• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قدرت کا عذاب، قدرت کے ہاتھوں کم اور انسانوں کے ہاتھوں زیادہ پیدا کردہ ہے جس کا سامنا اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ ماحولیاتی تباہی کا سامنا کرنے والے پاکستان کو ہے۔ ایک طرف ہماری ریاستی مشینری انسانوں اور پاک دھرتی کی سیوا کرنے کی بجائے بیرونی سلامتی کے تقاضوں سے جڑی ہے تو دوسری طرف درجن بھر ادارے، حکومتیں اور ایجنسیاں ہیں جو بغیر کسی وژن ، منصوبے اور کوآرڈینیشن کے بحران میں غوطے کھارہی ہوتی ہیں اور رہنما فوٹو سیشن کے ذریعے داد وصول کرنے کے چکر میں خالی خولی اشک شوئی کرتے نظر آرہے ہیں۔ بدقسمتی سے عمران خان کو وہ بھی توفیق نہ ہوئی اور وہ اپنے سیاسی ناچ گانے میں مگن ہیں۔ قدرتی آفات اور سیلاب کا ذمہ دار ناکردہ گناہوں کو ٹھہرا کر سیلاب و آفت زدگان کو اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے یا پھر خیراتی اداروں کے ایصالِ ثواب کی نذر۔ سیلاب آتے ہیں گزر جاتے ہیں، دھائیاں دی جاتی ہیں اور چیخ و پکار کی جاتی ہے اور پھر لوگوں کو چند ٹکے دے کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے، تاآنکہ سیلاب کا اگلا ریلا آتا ہے اور پھر گزرجاتا ہے۔ اس وقت تک 160 میں سے 116 اضلاع زیر آب ہیں۔ 15لاکھ انسانی اموات، 33ملین لوگ بے گھر، دو ملین ایکڑ پہ کھڑی فصلیں تباہ، ایک ملین جانور ناپید، 3ہزار کلومیٹر سڑکیں نابود، 670,00 گھر مسمار اور 145پل تباہ ہوچکے ہیں۔ دو ماہ سے جاری بارشوں اور سیلاب سے آبادی کے بچائو کا وقت گزر چکا اور تمام تر ادارے دیکھتے رہ گئے۔ ریلیف کے لیے بھی پانی اترنے اور راستے بحال ہونے کا انتظار ہے، جب تک ہنگامی امداد پہنچے گی جانے کیا کیا انسانی المیے گزر جائیں۔ 73 ہزار تو وہ خواتین ہیں جو حاملہ ہیں اور باقی دس لاکھ کو ماہواری کے پیڈز بھی میسر نہیں۔ بھوک ہے پیاس ہے، بیماری ہے اور بے سروسامانی ہے۔ ویسے بھی سیلاب اور طوفان باراں وہیں زیادہ آیا ہے جو محروم ترین علاقے ہیں اور جہاں غربت و پسماندگی زیادہ ہے۔ امرا تو انخلا کرگئے، غریب کہاں جاتے سوائے مرنے کے یا پھر دربدر ہونے کے۔

2010 کے سیلاب کے بعد جولائی،ا گست، ستمبر کی طوفانی بارشیں اور سیلاب سب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔ بڑی وجہ تو تباہ کن ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں جو ترقی یافتہ شمال نے پیدا کی ہیں اور بھگت رہا ہے پسماندہ و دست نگر جنوب۔ دنیا ایک بڑی ماحولیاتی تباہی کے در پہ ہے۔ گرین ہائوس گیسوں کے اخراج اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اندھیری نے قدرت و حیات کو وجودی خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ جیالوجسٹ اسے ایتھروپوسین زمانہ یعنی انسان کے ہاتھوں قدرت کی تباہی کا دور کہتے ہیں۔ ماحولیاتی کثافت پھیلائی تو ترقی یافتہ مغرب نے مگر خمیازہ مشرق بھگت رہا ہے۔ قدرت کی قیمت پر مال بنایا نفع خوروں اور ملٹی نیشنل اداروں نے، ماحولیاتی ناانصافی کا شکار ہوئے محنت کش عوام۔ ہم شاید بھول رہے ہیں کہ اس سال مارچ اپریل پاکستان میں گرم ترین مہینے تھے۔ درجۂ حرارت 53 سیلسیس تک پہنچ گیا تھا، جس کے بعد نمی کے اضافے سے بارشوں نے موسلا دھار ہونا ہی ہونا تھا۔ اب کی بار سندھ میں 784 فیصد اور بلوچستان میں 500 فیصد زیادہ بارش ہوئی۔ اوپر سے کوہِ سلیمان کے برساتی ریلوں نے جنوب مغربی پنجاب، شمالی بلوچستان اور جنوبی پختونخوا کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ گلیشیئر پگھلے تو گلگت بلتستان کے کچھ علاقے ملیا میٹ ہوئے۔ بالائی پختونخوا میں بھاری بارشوں نے چترال اور سوات کو تباہ کردیا۔

