• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم اُس حیرت ستان کے باسی ہیں جہاں ایسے ایسے وزیرِ اعظم اور کیسے کیسے صدر گزر چکے ہیں کہ اب وزارتِ عظمیٰ یا صدارتِ پاکستان کے امیدواروں کا لنڈا بازار سج گیا ہے۔ لیکن میں پاکستانی قوم کو پورے ایقان سے کہتا ہوں کہ نبیِ آخرالزماں ﷺ کے غلاموں کے بھی غلاموں کے اس وطن میں تسلیمہ نسرین کی کوئی چاہنے والی یا سلمان رشدی کی پیروکار یہاں قیامت کے بعد بھی وزیرِ اعظم نہیں بن سکتی۔
ہاں البتہ ! میں اور پاکستان آج کل ایک ایسے وزیرِ اعظم کی تلاش میں ہیں جو دور دیس کے ملکوں میں غریب پاکستانیوں کے لئے روزگار، کاروبار، ہنر اور تعلیم کی بھیک تو بے شک مانگے مگر وہ ہمارے لئے کسی سے بھی مزید قرضے نہ مانگے۔ خدا کسی بھی با حمیت شخص کو قرض مانگنے جیسی اذیت سے کبھی نہ گزارے۔ میں نے وزرائے اعظم کو ’’ قرض بریفنگ‘‘لیتے دیکھا ۔ اس لئے مجھے اپنے وزیرِ اعظموں پر ہمیشہ ترس آتا ہے۔ جن کو بریف کرنے والے بیوروکریٹ اکثر قرض دینے والے انٹرنیشنل مالیاتی اداروں اور کمرشل بینکوں کے کارندے ہوتے ہیں۔ یہ سرکاری ڈبل شاہ سمندر پار دورے کے وقت وزیرِ اعظم کو قرض مانگنے کے ایک سو ایک طریقے سکھاتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کی زندگی پر قرضے کے شاندار اثرات کی تفصیلات کھول کر رکھتے ہیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ قرضہ مل جانے کے بعد ملک بھر میں حکومت کی نیک نامی اور گراف میں اضافے کی سلائیڈز دکھائی جاتی ہیں۔ ہمارے فنِ حکمرانی کا طے شدہ قومی اصول ہے کہ صرف خوشامد پیشہ، جگت باز اور کاسہ لیس وزیروں کو بیرونِ ملک سرکاری دوروں پر لیجایا جاتا ہے۔ جن کی وجہ سے صاحب لوگوں کی شام خراب ہو یا محفل کے رنگ میں بھنگ پڑ سکتی ہو وہ سائیڈ لائن کر دیئے جاتے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا لیں جس دورے کی تیاری میں خوشامد پیشہ ملازموں کا لشکر اور خوشامد پرست مشیروں کی بٹالین شامل ہو اُس کی تیاری سُوٹ، ٹائی، بوٹ، گھڑی اور رومال سے آگے کیسے نکل سکتی ہے...؟ امریکی دورے کی تیاری کے اس ایس۔ او۔ پی کے تحت ہمارے ہر وزیرِ اعظم کو امریکہ والوں نے نیویارک میں وہی تحفے دیئے جو امریکیوںنے ہمارے پچھلے وزیرِ اعظم کو شرمِ الشیخ میں دیئے تھے۔ شرم الشیخ سے یاد آیا کہ اب ہمیں بحیثیت قوم کم از کم اس بات پر تو شرم آجانی چاہئے کہ چھیاسٹھ سالوں بعد بھی ہم دنیا کے آگے قرضے اور مدد کی جھولی تان کر اپنے آپ کو خوددار اور خود مختار بلکہ ’’ قوم‘‘ کہتے ہیں۔
ہمیں قرض دینے والوں کو کھل کر پتہ چل گیا ہے کہ ہم ہیں کون...؟ مغرب کے محنت کش ٹیکس گزار گوروں کے پیٹ کاٹ کر قرضہ لینے والے ۔اور پھر قرضہ دینے والوں کو گالیاں دینے والے۔ قرضہ کہاں خرچ ہوتا ہے...؟ یہ بھی ساری دنیا جان گئی ہے۔ ہم جن کو پاکستان میں کاروبار کیلئے پیسہ لگانے کی دعوت دیتے ہیں۔ انہیں سب تفصیل پتہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑوں کی نقدی اُن ہی کے بینکوں میں پڑی ہوئی ہے۔ آئی ۔ایم۔ ایف اور ورلڈ بینک بین الاقوامی سود خور بنیے ہیں۔ اُن کا کام و کاروبار ہی قرضے دینا ہے۔ وہ قرض دیکر غریب قوموں کے جگر کے خون سے قرضے کی وصولی کرتے ہیں۔ وہ کب چاہیں گے کہ ایشیاء کا پاکستان یا مشرقی یورپ کا رومانیہ یا کسی دوسرے برِ اعظم کا کوئی بھی اور ملک اُن کا قرضہ ادا کرکے اُن کی معاشی غلامی سے آزاد ہوجائے...؟ یہ بین الاقوامی سود خور ادارے اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب اُن کے قرضوں کے بوجھ تلے دبے عوام کے اثاثے لُوٹ سیل میں نیلام کئے جائیں تاکہ اُن کے اپنے ایجنٹ اس نیلامی کی گنگا میں اشنان کر سکیں۔
