• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کو ڈر لگتا ہے؟آپ میری بات چھوڑیں۔ میں نے آپ سے پوچھا ہے، آپ کوڈر لگتا ہے؟ یہ مت کہئے گا کہ آپ کوڈر نہیں لگتا۔ اگر آپ جیتے جاگتے انسان ہیں، کھاتے پیتے ہیں، کھیلتے کودتے ہیں، کام کاج کرتے ہیں، یا پھر روزی روٹی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، تو پھر آپ یقیناً ڈرتے ہوں گے۔ اس میں شرمانے یا شرمندہ ہونے جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ سب لوگ ڈرتے ہیں۔ یہ تحقیقاتی ماحصل ہے کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، عورت ہو یا مرد، سب ڈرتے ہیں۔ یہ بین الاقوامی حقیقت ہے۔ ڈر کی صورتیں مختلف ہوسکتی ہیں۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ ہر شخص کسی نہ کسی چیز ، دیکھی ان دیکھی مشکل، آفت، آزمائش، پریشانی سے ڈرتا ہے۔اس لئے چھپانے، انکار کرنے سے کہ آپ کو ڈر نہیں لگتا، آپ کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ طے ہے کہ ہم سب ڈرتے ہیں۔ خوف کی مختلف صورتیں جب آپ کے اپنوں، دوست احباب اور پیاروں کو اپنے چنگل میں لے لیتی ہیں، تب ہم بذات خود کانپ اٹھتے ہیں۔ ڈر کے مارے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے جیسے تمام عقوبتیں، ہمارے ساتھ ہورہی ہیں۔ میرے چھ ہم منصب، ہم پیشہ، ہم عصر، ہم نفس پچھلے چھ برسوں سے نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ بیرون ملک یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کرکے آئے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں پروفیسر رہ چکے ہیں۔ ان میں دواحباب اپنی اپنی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں۔ سب کے سب، میرے ہم نشیں، سینئر سٹیزن ہیں۔ عمر میں ستر اسی برس کے لگ بھگ ہیں۔ پیشیاں بھگتتے بھگتتے ایک وائس چانسلر اللہ سائیں کو پیارے ہوچکے ہیں۔ جب آپ کسی کواس نوعیت کے عذاب میں مبتلا کرتے ہیں تب آپ صرف اس شخص کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتےبلکہ اس شخص کے ساتھ ساتھ آپ اس شخص کی پوری فیملی کو بھی عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اس شخص کے بیوی بچے، بھائی بہن، دوست احباب، سب کو مصیبت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ ہر ماہ جب ان کو پیشی کیلئے پشاور بلایا جاتا ہے، تب پوری فیملی تذبذب اور غیر یقینی کی کیفیت کا شکار ہوجاتی ہے۔ فیملی نہیں جانتی کہ وہ اب کے لوٹ کے آئیں گے،یا نیب کے تہہ خانوں میں بند کردیے جائیں گے۔ تذبذب کے عذاب میں مبتلا فیملی سکھ کا سانس تب لیتی ہے جب پیشی بھگتنے کے بعد پروفیسر اور وائس چانسلرپشاورسے صحیح سلامت مگر نڈھال واپس لوٹ آتے ہیں۔ اس نوعیت کی عقوبتوں سے براہ راست واسطہ پڑنے سے آپ ڈر جاتے ہیں۔ میرے ہم پیشہ ساتھیوں کے ساتھ اگریہ سب کچھ ہوسکتا ہے، تو پھر میرے ساتھ کیوں نہیں ہوسکتا؟ میں جانتا ہوں کہ میرے کولیگ چور نہیں ہیں۔ وہ ڈاکو نہیں ہیں۔وہ قبضہ خور نہیں ہیں۔ وہ منی لانڈرنگ نہیں کرتے ۔مگر چھ ساتھ برسوں سے پروفیسر اور وائس چانسلر پشاور جاکر پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ کیسا جرم کیا ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ سینئر سٹیزنز نے کہ چھ برس گزر جانے کے باوجود تفتیش مکمل نہیں ہوسکی ؟

سنا تھا کہ معاملہNIMSیعنی نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے الحاق کا تھا۔ طے ہونا تھا کہNIMSکو کس یونیورسٹی سے جوڑا جائے، پشاوریونیورسٹی، عبدالولی خان یونیورسٹی یا ہزارہ یونیورسٹی کی انتظامی تحویل میں دے دیا جائے۔ میں کئی مرتبہ گزارش کرچکا ہوں کہ سنی سنائی باتوں پر کبھی یقین نہیں کرنا چاہئے۔ اگر یہ دوتین جامعات کا معاملہ ہوتا تو اب تک حل ہو چکا ہوتا۔مجھے لگتا ہے کہ میرے معزز احباب، میرے ہم نشیں، میرے ہم نفس، میرے ہم عصر کسی گھنائونی سازش میں ملوث تھے۔ وہ شاید لوگ ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہے تھے۔ مجھے چھوٹی موٹی بات نہیں لگتی ۔ورنہ یہ ہونہیں سکتاتھا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، پی ایچ ڈی کی ڈگریاں رکھنے والے پروفیسر اور وائس چانسلر چھ سال سے ہر ماہ ، کبھی ایک مرتبہ، کبھی دومرتبہ پشاور نیب کے آفس میں پیش ہوتے رہیں۔کوئی نہیں جانتا کہ پروفیسروں اور ان کے خاندانوں کو تھکا کر مار ڈالنے والا عذاب کب تک جاری رہے گا۔

اب بھی آپ مجھ سے استفسار کریں گے کہ میں ڈرتا کیوں ہوں؟ میں خوفزدہ کیوں رہتا ہوں؟بویا ہوا بیج راتوں رات درخت نہیں بنتا۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد خوف کا بیج میری نسلوں میں بویا گیا تھا۔ ہمیں باور کروایا گیا تھا کہ یہ وطن، یعنی پاکستان تمہارا وطن ہے۔ تم اس کے پاسبان ہو۔ ہم نے بغلیں بجائی تھیں۔ ہم مل بیٹھتے ۔خیالی پلائو پکاتے، سوچتے کہ ہم پاکستان کیسے چلائیں گے۔ پاکستان کا نظام کیسا ہوگا۔ مختصراً یہ کہ ہمارا پاکستان کیسا ہوگا۔ ہمارے ملک میں تین محرکات لازمی طور پر دیکھنے میں آئیں گے۔ ایک تو دولت مند کسی غریب کا استحصال نہیں کرسکے گا۔ طاقتور کسی کمزور کا استحصال نہیں کر سکے گا۔ کوئی چالاک اور ہوشیار کسی ان پڑھ، ناخواندہ کا استحصال نہیں کرسکے گا۔

دیکھتے ہی دیکھتے ملک پر ساہوکاروں، طاقتوروں اور چالاکوں نے قبضہ کرلیا اور ملک پر حکومت کرنے لگے۔ ہم جیسے خیالی پلائو پکانے والے دہریے، ملک دشمن اور غدار ٹھہرائے گئے۔ حکومت سے اختلاف ملک کے خلاف ناقابلِ معافی جرم مانا گیا۔ ایسے میں ڈر تو لگتا ہےبھائی۔

تازہ ترین