• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف صاحب 4روزہ دورہ امریکہ سے واپس پاکستان آگئے ہیں اور بقول ان کے صدر اوباما سے ان کی ملاقات بہت کامیاب رہی اور صدر اوباما کا رویہ بہت مثبت رہا۔ گزشتہ دنوں ان کا اور صدر اوباما کا ایک فوٹو تمام اخبارات میں چھپا تھا جس میں دونوں صاحبان خوشگوار موڈ میں دیکھے جا سکتے تھے۔ قوم کو اُمید کی کرن اُبھرتی نظر آرہی تھی کہ شاید صدر اوباما کو ڈرون حملے بند کرنے کے لئے ہمارے وزیر اعظم نے آمادہ کر لیا ہو گا۔ خصوصاً اسی دن امریکہ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نمائندوں نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں ڈرون حملوں کو جنگی جرائم قرار دے کر فوری طور پر بند کرنے پر زور دیا تھا اور اس کی تفصیلات اور حقائق سے پوری دنیا کی توجہ مرکوز کرائی تھی جو پاکستان کے لئے بہتری کی صورت پیدا کرنے کے لئے مثبت سوچ رکھتی تھی اور طالبان سے محاذ آرائی بھی کم کر سکتی تھی۔ پھر مذاکرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دور ہونے کا قوی امکان تھا مگر ایسا کوئی دو طرفہ اعلامیہ سامنے نہیں آسکا اور نہ ہی ماضی کی طرح دونوں سربراہوں نے مشترکہ اعلامیہ میڈیا کے ذریعے دیا۔ بس صرف ملاقات کا فوٹو سیشن شائع ہوا۔ میاں محمد نواز شریف صاحب نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ انہوں نے صدر اوباما کو ڈرون حملوں کو فوری طور پر روکنے کے لئے زور ڈالا اور اُمید ظاہر کی کہ جلد ہی ڈرون حملے جو پاکستان کی خودمختاری پر کاری ضرب اور افغانستان کے امن کی راہ میں زبردست روکاٹ ہیں، بند ہو جائیں گے۔ ابھی اس خبر کی روشنائی سوکھی بھی نہ تھی اور مذاکرات کے ثمرات سامنے بھی نہیں آئے تھے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی بنانے والے ادارے کی طرف سے کھل کر یہ بیان سامنے آیا کہ ڈرون حملوں کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ امریکہ اور نیٹو افواج اپنے دفاع میں یہ حملے جاری رکھیں گے ، مزید پاکستان کی دوسری درخواست امریکہ مسئلہ کشمیر میں ثالثی قبول کر کے بھارت پر دباؤ ڈالے تاکہ پاکستان اور بھارت کا سب سے بڑا تنازع جس کی وجہ سے ماضی میں 2بڑی جنگیں بھی ہوئی اور سرحدوں پر بھی فوج کشی ہوتی رہی ہے وہ بھی حل ہونا چاہئے لیکن امریکہ نے ثالثی کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ پاکستان، بھارت خود مل کر مسئلہ کشمیر کا حل نکالیں اور تیسرے فریق کو بیچ میں نہ ڈالیں۔
گویا اس سے بھی مایوسی ہوئی، تیسرا مسئلہ بقول ہمارے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف انہوں نے مدت سے قید عافیہ صدیقی جن کو امریکہ میں لمبی سزا ہوئی ہے، رہائی کا مطالبہ کیا تو اس میں بھی ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور عافیہ صدیقی کی رہائی کرانے میں وہ صدر اوباما کو قائل نہیں کر سکے۔ رہا پاکستان کے توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لئے امریکہ نے زبانی حامی تو بھر لی ہے مگر کب اور کیسے وہ ہماری مدد کرے گا جس سے پاکستان کی معاشی حالت بہتر ہو سکے گی اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کے برعکس اب یہ نئے انکشافات سامنے لائے گئے کہ ماضی کی حکومتوں بشمول پرویز مشرف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ادوار میں ڈرون حملوں کی توثیق اور باہمی رضامندی شامل تھی چند ثبوت وزارت خارجہ نے ہمارے وزیر اعظم کو بھی پیش کئے۔ ماضی کی حکومتوں نے خود ڈرون حملوں کی درخواست کی تھی تاکہ مفرور دہشت گردوں کا صفایا کیا جا سکے جبکہ پرویز مشرف تو ماضی میں اس کی تردید کرتے رہے اور ہمیشہ قوم اور طالبان کو یہ تاثر دیتے رہے کہ امریکہ خود اپنی طرف سے ڈرون حملے کرتا رہا۔ اُن کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ یہ طیارے کہاں سے اُڑائے جا رہے ہیں۔ آج کے اخبارات سے معلوم ہوا کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے ڈرون حملوں کی اجازت دینے کی سختی سے تردید کر دی ہے جبکہ امریکی وزارت خارجہ نے 2008؁ء میں وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کا اجازت نامہ (کیبل) بھی دکھایا تھا۔ اللہ ہی جانے پرویز مشرف اور یوسف رضا گیلانی قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے اور اپنے اقتدار کو بچاتے رہے ۔ قوم کیسے سمجھے ، کون سچا ہے اور کون جھوٹ بولتا رہا مگر اس حقیقت سے سب ہی آگاہ ہیں کہ ان ڈرون حملوں میں دہشت گردوں سے زیادہ ہزاروں معصوم شہری، عورتیں، مرد ، بچے ایک ہی جھٹکے میں موت کی نیند سلا دیئے گئے اور صرف چند ہی دہشت گرد مارے گئے۔ البتہ ان ڈرون حملوں کی وجہ سے ہزاروں خود کش بمبار پیدا ہوگئے جن کا مقصد پاکستان سے بدلہ لینا تھا اور آج تک پاکستان اس کی سزا بھگت رہا ہے اور خود اس کے ہزاروں شہری اس کا شکار ہورہے ہیں ۔ اگر حقیقت سے امریکہ کے دورے کا تجزیہ کیا جائے تو الٹا امریکہ نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ خود پاکستان دہشت گردوں کو نہ صرف پناہ دے رہا ہے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا رہا ہے۔ اس لئے انہوں نے حافظ محمد سعید کی تنظیم جماعت الدعوۃ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی عائد کرنے پر زور دیا اور ان کے سربراہ کی سر کی قیمت بھی لگا رکھی ہے جبکہ پاکستان اس تنظیم کو خالص مذہبی سمجھتا ہے جو عوام میں رفاعی خدمات انجام دے رہی ہے، ماضی میں ہونے والے ہولناک زلزلوں میں اس کی خدمات سے عوام مستفید ہو تے رہے ہیں ۔ سب سے حیرت ناک پاکستان کے غدار اور امریکہ کی نظر میں ہیرو کا درجہ رکھنے والے شکیل آفریدی جس نے اسامہ بن لادن کی مکمل مخبری کر کے ایبٹ آباد میں امریکی طیاروں سے حملہ کروا کر اسامہ بن لادن کو موت کے گھاٹ اتروایا۔ اس کی رہائی پر زور دیا جس کو ہمارے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ اس کا معاملہ عدالت میں ہے اور عدالت جو فیصلہ کرے گی دونوں حکومتوں کو قبول کرنا ہوگا۔ چند ہی دنوں میں قوم کو معلوم ہوجائے گا کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب کا دورہ کامیاب رہا جیسا کہ وہ کہہ رہے ہیں یا پھر ماضی کی طرح ناکام اور خالی ہاتھ لوٹایا گیا ہے ۔ البتہ صرف ایک بات ضرور سامنے آئی ہے کہ میاں محمد نواز شریف صاحب نے ڈرون حملوں پر کمپرومائز کرنے سے انکار کر کے قوم کے دل کی آواز اپنے ضمیر کو صاف کر کے دو ٹوک صدر اوباما کے سامنے رکھ دی جو پہلی مرتبہ کسی حکومت نے جرأت مندی کا ثبوت دیا ۔ خدا کرے طالبان مذاکرات کی میز پر بغیر پیشگی شرائط بیٹھ کر اس خطے کو پہلے کی طرح امن کا گہوارہ بنادیں اور امریکی فوج کو 2014ء تک آسانی سے واپس جانے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالیں اور مزید معصوم جانوں کو ضائع نہ ہونے دیں۔ جس کی وجہ سے ہمارا ملک بلاوجہ اس کی لپیٹ میں ہے۔
تازہ ترین