• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرآن کہتا ہے : اور جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد فتنہ (آزمائش ) ہے اور اللّٰہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ دنیا میں جس قدر انسان مال اور اولاد سے آزمایا گیا ہے اتنا شاید کسی سے نہیں ۔ تیسری مدعورت ہے ۔ خواہشات میں ڈوبا ہوا ایک انسانی ذہن جاگتے ہوئے ہمیشہ دولت اور عورت کے خیال تلے دبا سسکتا رہتا ہے ۔ اس دوران انسان کی دوراندیشی کی ساری صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ وہ نور پیدا ہی نہیں ہوتا ، جو عقل کی رہنمائی کرتا ہے ۔آدمی صرف قریب کی چیز دیکھ سکتاہے اور یہ قریب کی چیز ہوتی ہے ہوس(Lust)۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دولت اور عورت کی یہ پیاس کبھی کم نہیں ہوتی ۔ رسالت مآب ؐ نے فرمایا تھا کہ ایک سونے کی وادی مل جائے تو دوسری وادی کی طمع۔ قرآن میں ایک اور جگہ ان چیزوں کو شہوات کہا گیا ہے یعنی سجائی گئی چیزیں ۔ ان میں سونے چاندی کے ڈھیر ، اولاد اور عورت شامل ہے۔ ان چیزوں میں اضافے کے ساتھ ان کی پیاس بھڑک کر اور بڑھ جاتی ہے ۔ کرۂ ارض کی تمام دولت بھی مل جائے تو مریخ فتح کرنے کی آرزو۔

بڑے بڑے سیاستدان کیوں آپس میں لڑتے ہیں ۔ اس لئے کہ حکومت ملے اور مال اکھٹا کرنے کا موقع ملے۔ حکومت تو دور کی بات ،ہائوسنگ سوسائٹیز کے الیکشن میں یہی کچھ ہو رہا ہوتاہے ۔ آپ بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ مالی لین دین کریں تو اندر سے بہت ہی کھوکھلے وجود ظاہر ہوتے ہیں ۔ دوسری طرف ایسے بھی ہیں ، جن کے پاس کوئی مال و متاع نہیں لیکن اپنی زبان پہ وہ کٹ مرتے ہیں۔

اولاد شاید سب سے بڑا فتنہ ہے ۔ بچہ جنم لیتا ہے تو ماں باپ اس کے غلام بن جاتے ہیں ۔ یہ اولاد اس کی کل کائنات بن جاتی ہے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں سے ، ماں باپ سے جدا ہو جاتا ہے ۔ دوسری طرف قرآن میں لکھا ہے’’جس دن دور بھاگے گا‘ آدمی اپنے بھائی سے ۔ اوراپنی ماں سے اور باپ سے۔اور اپنی بیوی اور بیٹے سے ۔ ہرشخص اس روز ایک فکر میں ہوگا‘ جس کے سوا کچھ اسے سوجھے گا نہیں۔‘‘(سورۃ عبس)

ان آیات کا ایک اور مطلب ہے کہ جس اولاد کی خاطر انسان ساری زندگی پینترے بدل بدل کر زندگی کے چیلنجز سے لڑتا رہتاہے، وہ درحقیقت اس کی کچھ لگتی ہی نہیں۔ مصنوعی طور پر اس کی محبت اس کے دل میں اتاری گئی ہے ۔ اور یہ محبت آئی کہاں سے؟ یہ وہ محبت ہے، جو خدا اپنی مخلوق سے کرتاہے۔ اسی کا ایک ننھا سا ذرّہ لے کر اسے مخلوقات کے دل پہ نازل کر دیا گیا ہے۔ حدیث کے مطابق‘ یہ محبت اگرنہ اتاری جاتی‘توجانور اپنی اولاد کو پیروں تلے کچل ڈالتے۔

