• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات اور امریکی دورے کے بعد وزیر اعظم میاں نواز شریف وطن واپسی پر بڑے مطمئن نظر آرہے ہیں۔ ان کے اس دورے کو امریکی اور برطانوی میڈیا نے کافی اچھی کوریج دی۔ یہ وہی میڈیا ہے جس نے چند ہفتے قبل نیویارک میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر پاکستان کی نسبت بھارت اور اس کے وزیر اعظم کو زیادہ اہمیت دی تھی جو لوگ امریکی مزاج اور کلچر کو سمجھتے ہیں وہ امریکی حکام اور عوام کے رویے اور ملنے جلنے کے انداز کو سمجھتے ہیں۔ امریکی ہر کام اور ہر کسی سے ملنے میں صرف اپنے ملک کا اور ا پنا مفاد دیکھتے ہیں اس لئے وہاں ادارے بڑے مضبوط ہیں او ر میڈیا سمیت ہر ادارہ مختلف قوانین و ضوابط کا پابند بھی ہے۔ وہاں میڈیا بظاہر آزاد ہے مگر اس کے باوجود وہ قومی ا یشوز پر امریکی حکومت کے موقف کی حمایت کرتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے اس دورہ امریکہ کو اس لحاظ سے کامیاب قرار دیاجاسکتا ہے کہ اس میں امریکہ نے اپنی کافی ساری ضروریات اور مقاصد حاصل کرنے کے لئے پاکستان کی اقتصادی اور عسکری امداد کی بحالی کے لئے اقدامات کا آغاز کردیا ہے۔ یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ امریکہ کو 2014ء میں افغانستان سے اپنی30فیصد سے35فیصد فورسز واپس لے جانے کی حکمت عملی پر پاکستان کو استعمال کرکے عمل کرنا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکہ یہ کوشش کرے کہ افغانستان کے معاملات کی چابی بھارت کو دلوادی جائے اور پاکستان کے جوان اور عوام پاکستان کی سلامتی اور افغانستان میں امن کے حوالے سے جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہیں۔
قومی نقطہ نظر سے پاکستان کو امریکہ سے چند ارب ڈالر کی خاطر یہ سب کچھ قبول نہیں کرنا چاہئے۔ اس وقت تو صدر جنرل ضیاء الحق کا دور یاد آرہا ہے جب امریکہ نے روسی فوجوں کے افغانستان سے نکل جانے اور افغانستان میں روسی فوجوں کا مقابلہ کرنے کے عوض پاکستان کو5ارب ڈالر کی امداد دی تھی۔ اب بھی ایسے لگ رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے اپنی افواج کے ایک چوتھائی یا ایک تہائی حصہ کے نکل جانے کے بعد کے حالات کے حوالے سے پاکستان کو مجموعی طور پر2سے اڑھائی ارب ڈالر کی نئی امداد مختلف شعبوں میں دے دے گا۔ پاکستان کے اقتصادی حالات کے پس منظر میں تو ہمیں ایک ایک ڈالر کی اشد ضرورت ہے مگر کیا یہ سپورٹ پاکستان کی قومی خود مختاری کے تحفظ کے نام پر لینا ضروری ہے۔ خاص کر آئی ایم ایف کے حالیہ قرضہ کے بعد اس حوالے سے سیاسی اور اقتصادی حلقوں میں کئی خدشات کااظہار کیا جارہا ہے بلکہ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ بھکاری کی کوئی خود مختاری نہیں ہوتی۔ پاکستان ساٹھ سال میں ساٹھ ارب سے باسٹھ ارب ڈالر غیر ملکی قرضے لے چکاہے مگر ہمارے ہاں معاشی شعبوں میں احتساب کا عمل موثر نہ ہونے کی وجہ سے ان قرضوں کے استعمال کے بارے میں کوئی مثبت رپورٹ نہیں آئی بلکہ ان قرضوں کے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کے حوالے سے زیادہ باتیں زیر بحث آتی ہیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی امداد اور اداروں پر انحصار کم کرکے قومی سطح پر وسائل میں اضافہ کیا جائے۔ قومی ٹیکسوں کا نظام منصفانہ بنایا جائے، قانون سب کے لئے یکساں اور انصاف سب کے لئے ہوگا تو قومی ترقی کے سفر کا آغاز ہوگا۔ اس وقت کئی مثبت چیزوں کے فقدان کی وجہ سے عوام کی مشکلات کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں نہ تو آئین کی حکمرانی نظر آرہی ہے اور نہ قانون کی ۔اس لئے پاکستان میں سب سے بڑا ایشو قومی مختاری کا بنتا جارہا ہے ۔اس کے لئے ہماری سیاسی قیادت اور دیگر اداروں کو مل بیٹھ کر ایسی سوچ اختیار کرنا ہوگی جس سے قوم میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی کی کیفیت کو دور کیا جائے۔
اس وقت ملکی و غیر ملکی میڈیا نے و زیر اعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ امریکہ کے حوالے سے بار بار ڈرون حملوں کا ذکر کیا۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ امریکی ڈرون سے زیادہ بڑے حملے تو بجلی، گیس کے نرخوں میں اضافہ اور گرانی کی شرح مسلسل بڑھنے کی وجہ سے ہورہے ہیں۔ اس ڈرون کی زد میں ساری قوم آئی ہوئی ہے۔ حکومت کے کئی اقدامات اور اعلانات کے باوجود ملک میں نہ تو بے روزگاری اور نہ ہی غربت میں کوئی کمی آرہی ہے۔ اس سلسلہ میں اگر قومی شرح ترقی کا ہدف7 فیصد سے8فیصد ہوتی ہے تو یہ مسائل حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دوسری صورت میں آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق 2.5یا3 فیصد گروتھ سے قومی مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بڑھیںگے۔ اس کے لئے پاکستان کو امریکہ، یورپ یا کسی بھی ملک سے اقتصادی سپورٹ کے لئے ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جس کا مقصد ان کی شرائط پر اقتدار میں طوالت حاصل کرنے کی بجائے عوام کی مشکلات میں کمی کی جاسکے۔ اس سلسلہ میں’’ قومی مختاری‘‘ کا تحفظ کرنے کے لئے ہمیں اندرونی طور پر اقتصادی اور معاشی طور پر اتنا مضبوط بنانا ہوگا کہ کوئی ہمیں کمزور کرنے یا تقسیم کرنے کی سازش نہ کرسکے جس میں اس وقت پاکستان کی سلامتی کے درپے عناصر خاصےسرگرم نظر آرہے ہیں جو بظاہر پاکستان سے دوستی کا دعویٰ کررہے ہیں مگر عملاً پاکستان کو عالمی اور داخلی سطح پر نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔
تازہ ترین