی کہ دریا دلی کی مثال کیوں دی جاتی ہے ؟دریا تو بہت ظالم ،جابر اورنہایت سفاک ہوتا ہے۔جوع الارض کے مرض لادواکا شماردریا تو سب کچھ ہڑپ کرنے کی تگ ودومیں رہتا ہے ،پیاس بُجھانے کافریب دے کرقریب بلاتا ہے،زرخیز مٹی دیکھ کر انسان کا دل للچاتا ہے اور وہ دریا کی وسعتِ قلبی کے مغالطے میں آجاتا ہے۔لیکن موقع ملتے ہی یہ کم ظرف دریابپھر جاتا ہے اور سب کچھ خس و خاشاک کی مانند بہا لے جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے علاقوں میں حالیہ سیلاب آیا تو کنکریٹ سے بنی عمارتیں یو ں بہتی دکھائی دیں جیسے مٹی اور ریت سے بنے کچے گھروندے ہوں ۔کالام میں دریا کنارے قائم ’ ہنی مون ہوٹل‘اکلوتی عمارت نہیں تھی جو طغیانی کی نذر ہوئی۔سوات،مدین ،بحرین اورتیمرگرہ میں کئی گھر ،دکانیں اور ہوٹل دریا بُرد ہوگئے ۔ اس علاقے کے مکینوں کا حافظہ اگرزیادہ کمزور نہیں تو یہ سب واقعات 2010میں کم و بیش اسی ترتیب کے ساتھ پیش آچکے ہیں ۔12سال پہلے بھی دریائوں کے کنارے تعمیرات کے سبب پانی کا فطری بہائو متاثر ہوا توسیلاب جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ہوٹل ہنی مون 2010ء میں بھی تباہ ہوا تھا مگر مزید پیسہ لگا کر ایک بہت بڑا ہوٹل تعمیر کیا گیا کیونکہ دریا کنارے کاروبار خوب چلتا ہے۔مارکیٹ ہو ،گھر یا پھر ہوٹل جب اس کے ساتھ ریور ویو یا ریور سائڈ لکھاجاتا ہے تو قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔آپ وادی کمراٹ سے نکلنے والے دریائے پنجکوڑا کی مثال لے لیں جو لوئر دیر اور تیمرگرہ سے ہوتا ہوا چکدرہ کے مقام پر دریائے سوات سے ملتا ہے۔ یہاں دریاکے اندر فیکٹریاں بنیں ،مدارس قائم ہوئے ،نت نئے ہوٹل اور مچھلی کی دکانیں کھلتی چلی گئیں ۔سب نے یہی سوچا کہ دریا بہت سخی اور فیاض ہے سب کو اپنی آغوش میں جگہ دے رہا ہے لیکن دریا تو ان قبضہ گیروں کو نکال باہر کرنے کیلئےاپنی طاقت مجتمع کررہا تھا ۔2010ء میں جوں ہی یہ موقع ملا ،دریا نے سب کچھ بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا۔دریائے پنجکوڑا ہو یا پھر دریائے جندی جنہیں عام حالات میں بچے بھی پیدل چل کر پار کرلیتے ہیں ،یہاں سے گاڑیاں گزارنا معمول کی بات ہے مگر طغیانی کے سبب یہ اس قدر بپھر گئے کہ بلند و بالا عمارتیں سیلاب کی زد میں آنے لگیں۔ مالاکنڈ ڈویژن میں تباہی مچانے کے بعد جب چیختا چنگھاڑتا پانی آگے بڑھا تو منڈا ہیڈ ورکس کے پل کو بہا کر لے گیا ۔ابھی چند روز پہلے بھی وہی کہانی دہرائی گئی۔ منڈا ہیڈ ورکس جسے پونے دولاکھ کیوسک پانی کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے جب وہاں سے 4لاکھ کیوسک پانی کا ریلا گزرا تو اس کی ہمت جواب دے گئی۔اور پھر حسبِ سابق منڈا ہیڈ ورکس درہم برہم ہونے سے نوشہرہ اور چارسدہ بھی زیر آب آگئے ۔سوال یہ ہے کہ 2010ء کے سیلاب سے ہم نے کیا سبق سیکھا؟اگر کچھ سیکھا ہوتا تو ایک بار پھر تباہی وبربادی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔سوات میں ریور پروٹیکشن ایکٹ نافذ ہے جس کے تحت دریا سے 200فٹ کی حدود میں کسی قسم کی تعمیرات نہیں ہوسکتیں ۔لیکن 200فٹ تو کیا 20فٹ کے اندر بھی کسی رکاوٹ کے بغیر عمارتیں کھڑی کی جاتی رہیں۔دریاکنارے ہورہی تعمیرات کے لئے انتظامیہ ایک جواز یہ پیش کرتی ہے کہ لوگ اپنی ملکیتی زمینوں پر آبادکاری کررہے ہیں ۔انہیں یہ معلوم نہیں کہ کسی جگہ زمین کے ملکیتی حقوق ہونا الگ بات ہے ،وہاں تعمیرا ت کرنا بالکل مختلف معاملہ ہے۔مثال کے طور پر کسی بھی ایئر پورٹ کی حفاظتی باڑ سے منسلک اراضی کسی کی نجی ملکیت ہوسکتی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ وہاں پانچ منزلہ پلازہ تعمیر کرلے ۔اسی طرح دریا کنارے ہورہی تعمیرات میں سے بیشتر تجاوزات ہیں تو بعض یقیناً ایسی بھی ہوں گی جن کے پاس مالکانہ حقوق ہوں گے مگر قانون کے تحت وہاں کوئی کمرشل عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی ۔فزکس کا بہت سیدھا اور سادہ سا اصول ہے کہ اگرپانی کی Velocity دگنا بڑھ جائے تو اس کی تباہی پھیلانے کی طاقت میں 64گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔جب دریا میں کنکریٹ سے بنی عمارتیں کھڑی کر دی جاتی ہیں ،بارشوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب پانی کے بہائو میں اضافہ ہوتا ہے ،راستہ نہیں مل پاتا تو بھیگی بلی بن کروقت گزارتا دریا اچانک ایک خوفناک جنگلی بلی بن جاتا ہے ۔آپ نے دیکھا ہو گا بلی بہت ڈرپوک ہوتی ہے ۔اس کے پیچھے بھاگیں تو یہ ایک کونے سے دوسرے کونے کی طرف جاتی ہے لیکن جب ہر طرف سے مایوسی ہوجاتی ہے ،کوئی راستہ نہیں ملتا تو پھر آپ پر جھپٹ پڑتی ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ بلی کے پیچھے بھاگیں تو اس کے فرار ہونے کا راستہ ضرور چھوڑیں وہ دریا جو چپ چاپ بہتے رہتے ہیں ،جب ان پر زندگی کی راہیں مسدود کردی جاتی ہیں ،عمارتیں بنا کر ان کی زمین ہتھیانے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر وہ پلٹ کر وار کرتے ہیں ۔اپنی مقبوضہ زمین بھاری سود کے ساتھ وصو ل کرتے ہیں ۔اس بار دریائوں نے 12سال بعد انتقام لیا ہے نجانے اگلہ حملہ کب اور کس شدت سے ہو؟کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔یہ تباہی و بربادی کسی اور ملک میں ہوئی ہوتی تو اس کے اسباب اور وجوہات پر غور کرکے حل تلاش کیا جاتا مگر ہم اسے بدانتظامی ،غفلت اور کوتاہی تسلیم کرنے کے بجائے خدا کا عذاب سمجھ کر بات ٹال دیتے ہیں ۔یہ بھی نہیں سوچتے کہ سیلاب اگرعذاب ہے تو پھر ہمیشہ نشیبی علاقوں کا رُخ کیوں کرتا ہے،بلندی اوراونچائی کی طرف کیوں نہیں جاتا؟باقی رہا دریا کی کشادہ دلی کا فسانہ تو یہ بھی اتنا ہی جھوٹا،لغو اور بے بنیاد ہے جتنا ہمارے نام نہاد غمخواروں کی سخاوت اورفیاضی کی داستانیں۔

تازہ ترین