• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوسری قومیں اس سے کہیں بڑے المیوں اور تباہیوں پر قابو پاکر سرخرو ہوئی ہیں۔ ہم پاکستانی بھی وہ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ہم بھی انشاء اللہ سرخرو ہوں گے۔ ہم سب بدنیت نہیں ہیں۔ لالچی نہیں ہیں۔ شہر شہر عطیات، کپڑے اوراشیائے خوردنی اکٹھی کی جارہی ہیں۔ پک اَپ اور ٹرک امدادی سامان لے کر متاثرہ علاقوں تک پہنچ رہے ہیں۔ بڑی چھوٹی، قومی، علاقائی فلاحی تنظیموں کے خیموں میں بسکٹوں، پانی کی بوتلوں، مختلف کھانے پینے کی چیزوں کے، آٹے کے تھیلوں، دالوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ہماری اکثریت ایک دوسرے کا خیال رکھتی ہے۔ اس میں کوئی صوبائیت۔ کوئی فرقہ واریت حائل نہیں ہے۔ ہم مصطفویؐ ہیں، ہم مصطفویؐ ہیں، خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ۔

آفریں ہے ٹی وی چینلوں کے رپورٹرز پر کہ جنوبی پنجاب سندھ کے دور دراز پانی میں گھرے ہم وطنوں تک کشتیوں سے پہنچ رہے ہیں۔ ان کے دُکھ درد سے ہمیں آگاہ کررہے ہیں۔ انتہائی سینئر اینکر پرسن اورصحافی حامد میر بھی تیراکی کی جیکٹ پہنے جنوبی پنجاب میں دریائے سندھ کے پاٹ میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ یہ سب لوگوں کے جاننے کا حق ادا کررہے ہیں۔ بلوچستان زمینی اور فضائی طور پر ملک کے دوسرے علاقوں سے کٹا ہوا ہے۔ اس لئے وہاں کے بہت ہی پریشان کن حالات سے سوشل میڈیا کے توسط سے واقفیت حاصل ہورہی ہے۔

یہ درست ہے کہ ہم نے اطلاعات کے باوجود پہلے سے تیاری نہیں کی تھی۔ پہلے سے حفاظتی بند نہیں باندھے تھے۔ لیکن نوشہرہ کی اسسٹنٹ کمشنر قرۃ العین تو پہلے سے علاقہ مکینوں کے دروازوں پر دستک دے رہی تھی۔ میں انہیں ’دخترِ وطن‘ کہوں گا۔ جب تک ایسی فرض شناس درد مند سرکاری افسر ہم میں موجود ہیں، ہم یقیناً محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان اپنے 75سال میں ایسے ایسے المیوں سے گزرا ہےکہ اس کا حکومتوں ۔اداروں۔ حکمرانوں سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ نسل در نسل طعن و تشنیع۔ طنز۔ گلے شکوئوں کا تمدن منتقل ہورہا ہے۔ اس لئے ٹی وی چینلوں۔ سوشل میڈیا پر یہ دہائی سنائی دیتی ہے۔ کوئی مدد کو نہیں پہنچا۔ کسی نے کچھ نہیں دیا۔ اتنی بڑی آفت میں بہت مشکلات ہوتی ہیں۔ بڑی سڑکوں پہ خیمہ زن متاثرین اولیت حاصل کرلیتے ہیں۔ لیکن تمام فلاحی تنظیمیں اپنے طور پر پوری کوشش کررہی ہیں۔ ہمارے امام صاحب ہدایت اللہ سدوخانی نے جھڈو میں کھانا پکاکر تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ان کے مقتدی دامے درمے قدمے سخنے مدد کررہے ہیں۔ ملک بھر میں اکثر مساجد کے آئمہ اور خطیب ایسی خدمات میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ان علاقوں میں کھڑے پانی کو نکالنا اولین ترجیح ہونی چاہئے کہ یہ زیادہ لوگوں تک پہنچنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ پھرمتعدی بیماریوں کا خطرہ بھی ہے۔ عام طور پر شکایت ہے کہ مقامی محکمے متحرک نہیں ہیں۔ بہت سے دفاتر میں مچھر مار اسپرے مشینیں پڑی ہیں۔ اگر یہ شعبے خود ان کا استعمال نہیں کرسکتے۔ تو یہ ان تنظیموں اور رضا کاروں کے حوالے کردیں جو ان علاقوں میں خدمتِ خلق میں مصروف ہیں۔

