• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عراق اور افغانستان میں طاقت کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے جوخود امریکہ کے اندازوں سے زیادہ مہلک ثابت ہوا ہے۔اب وہ پسپائی پرمجبور ہے اور افغانستان سے پر امن انخلا کے لئے ہاتھ پائوں ماررہا ہے۔ اس نازک موڑ پر ہماری سول اور فوجی قیادت کو ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ امریکہ نے کبھی اپنے دوستوں سے وفاداری نہیں کی۔پاکستان کے ساتھ تجربہ بھی اس سے مختلف نہیں اس لئے ہمارے ارباب بست و کشاد کو امریکہ کے کسی نئے جال سے بچنا ہوگا۔اس لئے حکومت کو امریکی ڈرون حملے رکوانے کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہئے۔ پہلے ہی اس نام نہاد ’’امریکی جنگ‘‘میں پاکستانی معیشت کو بھاری نقصان پہنچا ہےاور ہم 40 ہزار قیمتی جانیں گنواچکے ہیں۔ اب ہمیں اس صورتحال سے نکلنا ہوگا۔آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے نوازشریف حکومت کوطالبان سے مذاکرات کرنے کاواضح مینڈیٹ دے دیا ہے۔ پاکستان کی تمام دینی وسیاسی قوتیں اورعسکری قیادت اس اہم معاملے میں ایک پیج پردکھائی دیتی ہیں۔وہ سمجھتی ہیں کہ ہمارا‘اصل مسئلہ اس خطے میں’’امریکی مداخلت ‘‘ہے۔جبکہ بعض’’دانشوروں‘‘کی نظر کے’’ تیڑھے پن‘‘کایہ عالم ہے کہ ان کوہر سیدھی اور صاف چیزبھی’’ تیڑھی‘‘نظر آتی ہے۔پاکستان میں دینی وسیاسی قوتوں کی سب سے بڑی یہ کامیابی ہے کہ آج پورا ملک’’ امریکی جنگ‘‘ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔امریکہ افغانستان میں اپنے ’’زخموں‘‘ کو چاٹ رہا ہے۔اب وہ پاکستان کوطالبان سے مذاکرات میں مدد دینے کی بھی پیش کش کررہا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ 9/11سے قبل ایک بھی ’’خود کش حملہ ‘‘پاکستان میں نہیں تھا۔ آج ڈرون حملے بند ہوجائیں اور امریکہ افغانستان سے نکل جائے تو پورے خطے میں امن دوبارہ قائم ہوسکتا ہے۔
امریکہ اورپاکستان کے تعلقات اب بھی پیچیدہ اور ٖغیر یقینی تنائو کا شکار ہیں۔ان تعلقات کی ناخوشگواری میں شدت قبائلی علاقوں میں 2004سے اب تک مسلسل ڈرون حملوں سے پیدا ہوئی۔ پاک امریکہ تعلقات میں جوہری تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک امریکہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بند نہیں کرتا اور افغانستان سے 2014میں امریکی اور اتحادی افواج کا انخلا مکمل نہیں ہوجاتا ۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق اور انسداد دہشت گردی کے بارے میں خصوصی نمائندے بین ایمرسن نے ڈرون حملوں کے متعلق اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سال 2004سے ہونے والے 330ڈرون حملوں میں 22سو افراد جاں بحق اور600شدید زخمی ہوئے ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں میں 400 عام اور معصوم شہری بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی اس تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کے نتیجہ میں اصل اعداد و شمار دنیا کے سامنے لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی رازداری ہے جس کے باعث ان حملوں میں جانی نقصانات کا تخمینہ لگانا خاصا مشکل ہے۔ اقوام متحدہ کی اس رپور ٹ میں امریکہ ، اسرائیل اور برطانیہ سمیت ڈرون طیارے استعمال کرنے والے ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ عام اور بے گناہ شہریوں کے جانی نقصانات کی معلومات دینا اور اس کی قانونی وضاحت کرنا اپنا فرض سمجھیں۔ ماضی کی پاکستانی حکومتوں کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ ڈرون حملے ان کی رضامندی سے نہیں ہورہے ہیں لیکن وکی لیکس کے انکشاف نے یہ بھانڈا پھوڑ دیا تھا کہ ڈرون حملے حکومت پاکستان کی رضامندی سے ہوتے ہیں۔ نواز شریف حکومت نے بظاہر قدرے مضبوط مؤقف اپنایا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی سلامتی ، خود مختاری اور عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ نواز شریف کس قدر سنجیدگی کے ساتھ ڈرون حملوں کے حوالے سے قومی مؤقف کو امریکی صدر کے سامنے پیش کیا ۔ اگر انہوں نے امریکہ کی ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد کے بدلے میں قومی مفاد کے منافی کوئی اقدام کیا اور ڈرون حملوں کے بارے میں لیت و لعل سے کام لیا تو قوم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوگی کہ موجودہ حکومت بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح ڈرون حملوں پرامریکہ سے ملی بھگت کا سلسلہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ وزیراعظم کے دورہ امریکہ اور امریکی صدر اوباما سے ملاقات کے اثرات جلد واضح ہوجائیں گے کہ اگر امریکہ قبائلی علاقوں پر ڈرون حملےکرنے پر بضد رہاتو اس سے ثابت ہوجائے گا کہ امریکہ پاکستان میں امن کے قیام کے حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔اگر حکومت ڈرون حملے بند کرانے میں ناکام رہی تو طالبان سے مذاکرات بھی بے معنی ہوجائیں گے ۔ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لئےان حملوں کا سلسلہ رکنا ضروری ہے۔ ماہرین معاشیات کے نزدیک عراق اورافغانستان کی جنگیں امریکہ کے لیے بڑی بھاری اور تباہ کن ثابت ہوئی ہیں۔ عراق کے بعد اب اس کا افغانستان سے انخلا کا فیصلہ اسی تناظر میں ہے۔ لیکن امریکہ نے اب بہت دیر کردی ہے۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2014میں افغانستان سے انخلا کے بعد سوویت یونین کی طرح امریکہ کا بدترین زوال بھی شروع ہوجائے گا۔ افغانستان میں ناکامی اس کے زوال کا نکتہ آغاز ثابت ہوگی۔ ڈرون حملے جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوئے۔ سابق ڈکٹیٹر نے امریکہ کے قدم پاکستان میں’’ جمانے‘‘میں اہم کردار ادا کیا ۔اس نے شمسی ایئر بیس اور شہباز ایئر بیس امریکی سی آئی اے کے حوالے کیے۔ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا سودا امریکہ کے ساتھ کیا۔ سینکڑوں پاکستانیوں کو ڈالروں کے عوض پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ آج کل وہ اپنے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ڈرون حملوں کے علاوہ دوسرا اہم معاملہ امت مسلمہ کی آبرو اور قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا ہے۔ حکومت پاکستان کو امریکہ سے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے سنجیدگی سے بات کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بر سر اقتدار آتے ہی عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی حکومت تین ماہ میں عافیہ صدیقی کو رہائی دلوائے گی۔ تین ماہ سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔ ان کا یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے وعدے کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کو امریکی قید سے رہائی دلوا کر پاکستان لانا چاہئے ۔ یہ ایک قومی و دینی فریضہ ہے، جسے جلد پورا کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے انتخابی وعدوں میں عوام کو یقین دلایا تھا کہ وہ امریکی ڈرون حملے رکوائے گی اور ملک میں امن و امان کی بہتری کے ساتھ معیشت کو مستحکم بنائے گی۔ اب یہ نواز شریف حکومت کے لئے کڑا امتحان ہے کہ اب وہ امریکہ سے جراتمندانہ مؤقف کے ذریعے ڈرون حملوں کو رکوانے میں کامیاب ہوتی ہے یاماضی کی حکومتوں کی طرح قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ’’رسمی ‘‘احتجاج کو ہی اپنائے گی۔
تازہ ترین