• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت کا کہنا ہے کہ گزشتہ بارہ، تیرہ برسوں میں دہشت گردی نے ملک کے امن وامان اور ترقی کے عمل کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ بے شناخت شدت پسندوں نے پاکستان کی سلامتی کیلئے سنگین خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔ ان کے خاتمے کیلئے ضروری تھا کہ نئے قوانین لائے جائیں۔ اس لئے اس نے گزشتہ ہفتے ’’انسداد دہشت گردی ایکٹ‘‘جاری کردیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس سے دہشت گردی ختم ہو سکے گی؟ اس لئے ضروری ہے کہ اس ایکٹ کے نکات کا معروضی جائزہ لیا جائے...اس ایکٹ کو تحفظ پاکستان آرڈیننس کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے تحت خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا، ججوں کا تقرر چیف جسٹس ہائیکورٹ کی مشاورت سے ہو گا، انہیں سیشن جج کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ حکومت خصوصی عدالتوں کے جج اور گواہوں کی حفاظت کا انتظام کرے گی۔ ایکٹ کے مطابق ایئرپورٹ، جہاز یا اس کے عملے پر حملہ بھی دہشت گردی تصور ہو گا...جوہری ہتھیاروں اور ایٹمی تنصیبات پر حملہ دہشت گردی سمجھا جائے گا۔ جرائم میں معاونت کرنے والا بھی دہشت گرد تصور ہو گا۔ سائبر اور انفارمیشن سے متعلق جرم بھی دہشت گردی تصور ہوں گے۔ ارکان پارلیمینٹ، میڈیا، اہم شخصیات، عبادت گاہوں پر حملہ دہشت گردی ہو گا۔ مجرم کو کم از کم دس سال قید کی سزا ہو گی۔ مسلح افواج ضرورت پڑنے پر پولیس کے اختیارات استعمال کر سکیں گی۔ سیکورٹی اداروں کو وارنٹ کے بغیر مشکوک شخص کی گرفتاری اور جائیداد سرچ کرنے کا اختیار ہو گا۔ مجرم کو 90دن حراست میں ملک کے کسی بھی حصے میں رکھ سکیں گے اور ان کے اوپر مقدمہ ملک کے اندر موجود ایسی کسی بھی عدالت میں چلایا جا سکے گا۔ بظاہر تو اس آرڈیننس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج تک جو قوانین ملک میں موجود ہیں کیا وہ تحفظ پاکستان آرڈیننس سے متصادم ہیں یا وہ پاکستان کے تحفظ میں ناکام ہیں۔ ان میں ایسی شقیں موجود نہیں؟ ماہرین کاکہنا ہے کہ قوانین تو پہلے بھی موجود ہیں اصل مسئلہ قوانین پر ان کی صحیح روح کے مطابق عمل نہ ہونا ہے۔حالیہ آرڈیننس میں تو دہشت گرد یا دہشت گردی کی کوئی تعریف نہیں کی گئی۔ جس کی بنیاد پر اس کا غلط استعمال ہو گا۔ اس میں تو پارلیمینٹ کے ممبران، میڈیا اور اہم شخصیات کا یہ تصور کیا گیا ہے کہ یہ سب معصوم ہیں۔ دوسری طرف فورسز کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ وہ کسی کو بھی دہشت گرد قرار دیکر تین مہینے تک بغیر پرچہ درج کئے حراست میں لے سکتی ہیں اور انہیں پاکستان کے کسی بھی حصے میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ بنیادی انسانی حقوق کی نفی اور ایک طرح سے مسنگ پرسنز کے غائب ہونے کا قانونی جواز فراہم کر دیا گیا ہے۔ ماضی میں ڈیفنس آف پاکستان رولز اور سیکورٹی ایکٹ کے ناجائز استعمال کی خوفناک مثالیں ملتی ہیں۔ ملک کے دفاع اور سلامتی کے نام پر مخالفین کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے...سنگین جرائم کیلئے قوانین تو پہلے بھی موجود ہیں مشرف دور کاانسداد دہشت گردی ایکٹ بھی ہے جس کے تحت خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں۔ اسی طرح تعزیرات پاکستان اور ضابطہ فوجداری کے مروجہ قوانین میں بھی سنگین جرائم کی سزائیں موجود ہیں۔ اگر یہ سارے موثر نہیں ہو سکے تو کسی نئے آرڈیننس کے اجراء سے دہشت گردی کے تدارک کی کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
