• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیلاب: انجینئرنگ اور زرعی یونیورسٹیاں آگے آئیں

دنیا بھر سے امداد آرہی ہے۔ ترکی سے سامان بھرے جہاز اتر رہے ہیں۔ بحرین، برطانیہ،متحدہ عرب امارات اور دوسرے ملکوں سے بھی مالی امداد کے اعلانات۔ لیکن ہمارے اپنے رئوسا، امراء، صنعت کاروں، بینک مالکان، کارخانے داروں اور بلڈرز کی جانب سے کوئی بڑی رقم عطیہ کرنے کی خبر نہیں آئی، جوہمارے دیکھتے دیکھتے دولت مند ہوئے ہیں۔ اسی ملک سے اور انہی غریب لوگوں کی مدد سے پاکستانی محنت کشوں کے بازوئوں کی طاقت سے ان کی املاک اور بینک بیلنس میں بے بہا اضافہ ہوا ہے۔ اس موقع پر انہیں کچھ بڑے عطیات اپنے ہم وطنوں کے لئے نکالنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں پھر مالا مال کرے گا۔

پاکستان کی اپنی فلاحی تنظیمیں اور افراد اپنے طور پر سیلاب زدہ علاقوں کا رُخ کررہے ہیں۔ پہلی ترجیح خشک اشیائے خوردنی ہیں۔ پکا پکایا کھانا، پینے کا صاف پانی، لباس، مچھر دانیاں، خیمے۔

ذمہ دار ریاستوں میں آفات ناگہانی کیلئے ہمیشہ پہلے سے تیاری ہوتی ہے۔ رضاکاروں کی تربیت ہوتی ہے۔ ہم گزشتہ نصف صدی سے ایسی آپا دھاپی، افراتفری میں مبتلا کردئیے گئے ہیں۔ انتہا پسندی بھی ہے، فرقہ پرستی ہے، دہشت گردی ہے، لوٹ مار، بد عنوانی کہ اس طرف سے توجہ ہٹتی جارہی ہے۔ جو سسٹم بنا ہوا تھا، اسے بھی بتدریج ختم کردیا گیا ۔ ہم پہلے سے کبھی کسی انہونی کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ سر پر پڑتی ہے تو یہی سوچتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی نکال لے گا۔ جب تباہی حد سے گزر جاتی ہے۔ چیخیں بڑھ جاتی ہیں۔ اب تو سوشل میڈیا ہے جس پر وڈیوز چل پڑتی ہیں۔ ایسے ایسے منظر کہ دیکھنا محال ہے۔ اور جن پر بیت رہی ہے۔ لاکھوں خاندان کس کرب اور بے بسی سے گزر رہے ہیں۔98فی صد مصیبت میں گھرے ہوئے ہیں۔ دو فیصد کا رویہ وہی بے نیازانہ۔ سمندر پار پاکستانیوں کو سلام وہ ہمیشہ کی طرح بے چین، فکر مند، اپنے طور پر بھی ڈالر بھیج رہے ہیں۔ عمران خان کے ٹیلی تھون میں بھی پیش پیش، تین گھنٹے میں پانچ ارب روپے وعدے نقد جمع ہوگئے۔ خوشی ہوئی کہ سمندر پار پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ اندرون ملک کے پاکستانیوں نے بھی بڑھ چڑھ کر عطیات دئیے۔

آزادی کے 75ویں سال میں یہ تباہی بربادی ہمیں خبردار کررہی ہے۔ جھنجھوڑ رہی ہے۔ تین کروڑ متاثر ہوئے ہیں۔ مزید ہم وطن غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ پاکستان کی معیشت پر مزید بوجھ پڑے گا۔ اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ آئی ایم ایف نے ایک ارب سے زیادہ ڈالروں کی پہلی قسط کے قرضے کی منظوری دے دی ہے۔ ہے تو یہ قرضوں کا بوجھ ہی۔ لیکن اس وقت اس کی ضرورت بہت تھی۔ اس قرض کی بنیاد پر ہمیں ہمارے دوست بھی قرضے دیں گے۔ ان ڈالروں سے ہم نہ پل بناسکتے ہیں۔ نہ مکانات۔ نہ سڑکیں۔ کیونکہ یہ تو پہلے سے لئے گئے قرضوں کا سود ادا کرنے میں استعمال ہوں گے۔ آئی ایم ایف اپنی شرائط بڑھارہا ہے۔ مفتاح اسماعیل کو مزید مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ پہلے سے مہنگائی تلے پستے متوسط طبقے اور غریبوں کے لئے عرصۂ حیات مزید تنگ کرنا پڑے گا۔ کسی بھی حوالے سے یہ ایسا وقت نہیں ہے کہ پاکستانی چین کی نیند سوسکیں۔