یہاں اب با اختیار بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی کا ذکر ناگزیر ہے۔ جمہوریت کے دعویدار میونسپل کمیٹیوں، کارپوریشنوں اور یونین کونسلوں کو اپنا حریف سمجھ کر انہیں فعال نہیں ہونے دیتے۔ ان کے الیکشن نہیں کرواتے۔ اس مصیبت کی گھڑی میں کونسلروں۔ چیئرمینوں۔ میئروں کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ ایم این اے۔ ایم پی اے۔ سینیٹر بہت کم نظر آرہے ہیں۔ بلدیاتی ادارے اگر فعال اور با اختیار ہوتے تو وہ سب سے زیادہ موثر ثابت ہوتے۔ سیلاب سے قبل بھی وہ متحرک ہوتے۔ اپنے علاقے کے کمزور بندوں کا انہیں پتہ ہوتا۔ پہلے تو وہ سیلابی یلغار سے اپنی یونین۔ اپنی میونسپل کمیٹی۔ اپنی ڈسٹرکٹ کونسل۔ اپنی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کو محفوظ رکھنے کے انتظامات کرتے۔ ان کا آبادی سے بہت نچلی سطح پر رابطہ ہوتا ہے ۔ عوام کی ان تک رسائی ممکن ہوتی ہے۔ ایم این اے تو اسلام آباد کے فیڈرل لاجز میں خاندانوں سمیت متمکن ہوتے ہیں۔ ایم پی اے صوبائی دارالحکومت میں رہنا پسند کرتے ہیں۔

بلدیاتی ادارے جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ جمہوری ڈھانچے کی ایک ناگزیر کڑی ہیں۔ پنجاب حکومت کے بحران کے دنوں میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے یہ عظیم جملہ بار بار سننے میں آیا کہ اتنے بڑے صوبے کو حکمرانی کے بغیر نہیں چھوڑ سکتے۔ اسی طرح یہ بھی برحق ہے کہ جب 22 کروڑ آبادی میں نچلی سطح کے اس جمہوری بندوبست کا خلا چھوڑ دیا جائے گا تو پورا معاشرتی ڈھانچہ متاثر ہوگا۔ اور ہورہا ہے۔ بلدیاتی ادارے ہوتے تو موسمیاتی تبدیلیوں کی خبرداری کے بعد ہر یونین کونسل اور کمیٹی کے کونسلر اپنے کمزورمقامات کو مضبوط کرتے۔ بیوروکریسی سے زیادہ فعال ہوتے۔ ہر اسسٹنٹ کمشنر دخترِ وطن کی طرح مخلص نہیں ہوتا اور جب انخلا کا وقت آتا تب بھی کونسلر مددگار ہوتے۔

اب ہم امدادی سامان کی تقسیم کے جس مرحلے سے گزر رہے ہیں، اس میں بھی بلدیاتی اداروں کے منتخب ارکان سب سے زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوتے۔ انہیں علم ہوتا کہ کون گائوں سے نکلا یا نہیں۔ بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب، کے پی کے، گلگت بلتستان، آزاد جموں وکشمیر سب جگہ با اختیار بلدیاتی ادارے یہ بے بسی اور کسمپرسی کے مناظر وجود میں نہ آنے دیتے۔

آباد کاری اور بحالی کے مراحل گزر جائیں تو با اختیار بلدیاتی اداروں کے انتخابات کروائے جائیں۔

میری تجویز یہ بھی ہے کہ ہر متاثرہ قصبے۔ شہر میں ایک یادگاری دیوار کھڑی کی جائے۔ جس میں سیلاب میں جان سے گزرنے والوں کے نام اور تصویریں نقش ہوں۔ ان رضا کاروں اور مخیر اداروں کے نام بھی جنہوں نے خاص طور پر اس علاقے میں نیک خدمات جراتمندی سے انجام دیں۔

سوشل میڈیا نے بجا طور پر طبقاتی تضادکو اجاگر کیا ہے۔ صدیوں سے اس زمین کے وسائل پر قابض جاگیرداروں، سرداروں، سرمایہ داروں، مخدوموں، پیروں کا روایتی آقائی کردار بار بار سامنے آیا ہے۔ اپنے علاقے کے انسانوں کو وہ حشرات الارض سمجھتے ہیں۔ اتنی تباہی و بربادی نے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھولی ہیں۔ یہ رویہ صرف سندھ تک مخصوص نہیں ہے۔ بلوچستان میں سرداروں۔ جنوبی پنجاب میں تمنداروں ۔ کے پی کے میں بھی یہی رویے دکھائی دے رہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں بھی انسانوں سے غلاموں جیسا سلوک ہورہا ہے اور یہ اکثریت اسے اپنا مقدر سمجھ کر قبول کررہی ہے۔ سوشل میڈیا نے اسے بے نقاب کیا ہے۔ بڑے میڈیا سے دانشور۔ قانون دان اس قبائلی طرز زندگی کے خاتمے کے لئے آگے آئیں۔خدا کرے کہ پاکستان میں تبدیلی کے لئے سیلاب 2022ایک فیصلہ کن گھڑی بن جائے۔

تازہ ترین