دلوں میں اولاد کی وہ محبت کیوں اتاری گئی‘ جو ماں باپ کو دائمی طور پر اولاد کا غلام بنا دیتی ہے۔ اولاد صرف آزمائش کے لئے آپ کو دی گئی ہے ورنہ اس کا آپ سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ حشر کے دن وہ آپ کو پہچانے گی۔ خدا نے بچے کو انتہائی خوبصورت پیدا کیا ہے،تاکہ انسان مکمل طورپر اس میں مگن ہو کر رہ جائے۔ آخری سانس تک وہ اس کی حفاظت اور اسے Feedکرنے کی کوشش کرتا رہے۔ اولاد اگراتنی خوبصورت نہ ہوتی تو اپنی محبت میں ڈوبا ہوا، انسانی دماغ (نفس) اس کی حفاظت کے لئے آخری حد تک نہ جاتا۔ یوں کرّۂ ارض سے زندگی ختم ہو جاتی۔

اولاد کو اس قدر خوبصورت بنانے کا ایک بہت بڑا مقصد اور بھی تھا اور وہ تھا؛ انسان کو بوریت سے بچانا۔ چھوٹے بچّوں میں اس قدر خوبصورتی ہوتی ہے کہ وہ انسان کو مکمل طور پر اپنے آپ میں مگن کر لیتے ہیں۔یہ اولاد ایک کھلونا ہے، جو انسان کو لبھاتی رہتی ہے۔ بچّے دنیا کی سب سے خوبصورت تخلیق ہیں۔خاص طور پر ان کی ہنسی ۔سچ تو یہ ہے کہ چھ ماہ کی عمر سے لے کر تین سال تک تو یہ خوبصورتی اپنی انتہا پر ہوتی ہے۔ جب بچّہ بڑا ہوتا ہے اور جب یہ ظاہری خوبصورتی کم ہونا شروع ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی بچّے کی ذہانت کی خوبصورتی شروع ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے بچّہ دلچسپ حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ انسان کو اپنے اس روبوٹ سے اور زیادہ محبت ہوتی ہے، جس میں Artificial Intelligenceزیادہ ہوتی ہے، جس میں خصوصیات دوسروں سے زیادہ ہوتی ہیں۔

اسی طرح خدا نے مخلوقات کو دو جنسوں میں پیدا کیا تاکہ چیلنجز سے بھرپور دنیا کی یہ زندگی حد سے زیادہ بور نہ ہو جائے۔ اصل میں انسان کو اس لئے زمین پہ اتارا گیا تھا کہ اس نے عقل کی مدد سے خدا تک رسائی کا چیلنج پورا کرنا تھا۔جاندار اگر نر اور مادہ کی دو جنسوں میں پیدا نہ کئے جاتے، اگر اولاد نہ ہوتی اور اگر اولاد کی اولاد نہ ہوتی، تو انسان اس دنیا میں بوریت کی شدت سے ہی مر جاتا۔

غم کبھی ختم نہیں ہوتے اور نہ خوشیاں۔یہ وہ ایام ہیں ، جو اللّٰہ انسانوں پہ بدلتا رہتا ہے ۔ انسان خواہ کھرب پتی ہو‘جسے غم ملنا ہو‘ اولاد کی طرف سے مل جاتا ہے۔کیا عرب کے شاہی خاندان غموں سے آزاد ہیں؟ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ 99.9 فیصد لوگوں کی طرح انسان ہر خوشی کے موقع پر آپے سے باہر ہو جائے اور ہر غم میں پگھل کر رہ جائے۔ علم والے مگر ایسا نہیں کرتے ۔ اس کا پہلا قدم یہ ہے کہ آپ چیزوں پر فوری ردّعمل دینے کی بجائے ان کا مشاہدہ کرنا شروع کر دیں۔ آپ اگر اپنی زندگی کے واقعات پہ غور کریں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ کسی عظیم لکھاری نے ایک کہانی کمال خوبصورتی سے لکھ ڈالی ہے ۔آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ جیسے زندگی کو آپ اب بہت بلندی سے دیکھ رہے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین