• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنی آواز کو نہیں، الفاظ کو بلند کیجئے۔ پھول بارش سے کھلتے ہیں۔ بادلوں کی گرج سے نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مفہوم اور ترجمے میں کمزوری ہو۔ مگر بات سمجھ میں آتی ہے۔ یہ بات نجانے کتنا عرصہ پہلے میرے مرشد اور حضرت اقبال کے درویش جناب جلال الدین رومی نے کس ترنگ میں آکر کہے ہوں گے۔ گزشتہ چندسالوں سے ہمارے ہاں بلند و بانگ دعوے کرنے کا رواج سا پڑ گیا ہے۔ عمل اور حکمت سے فرار نے معاشرے کو بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آج کل کے حالات میں سب ہی ایک دوسرے سے پوچھتے نظر آتے ہیں۔ کیا ہو رہا ہے۔ یا پھر کیا ہوگا۔ ایمان داری کی بات ہے کہ ہماری سب کی تربیت میں کوئی خامی اور کمی ضرور ہے۔ مجھے اپنی تاریخ پر زیادہ فخر بھی نہیں ہے۔ اس وقت ہمارے ارد گرد جو خود نمائشی اور خود ستائشی نظر آرہی ہے اس پر کوئی بھی فکر مند نہیں۔ اگر فکر ہے تو اتنی کہ وہ کیوں اور کہاں سے کھا رہا ہے۔ سب ہی لوگ اپنے مقدر سے بدگمان سے نظر آتے ہیں۔ معاشرے کی تربیت میں افراد کا بہت ہاتھ ہوتا ہے۔ ہمارے سماج میں اہم افراد کی غیر سنجیدگی اور بدعملی نے پورے معاشرے میں ادھم مچا رکھا ہے۔ پاکستان کی قسمت میں ایسے ہی لوگ لکھے ہیں۔ اب کوئی اپنی قسمت سے تو لڑ نہیں سکتا۔ قائد اعظم کے بعد ایسا کون سا رہنما اور رہبر ہے جس پر قوم اعتماد کر سکتے۔
پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ گزشتہ چند ہفتوں سے مسلسل خبردار کر رہی ہے کہ ہمارا سیاسی اور سماجی نظام تباہ ہو چکا ہے اور نظام کے چلانے والوں کو خبردار کرنے کے باوجود کوئی بھی ادارہ یا فرد اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں۔
مجھے نہیں معلوم یہ جملے کس نے کب کہے تھے۔ دنیا کے ہر میدان میں ہار جیت ہوتی ہے لیکن اخلاق میں کبھی ہار اور تکبر میں کبھی جیت نہیں ہوتی۔ اب اس تناظر میں اپنے سیاست دانوں کے خیالات کا جائزہ لیں تو ان سب کی شخصیت میں تضاد نظر آتا ہے ہمارے ہاں معاشرے میں اخلاقی تربیت کی شدید کمی ہے۔ ہمارے سکولوں اور مدرسوں میں تمام علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مگر اخلاقی تربیت پر توجہ ہی نہیں ہوتی۔ پھر بچوں سے امیدرکھتے ہیں کہ وہ ان کا احترام کریں۔ ہمارے معاشرے میں ’’شکریہ‘‘ کافقدان ہے۔ دوسرے کو راستہ دینا، کسی کیلئے دروازہ کھولنا، اپنی باری کا انتظار کرنا، مسکرا کر ملنا یہ سب کچھ عام حالات میں نظر نہیں آتا پھر ہمارے ہاں مزاح کاشدید فقدان ہے۔ اگرچہ تنقید کا رواج ہمارے ہاں قبول نہیں۔ مگر غیبت اور بدگمانی ہماری عادت بن چکی ہے۔ پرانے سیاست دان بھی ہمارے ہاں کوئی ایسی روایت نہیں چھوڑ گئےجس پر فخر کیا جاسکے۔ مگر اب سیاستدان ایسی گفتگو کرتے نظر آتے ہیں جس پر اعتبار کرنا مشکل ہے۔ ان کے ہاں شدید جذباتیت ضرور ہوتی ہے کچھ ایسی صورت حال ہم کو اپنے ابلاغ عامہ کے اداروں میں نظر آتی ہے۔ ہمارے بعض ٹی وی چینل تحقیق پر یقین نہیں رکھتے ان کے ہاں کے پروگرام عوام کو بھی مایوسی کا شکار کرتے نظرآتے ہیں۔ پھر گڈگورننس کا تصور اور اس کی حقیقت دکھانے میں ہمارا میڈیا ناکام نظر آ رہا ہے۔
پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ بیڈ گورننس پر مسلسل آواز بلند کررہی ہے۔ ایک طرف حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کی مشکلات کیلئے ہر طرح سے کوشش کر رہی ہے۔ مگر مشکلات میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اور عوام کی مشکلات میں اضافہ سرکاری ادارے کر رہے ہیں وہ سب شدید کرپشن کا شکار ہیں اور حکومت نے اس معاملہ پر توجہ تو کیا دینی تھی وہ تو نوکر شاہی کو تحفظ دیتی نظر آتی ہے۔ تھانہ اور کچری میں عام آدمی کی داد رسی نہیں ہوتی۔ ہمارے بڑے سیاست دانوں کے گھرانے سیاست کو ایک کاروبار کی طرح دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں سیاست اور کاروبار آپس میںگڈمڈ سے ہوگئے ہیں۔ ایک طرف تو دعویٰ ہے کہ سرکار کا کام حکومت چلانا ہے وہ کسی کاروبار میں شریک نہیں ہوتی۔ مگر ہمارے وزیر خزانہ اس وقت آئی ایم ایف کے ساتھ کاروباری انداز میں قرضوں کی بات چیت کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف والے کبھی بھی پاکستان آ کر کوئی بات چیت نہیں کرتے۔ وہ پاکستان سے بات پاکستان سے باہر کرتے ہیں۔ وہ ہمارے معاشی اور سماجی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں، بجلی کی قیمتوں کا تعین کرواتے ہیں۔ ہمارے بجٹ کے سلسلہ میں اپنے ماہرین کی مدد سے پورا بجٹ بنا کر دیتے ہیں۔ اس دفعہ کے بجٹ میں بھی آئی ایم ایف کا کردار صاف نظر آ رہا ہے۔ یہ وہ معاملات ہیں جن پر ہماری اعلیٰ عدلیہ بھی پریشان ہے۔ اب عدلیہ تو ان سب کا رخ درست نہیں کرسکتی وہ صرف فکر ظاہر کرسکتی ہے۔ مگر سرکار کو انصاف سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ صرف من مانی چاہتی ہے اور اس کیلئے ان کے پاس ایک ہی نظریہ ہے وہ ہے جمہوریت جس نے ان کو قانون کو نظر انداز کرنے کا مکمل اختیار دے رکھاہے۔ کتنے مقدمات عدالتوں میں اس لئے التوا کا شکار ہیں کہ سرکاری ادارے اپنا کردارادا نہیں کررہے۔ جن معاملات میں سرکار کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے اس میں بھی حکومت مکمل ناکام نظر آتی ہے۔ ہماری وزارت قانون ہمیشہ قانون کو نظر انداز کرنے میں نظر آتی ہے۔اس وقت عجیب سی صورت حال ہے کہ ہمارے ہاں ایک من گندم کی بوری اٹھانے والا اتنی سکت نہیں رکھتا کہ وہ خرید سکے اور جو شخص ایک من گندم خرید سکتا ہے وہ اس کو اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا۔ یہی فرق پورے معاشرے میں نظر آ رہا ہے۔ ہمارے سارے سیاستدان صرف کرسی کی جنگ میں مصروف عمل ہیں کسی کو اندازہ نہیں کہ کرسی کی اس جنگ نے ملک کا مستقبل تاریک کر رکھا ہے۔ اس کو بچانے والے بس سوچتے ہی رہتے ہیں۔
ہم بچاتے رہ گئے دیمک سے اپنا گھر
کرسیوں کےچندکیڑے ملک سارا کھا گئے
تازہ ترین