دوسری طرف دہشت گردی کے خاتمے کیلئے وزیراعظم نے پنجاب حکومت کو انسداد دہشت گردی فورس کے قیام کے ہدایت کی ہے...حکومت پنجاب نے اس ہدایت کی روشنی میں اس فورس کی تشکیل کیلئے لائحہ عمل بنا لیا ہے اور بنیادی ڈھانچے کو حتمی شکل دیکر آئندہ ماہ بھرتی کیلئے 31اکتوبر 2013ء کو اشتہار بھی دیا جا رہا ہے۔بتایا گیا ہے کہ فورس کی تربیت فوج کے اسپیشل گروپ کی طرز پر ہوگی۔ بھرتی ہونے والے اہلکاروں کو75سے85ہزار روپے تنخواہ دیگر مراعات کے علاوہ دی جائے گی۔ پہلے مرحلے میں 5سو افراد بھرتی ہوں گے اور ملک بھر سے آٹھ سے دس ہزار افراد کو بھرتی کیا جائے گا۔ اس فورس کے قیام سے ایک بات کا اعتراف کر لیا گیا ہے کہ پولیس اور دیگر ادارے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ پنجاب میں پولیس کی نفری فوج کی 9ڈویژن کے برابر بیان کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے پھر پولیس کی تنخواہوں کو معیار بنایا گیا کہ کارکردگی بہتر ہو گی مگر نہ کارکردگی بہتر ہوئی اور نہ ہی پولیس سے رشوت اور بدعنوانی کو ختم کیا جا سکا۔ ماہرین قانون اور پولیس کے بعض سابق سربراہان کا کہنا ہے کہ یہ فورس بھی ذاتی مقاصد کیلئے استعمال ہو گی، بالکل اسی طرح جیسے پہلے ہوتا رہا ہے۔ نئی فورس کے قیام کے بعد اداروں کے درمیان لڑائی اور کشمکش مزید بڑھے گی۔ پاکستان میں بننے والی ایسی فورسز کبھی بھی قانون کی عملداری میں معاون ثابت نہیں ہو سکیں بلکہ ان کا استعمال مخالفین کی سرکوبی کے سوا کچھ نہ رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ 1972کو جب پولیس نے ہڑتال کی تو FSFکے نام سے 15ہزار افراد پر مشتمل نئی فورس قائم کی۔ مقصد یہ بتایا گیا کہ یہ ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے پولیس کی مدد کرے گی مگر اس کا استعمال مخالفین کو کچلنے اور اپوزیشن کو ختم کرنے کیلئے ہوتا رہا۔ جماعت اسلامی کے متحرک رکن اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد کا قتل اور لیاقت باغ فائرنگ اسی کا کارنامہ تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے اسے پولیس میں ضم کر دیا اور پھر الذوالفقار کو کچلنے کیلئے اے ٹی سی بنائی۔ بعد میں اسے سی آئی ڈی میں تبدیل کر دیا گیا۔ سی آئی ڈی پیچیدہ کیسوں کی تفتیش اور کرائم کے حوالے سے کوآرڈینیشن کیلئے بنائی گئی بعد میں اسے دو حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ ایک کرائم برانچ جس کا کام انٹرڈسٹرکٹ کرائم کا ڈیٹا اکٹھا کرنا اور تجزیاتی رپورٹیں بنانا تھا جبکہ دوسرا حصہ اسپیشل برانچ تھا جس کا کام سیاسی انٹیلی جنس تھا۔ جب 2002ء میں پولیس آرڈرآیا تو کرائم برانچ کو مزید دو حصوں میں توسیع دے دی گئی۔ سی آئی ڈی کا نام 21جولائی 2010ء کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ رکھ دیا گیا۔ لیکن سوائے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے استعمال کے کوئی بڑا کارنامہ سامنے نہیں آیا۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے 1998ء میں بھی ایک فورس قائم کی تھی جس کا نام ایلیٹ فورس تھا اور اس کا بنیادی مقصد کائونٹر ٹیرازم تھا لیکن اب یہ فورس بھی صرف وی آئی پی کی سیکورٹی ڈیوٹیاں کر رہی ہے۔
اس لئے ملک میں جتنے مرضی نئے اور سخت قوانین بنا لئے جائیں،جتنی مرضی اسپیشل فورسز تشکیل دے دی جائں مگر دہشت گردی اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک اس کے خاتمے کے لئے قانون پر اس کی صحیح روح کے مطابق غیر جانبدارانہ طریقے سے عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اس کیلئے بہت ضروری ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان تعاون اور روابط کو اولیت دی جائے۔ نئی فورس کے قیام کا طریقہ کار کچھ اس طرح سے رکھا جائے کہ پولیس کے اندر مختلف ونگز بنا دیئے جائیں۔کرائم ونگ‘ تفتیشی ونگ‘ انسداد دہشت گردی اور اسپیشل آپریشن ونگ ‘ انسداد دہشت گردی اور اسپیشل آپریشن ونگ میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سے سب سے بہترین لوگوں کا میرٹ کی بنیاد پر چنائو کیا جائے۔ ہر ونگ کی تنخواہیں اور مراعات اس کے میرٹ کی بنیاد پر رکھی جائیں تو اس سے بہترین لوگ آگے آئیں گے اور ان کی تنخواہیں یا مراعات پر تنقید نہیں ہو گی۔ اس وقت ایک ڈی آئی جی کی تنخواہ75ہزار روپے ہے اگر اب ایک کانسٹیبل کی تنخواہ اتنی رکھ دی جائے گی تو پورے محکمے میں بے چینی پیدا ہو گی لیکن ان ونگز کیلئے ایک مکمل سروس اسٹرکچر بنا کر صرف میرٹ کو مدنظر رکھا جائے تو ہر کوئی اپنے آپ کو بہتر کرنے کی کوشش کرے گا۔ دوسری صورت میں جتنے مرضی قانون اور فورسز تشکیل دے دی جائیں، دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہو گا!
تازہ ترین