یہ حالات یہ آفات ۔ ملک کے ہر حصّے میں سڑک کنارے بیٹھے بے یارو مددگار ہم وطن صرف حکمرانوں سے ہی نہیں ہم سب سے بھی یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہم سنجیدگی اختیار کریں گے ۔ ذمہ دار ریاست بنیں گے۔ ایک ہزار سے زیادہ نوجوانوں۔ بزرگوں، بچوں، مائوں بیٹیوں کی پانی میں تیرتی لاشیں ہمارے دل کی دھڑکنوں میں اضافہ کررہی ہیں یا نہیں۔ ہر طبقے کا فرض ہے کہ وہ غور کرے کہ یہ سیلاب 2022 ءہمیں کیا کیا سبق دے رہا ہے۔ یہ ہم سے کیا کیا تقاضے کررہا ہے۔ یہ حکومتی اتحاد۔ چار حکومتوں والی پی ٹی آئی۔ لاکھوں سرکاری افسر، صوبائی حکمران، صنعت کار، بلڈرز، تاجر، شاپنگ پلازا مالکان، آن لائن کاروباری، علمائے کرام، پروفیسرز، اسکول ٹیچرز، انکر پرسنز، کالم نویس، پریس کلبوں سب کو ان اسباق کی فہرست بنانی چاہئے۔ 1۔ سب سے پہلا سوال ۔ کالا باغ ڈیم یا کوئی بڑا ڈیم کیوں نہیںبنایا؟ 2۔ پہاڑی علاقوں میں چھوٹے چیک ڈیم کیوں تعمیر نہیں کئے۔3۔چھوٹے شہروں اوردیہات کی حفاظت کیلئے بند کیوں نہیں تھے؟4۔ گلیشیئر پگھلنے کی صورت میں حکمتِ عملی کیوں مرتب نہیں کی?؟5۔ دریائوں سے مٹی کیوں نہیں نکالی ?6۔ نہروں کی بھل صفائی کیوں نہیں کی؟ 7۔دریائوں، ندیوں کی گزر گاہوں پر تعمیرات کی اجازت کس نے دی؟ 8۔ماہرین آب پاشی اور سیلاب کی کبھی کوئی میٹنگ ملک گیر سطح پر کیوں نہیں بلائی?؟9۔ایک قومی سروے کرواکر کیوں نہیں دیکھا گیا کہ بڑے سیلاب کی صورت میں کس کس شہر کو زیادہ خطرات لاحق ہوسکتے ہیں؟10۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز ایسے خدشات اورخطرات کوپیش نظر رکھے بغیر نقشے پاس کرتی رہیں۔11۔ کراچی سمیت بڑے شہروںمیں نالے کیوں الاٹ ہوتے رہے؟ 12۔زرعی زمینوں کے بارے میں سروے کیا گیا کہ زیادہ بارشوں اور سیلاب میں کھڑی فصلیں تباہ ہونے سے کیسے بچ سکتی ہیں؟ 13۔زیادہ تر شہروں میں تو سیعی آبادیاں کسی منصوبے کے بغیر کیوںبستی رہیں؟ 14۔شاہراہیں سڑکیں عام بارش میں ٹوٹتی رہیں۔ سیلابی صورت حال کا اندازہ کرکے زیادہ پختہ اور دیرپا سڑکیں کیوں نہیں بنائی گئیں؟

اور بہت سے سوالات بھی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں۔ ہم نے 1971کے سقوط مشرقی پاکستان سے کچھ نہیں سیکھا۔ اب بھی چھوٹے صوبوں سے وہی رویے ہیں۔ ہم نے 2005کے زلزلے سے 2010ے سیلاب سے کوئی عبرت حاصل نہیں کی۔ واقعات پر کچھ تدبر اورتفکر ہماری سرشت میں ہی نہیں ہے۔ اب سیلاب 2022سے کیا سیکھیں گے؟ پارلیمانی نظام نے انتخابیوں کو تو ارب کھرب پتی بنادیا۔ لیکن انتخابی حلقوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

اس کے باوجود میں تو پُر امید ہوں۔ نہ جانے مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ سوشل میڈیا نے جس طرح لمحہ بہ لمحہ طوفانی سیلابی ریلوں کی یلغار دکھائی ہے۔ انسانوں کی بے بسی کی تصویریں وائرل کی ہیں۔ بچوں بچیوں کی آنکھوں میں اُداسیاں دکھائی ہیں۔ مائوں بہنوں کو ننگے سر کھلے آسمان تلے دکھایا ہے۔ یہ ہولناک مناظر ہم میں احساسِ ذمہ داری پیدا کریں گے۔ حکمرانوں اور اپوزیشن سے سنجیدگی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ لیکن معاشرہ ذمہ دار ہے۔ یونیورسٹیاں، تحقیقی ادارے، این جی اوز، فلاحی ادارے موجود ہیں، جو اس وقت بھی ریاست کی ذمہ داریاں نباہ رہے ہیں۔ یونیورسٹیاں ماہرین کے سیمینار منعقد کریں۔ انجینئرنگ ایسوسی ایشن کنونشن منعقد کرے۔ فلاحی تنظیمیں اپنا کنسورشیم بنائیں۔ موسمیاتی تبدیلی ایک مضمون کے طور پر ہائی اسکولوں میں پڑھائی جائے۔ پہاڑی علاقوں کے لئے ایک ماسٹر پلان بنایا جائے۔ کوئی زرعی یونیورسٹی زرعی ماہرین کی کانفرنس بلائے۔ متاثرہ فصلوں اور اراضی کی بحالی کے لئے تجاویز مرتب کرے، جو دوسری قومیں کرسکتی ہیں۔ ہم بھی کرسکتے ہیں۔ آئیے آج سے ہی شروع کردیں۔

تازہ ترین