پرانے زمانے کے بنیے سود خور نے غریب کاشتکار سے قرضہ لینا تھا۔ کاشت کار سود ادا کرتے کرتے تنگ آیا ہوا تھا ۔ اُس نے گھر کا سامان فروخت کیا ۔ زمین پر چٹائی بچھائی اور بنیے کو پوری رقم واپس کر دی۔ سود خور دھاڑیں مار کر رونے لگا اور دوڑ کر غریب کاشت کار کے پائوں پکڑ لئے۔ کاشت کار حیران و پریشان ہو گیا۔ اُس نے سود خور سے کہا خیریت تو ہے ۔ سود خور نے ہاتھ جوڑے کہا آپ اُدھار کی رقم سے پچاس روپے واپس لے لیں ۔ کاشت کار بولا وہ کیوں...؟ مجھے اب قرض نہیں چاہئے۔ سود خور منمنایا ، پچاس روپے رکھ لیں اسی بہانے میرا آپ کے گھر آنا جانا لگا رہے گا۔ بنیا سود خور جڑیں کاٹنے والا وہ خوں آشام چوہا ہے جو بظاہر بے ضرر نظر آتا ہے مگر طاعون کی وباء اُسی کے آنے جانے سے پھیلتی ہے۔
حالیہ دورہِ امریکہ کے بعد مجھے ایک ٹاک شو کے اینکر نے سوال کرنے سے پہلے امریکہ کے نام تفصیلی تَبَرّا کیا۔ پھر پوچھا آپ کیا کہتے ہیں...؟ میں نے کہا شکریہ امریکہ۔ تم نے ہمیں ہماری اوقات ہی یاد نہیں کروائی بلکہ ہمیں اپنے مسائل کا حل اپنے درمیان تلاش کرنے کا سبق بھی پڑھایا ہے۔ کسی زمانے میں لیبیا، سعودی عرب، یو اے ای جیسے اسلامک بلاک کے ممالک ہمیں مدد اور قرض دیتے تھے۔ اب وہ ہمیں کولڈ شولڈر نہیں بلکہ جواب دے چکے ہیں۔ آخر قرض کی مے اُڑانے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے...؟ خود اپنے آپ پر عدم یقین اور اپنے لوگوں پر عدم اعتماد کا بھی کوئی آخری سِرا ہو گا...؟ اس کا کھلا جواب امریکہ نے دیدیا ہے۔ کیا کوئی اس سے انکار کر سکتا ہے کہ آج بھی ہماری معاشی ٹیم وہی ہے جو مشرف کے سیاسی جہیز میں آئی تھی...؟ کیا فنانشل ایڈوائیزر بدل گئے...؟ فنانس منسٹری میں انقلابی داخل ہونے میں کامیاب ہوئے ...؟ اگر نہیں ...مگر یقیناً نہیں تو پھر کیا اسلامی اور جمہوریہ۔ نیوکلیئر اور ایشین ٹائیگر کی قسمت میں قرض کی مکھیاں مار کر کھانا لکھ دیا گیا ہے...؟ یقیناً نہیں . .نہیں... نہیں۔
آپ کسی سیاست کار ، قلم کار ، تجزیہ کار یا گالم کار سے پوچھئے۔ سب بیرونی قرضوں کے ناقد ہی نہیں کھلے مخالف ہیں ۔ لیکن کیا وجہ ہے، کل کی باسی جمہوریت کے بعد آج کی تازہ جمہوریت بھی کبھی یہ ہمت نہ کر سکی کہ وہ قرض، امداد اور بھیک مانگنے سے پہلے پارلیمنٹ سے اس اجتماعی ذلت کی منظوری لے سکے...؟ کون نہیں جانتا حکومت وہی بناتا ہے جس کے پاس نمبر گیم کی اکثریت ہو۔ اگر مان لیا جائے کہ پارلیمنٹ نمائشی ڈبیٹنگ کلب ہے ۔ تو پھر ٹرانزٹ جمہوریت یا بھاری مینڈیٹ نے قرضے کے سوال پر براہِ راست عوامی ریفرنڈم کا رسک کبھی بھی کیوں نہیں لیا...؟ حالانکہ ہر حکومت اپنے آپ کو سو فیصد عوام کی اصلی تے وڈی نمائندہ کہلانا پسند کرتی ہے۔
عوام کو زراعت چاہئے۔ ایسی زراعت جس میں " جہڑا واےہوے، اوہو ی کھاوے" ۔ پاکستان کو ایسی صنعت چاہئے جس میں دولت اور محنت کی شراکت داری ہو۔ہمیں پانی کے بڑے ذخیرے اور ڈیم چاہیئں۔ غریبوں کو دولت کی منصفانہ تقسیم چاہیئے۔ اس سرزمین کو دکھاوے کے پھانسی گھاٹ نہیں بلکہ مواقع کی مساوات والا انصاف چاہئے۔ پاکستانیوں کو وہ آخری وزیرِ اعظم دیکھنا ہے جو آزاد دنیا میں قرض اور مدد کی جھولی پھیلائے بغیر آزادانہ دورے کر سکے ۔ یہ پاکستان کی اصل آزادی کا پہلا وزیرِ اعظم ہو گا۔
تازہ ترین