• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماضی ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنے مستقبل کا بہتر چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ جو قومیں اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھتیں وہ ہمیشہ اپنی غلطیوں کو دہراتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے وزیر خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد دنیا کی طرف سے پاکستان سے سردمہری کافی حد تک ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ چین جیسے ملک نے گزشتہ سال تک ہم سے گلے شکوے کرنا شروع کردیے تھے مگر بلاول بھٹو کا وزارتِ خارجہ کا عہدہ سنبھالتے ہی چین، روس، ایران، امریکا اور سعودی عرب سمیت تمام دوستوں نے رنجشوں کو بھلا کر آگے بڑھنے کی بات شروع کردی ہے۔ آج میں بلاول بھٹو زرداری کےاس بیان کی جانب توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں جو انہوں نے چند ہفتے قبل اسلام آباد میں دیا جس کے بعد پاک بھارت دوستی کےمخالفین نے پی پی پی اور بلاول بھٹو کیخلاف سوشل میڈیا پر نہایت منفی مہم کا سلسلہ شروع کردیا۔ ہمیں بلاول بھٹو زرداری کے نکتے اور بھارت کے عوام سے دوستی کے بیان کو ہر زاویے سے دیکھنا چاہئے۔ بلاول بھٹو کی مخالفت کرنے والوں نےجنگی جنون کی تاریخ سے سبق سیکھنے کی بجائے ہمیشہ اسے دہرانے کی کوشش ہے۔ دنیا میں بہت سے ملکوںنے اپنے ماضی سے سبق سیکھا ہے ، اپنے تلخ ماضی کے باوجود آج ان کے درمیان بہترین دوطرفہ تعلقات قائم ہیں۔دو عظیم عالمی جنگوں کی تباہی انسانیت کی روح کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہیں، یورپی ملکوں نے پچھلی صدی میں یہ جان لیا تھا کہ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں۔ ترقی کا راستہ تجارت ہے۔ دوسری جنگ ِعظیم میں جرمنی نے یکم ستمبر 1939کو پولینڈ پر زبردست حملہ کیا، چیکوسلواکیہ اور سوویت یونین بعد میں اس مہم میں شامل ہو گئے، اس جنگ کے باعث پولینڈ کے کم و بیش 60 لاکھ شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ فن و موسیقی کا مرکز ایک ماہ میں راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے سائے چھ برس تک یورپ پر منڈلاتے رہے، ان چھ برسوں میں 75ملین لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، امریکا نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے، جسکے نتیجے میں ہیروشیما میں 135,000 اورناگاساکی میں 64,000 لوگ مارے گئے۔

ناگاساکی اور کئی جاپانی شہروں سے زندگی کے آثار ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے۔ چند ہفتے قبل جب بلاول بھٹو نے بھارت کیساتھ امن اور دوطرفہ تعلقات کی بحالی کے حوالے سے ایک سیمینار سے خطاب کیا تو معاشرے کے ایک مخصوص طبقے نے نہ صرف ان پر تنقید کی بلکہ تجارت کے اس نظریے کی شدید مخالفت بھی کی،یہ طبقہ جنگی جنون میں مبتلا کیوں ہے؟ یہ طبقہ صرف پاکستان میں ہی نہیں ہے بلکہ بھارت میں بھی یہ طبقہ وہاں کے پالیسی سازوں پر حاوی ہے، جودونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے تصور کی مخالفت کرتے ہیں، اس طبقے کے خیال میں امن بے معنی ہے۔ دونوں طرف ایسے سیاستدان ہیں جو حکومت میں ہوتے ہیں تو دونوں ممالک کے درمیان بات چیت پر زور دیتے ہیں لیکن جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو تجارت اور امن کی مخالفت کرتے ہیں۔

جنگی جنون میں مبتلا افرادسیالکوٹ، کشمیر اور لاہور کی سرحد پر واقع دیہات کے باسیوں سے ضرور پوچھیں کہ جنگ کیا ہے؟ وہ آپ کو بتائیں گے کہ جنگیں کس طرح تباہی کا شکار کرتی ہیں۔ جنگ کے دوران ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے مویشی اور فصلیں کیسے تباہ ہو ئیں۔ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ کے باوجود، امریکہ اور چین نے 2021 میں 755 بلین ڈالر کی اشیا اور خدمات کی تجارت کی اور بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع ہونے کے باوجود 2022ءمیں ان کی باہمی تجارت 130 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تجارت کو فروغ کیوں نہیں دیا جا سکتا؟ 75برسوں میں ہم نے کئی سرحدی جھڑپیں اور 2 جنگیں لڑیںلیکن آج تک ہم نے کیا حاصل کیا؟ بلاول بھٹو یقینی طور پر پاکستان نہیں بلکہ پورے خطے کےرہنما ہیں کیونکہ وہ اس خطے میں امن کی بات اوراس خطے کے عوام کی رہنمائی کررہے ہیں۔ مسئلۂ کشمیر کو دنیا بھرمیں اجاگر کرنے کیساتھ ساتھ بھارت سے روابط میںبہتری بھی بہت ضروری ہے کیوں کہ جب مشترکہ تجارت ہوگی اور دونوں طرف کے لوگوں کے مفادات ایک دوسرے کیساتھ نتھی ہوں گے تو مسئلہ کشمیر بھی حل ہونےمیں دیر نہیں لگے گی اور یہی وہ ویژن ہے جو پی پی پی کے نوجوان رہنما بلاول بھٹو کے ذہن میں ہے،جس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بھارت کے رہنماوں کو جنگی جنون سے نکال کر امن پر آمادہ کرنا ہوگا۔امن اورتجارت دونوں ممالک کے عوام کی مشکلات میں کمی لانے کا واحد راستہ ہے ۔

تازہ ترین