جس جدید نوآبادیاتی ریاست کا دل عوام کے ساتھ نہ ہو تو اس نے قدرتی آفات کے حوالے سے جو کیا وہ سامنے لائے دیتے ہیں۔ 2010 کے سیلاب کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ آبی گزرگاہوں میں تعمیرات نہیں ہوں گی جو سیلابی پانی کے قدرتی بہائو کو روکیں۔ عمل نہ کیا گیا۔ فیڈرل فلڈ کمشن نے نیشنل فلڈ پروٹیکشن پلان پر کام شروع کیا۔ 2015-2023 کیلئے پلان 2015میں مرتب ہوا جس پر 332ارب روپے لاگت آنی تھی۔ 2019 میں PC-1 بھی بن گیا، لیکن اس پر عمل درآمد کی نوبت نہ آئی۔ لیکن نوکرشاہی کی پھرتیاں دیکھیں کہ متعدد ادارے NDMA، NDMC، NFRCC، فیڈرل فلڈ ریلیف کمیشن، ہر سطح کی حکومتیں اور ان کی ایجنسیاں بغیر کسی نیشنل ایکشن پلان اور ویژن کے میدان میں ہیں۔ لیکن مقامی حکومت جس نے سب کچھ کرنا تھا ناپید ہے۔

ریلیف کا کام ابھی شروع ہی ہوا ہے۔ ضروریات زیادہ ہیں ذرائع کمیاب۔ شکر ہے کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور یو این کے سیکرٹری جنرل کی اپیل پر 131 ارب روپے جمع ہوگئے ہیں اور دوست ممالک اور عالمی این جی اوز مدد کو آرہی ہیں جن پر 2013 میں سلامتی کے نام پر بندش لگادی گئی تھی۔ وفاقی حکومت آئی ایم ایف کے مالیاتی شکنجے میں ہے، بمشکل ڈیفالٹ سے بچنے میں کامیاب ہوکر بھی خزانے میں اتنے پیسے نہیں کہ تباہ حالوں کی داد رسی کی جاسکے۔ لیکن ترقی یافتہ دنیا کے ماحولیاتی جرائم کی سزا پاکستان جیسے ملک کیوں بھگتیں؟ ابتدائی اندازوں کے مطابق تقریباً 10ارب ڈالرز کا نقصان ہوا ہے جو 20ارب ڈالرز تک پہنچ سکتا ہے۔ اس برس مصر میں کانفرنس آف پارٹیز 27 منعقد ہورہی ہے، جہاں ہمارے وزیر خارجہ کو بہتر تعمیرِ نو کی تحفیف (Mitigation)کی بجائے موافقت کی حکمتِ عملی (Adaptation) کا منصوبہ پیش کرنا چاہیے۔ آئی ایم ایف سے بھی مفتاح اسماعیل کسی بڑے ریلیف پیکیج کی بات شروع کرسکتے ہیں جس کی ایسی امداد کیلئے علیحدہ کھڑکی ہے۔

اس جاری طوفان و بربادی میں بہتر ہے کہ نیشنل فلڈ پروٹیکشن پلان کو اَپ ڈیٹ کر کے اس پر فوری طور پر کسی اجتماعی کمیشن کے تحت عملدرآمد شروع کردیا جائے۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان کے کم و بیش دس زرعی و ایکولاجیکل علاقے ہیں اور ان کے اپنے اپنے مخصوص حالات ہیں۔ بہتر ہوگا کہ مقامی حکومتوں کو بحال کر کے بحالی اور تعمیرِ نو کا پروگرام ان کے ذریعے شروع کیا جائے۔ 2022 کی تباہیوں اور بربادیوں کو دہرانے نہ دیا جائے۔ پاکستان کو معاشی سلامتی، سیاسی و جمہوری استحکام کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی انصاف بھی چاہیے۔ اور اسے اب ٹالا نہیں جاسکتا!

بابا گورونانک نے قدرت بارے خوب کہا تھا

پون (ہوا) گرو، پانی پتا

ماتا دھرت مہت

دیوس (دن) رات دوئے دائی دایا

کھیلے سگل (جگ) جگت (دنیا)

تازہ ترین