• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ اور بلوچستان میں جون سے شروع ہونے والی بارش نے جولائی اور اگست تک ایسی تباہی مچائی ہے کہ لوگ اسے قیامت کے منظر سے تشبیہ دے رہے ہیںکیوں کہ جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں کچھ باقی نہیں بچا۔ فصلیں تباہ ہوگئیں ،زمینیں پانی کی نذر ہوگئیں، گھر پانی میں گھرے ہوئے ہیں، لاکھوں گھر تو صفحۂ ہستی سے ہی مٹ گئے ۔ چاروں طرف بارش کا گدلا پانی ہے، بچے بھوک سے پانی پانی اور روٹی روٹی کی صدائیں لگا رہے ہیں، مائیں اپنے آنسو شیر خوار بچوں کو پلانے کے علاوہ اور کیا کر سکتی ہیں کیونکہ بھوک نے بچوں سمیت مائوں کو بھی عجیب درد میں مبتلا کردیا ہے۔ ایسا خوفناک منظر ہے کہ لکھوں تو قلم کانپتا ہے۔ جو تباہی دیکھی ہے وہ ناقابلِ بیان ہے، کئی شہراورچھوٹے بڑے دیہات ملک سے کٹ چکے جن میں مہیھڑ اور کے این شاھ شامل ہیں۔ کے این شاھ میں تو پانی داخل ہو چکا ہے، لاکھوں کی آبادی لٹے ہوئے قافلوں کی طرح اپنا سب کچھ لُٹا کر پیدل محفوظ مقام کے طرف نکل پڑی ہے، نہ منزل کا پتہ نہ ٹھکانے کا ۔ آگےراستہ دشوارہے تو واپسی کی صورت میں پانی میں ڈوبنے کا ڈر ہے ۔

ایک اندازے کے مطابق،20 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں جن کے لئےسندھ حکومت کراچی میں خیمہ بستی لگانے کا بندوبست کرے۔ سندھ حکومت سعودی حکومت سے اپیل کر کے بھی یہ خیمےمنگوا سکتی ہے۔ایسانہ ہو کہ کوئی اور انسانی المیہ جنم لے ، ابھی تو تباہی کے بعد کی تباہی بھی ہوگی کیونکہ خوراک کے تمام ذخائر ختم ہوگئے ہیں، سرکاری دفاتر بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ منظر قیامت برپا کررہا ہے، قیامت سے پہلے قیامت آچکی ہے۔ ایسے میں اپنوںکی بے حسی بھی نظر آرہی ہے اور غیروں کی فراخ دِلی بھی، ایک بات جو قابلِ رشک ہے وہ ہے سندھ حکومت کی اس آزمائش کی گھڑی میں کارکردگی، جس پر داد نہ دینا زیادتی ہوگا۔

جنوبی پنجاب میں تباہی کے منظر پوری دنیا دیکھتی رہی مگر جب جنوبی پنجاب کے عوام مدد کے لئے صوبائی حکومت کو پکار رہے تھے تو وزیر اعلیٰ پنجاب عمران خان کو اپنی حمایت کا یقین دلا رہے تھے اور ان کی گرفتاری کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئےمنصوبہ بندی کر رہے تھے،جب کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کو تو فرصت ہی نہیں کہ وہ سیلابی علاقوں کا دورہ کریں یا عوام سے ملیں۔ یہ کام وہاں فوج کررہی ہے اور اس دوران فوج کا ایک جنرل اور اعلیٰ افسران بھی شہید ہوگئے۔ لیکن سندھ میں سندھ حکومت اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے عوام میں نظر آرہے ہیں، وزیر اعلیٰ سندھ خود ٹینٹ ساز کمپنیوں سے رابطے کررہے ہیں، تیل اور گیس کمپنیوں سے رابطے کررہے ہیں کہ وہ آگے بڑھیں اور صوبے کے عوام کی مدد کریں، وزیر اعلیٰ سندھ تیز بارش میں بھی رات کے نصف پہر عوام کے کیمپوں میں نظر آرہے ہیں، سندھ کے عوام جگہ جگہ مظاہرے کررہے ہیں، امداد کے لیے التجائیں کر رہے ہیں، سندھ حکومت کے علاوہ نہ کوئی اور جماعت نظر آرہی ہے نہ ہی کسی اور سیاسی جماعت کے عہدیدار سیلاب متاثرین کو جگہ فراہم کرنے کے لئے کوششیں کرتے نظر آرہے ہیں، ایسے میں الخدمت، جے ڈی سی اور چند دیگر ادارے سندھ حکومت کی تعریفیں کررہےہیں کہ سندھ حکومت ان کے ساتھ بھرپور تعاون کررہی ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ پہلے اپنے گھر کے بجائے دیگر اضلاع کا دورہ کرتے رہے، سید مراد علی شاہ کو شاباش بھی دینی چاہئے کہ وہ سیہون کے نہیں بلکہ سندھ کے وزیراعلیٰ ہے اور اپنے گھر کے بجائے دوسرے اضلاع کے عوام کو بارشوں سے بچانے کے لئے دن رات کام کرتے رہے، سندھ کے سرکاری افسروں کو بھی سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے 24 سے 48 گھنٹے بغیر نیند مکمل کئے لوگوں کو سیلاب سے بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی لیکن ان کرپٹ افسروں پر بھی کڑی نظر رکھے جائے جو ایسی صورتحال میں متاثرین کی مدد کرنےکے بجائے ان کے لئے دی گئی امداد میں خیانت کرتے ہیں اور ہر ایم پی اے اور ایم این اےکو ہدایت کی جائےکہ وہ بغیر کسی سیاسی وابستگی کے ہر متاثرہ شہری کی مدد کریں، بلاول بھٹو زرداری نے ایسے میں عالمی اداروں سے سیلاب متاثرین کے لئے بھرپور اپیل کی جس کے نتیجے میں عالمی اداروں نے اربوں ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے، جو ان کی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار ہے، ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان پر عالمی دنیا کا اعتمادمزید بڑھے گا، اور وہ جلد ایک بار پھر سیلاب متاثرین کی بحالی کےلئے عالمی رہنمائوں سے ملاقات کر یں گے ،دوسری طرف پولیس اور سرکاری افسر، فوج، بحریہ اور پاک فضائیہ سمیت تمام سرکاری اداروں نے اس سیلاب میں سندھ عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر یہ ثابت کیا ہے کہ موج بڑھے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے، حکومت سندھ نے سیلاب زدہگان کی امداد کے لئےجس جوش اور جذبے کا مظاہرہ کیا ہے وہ دیگر صوبوں کی حکومتوں کے لئے مشعل ِراہ ہے۔

تازہ ترین