• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آخر کار ،آئی ایم ایف پروگرام بحال ہوہی گیا ۔یہ خبر اس لیےخوش خبری بن کر آئی کہ اس بارپروگرام کی بحالی ایک کوہِ گراں بن گئی تھی۔ خاص طور پر تب، جب سابق وزیرِ خزانہ، شوکت ترین کی طرف سے وہ کالز منظرِ عام پر آئیں، جن میں پہلے سے دستخط شُدہ شرائط سے منکر ہو کر آئی ایم ایف کو مزید مشکلات پیدا کرنے اور ریاستِ پاکستان کو مشکلات میں ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ اسی لیے مالیاتی ادارے کی وہ شرائط بھی مانی گئیں، جن کا سوچا بھی نہ گیاتھا۔

یاد رہے، آئی ایم ایف پروگرام کی موجودہ بحالی کی شروعات سابق وزیرِ اعظم عمران کی ہدایت پرشوکت ترین ہی نے کی تھی۔ باوجود اس کےکہ حکومت کے اکانومِک مینیجرز اور وزیرِ خزانہ سمیت ماہرین بار بار یقین دلارہے تھے کہ مُلک میں سری لنکا جیسے دیوالیہ پن کا کوئی امکان نہیں، لیکن ایک خاص طبقہ سیاسی مفادات کے لیے عوام کومسلسل وسوسوں میں ڈال کر، خوف پھیلا رہا تھااور یہ باور کروانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ مُلک چند دِنوں میں معاشی طور پر تباہ ہوجائے گا۔اور اس کےاثرات ڈالر کی اونچی اُڑان سے اشیا ئےخورو نوش کی قیمتوں تک میںنظر آئے۔ اسٹاک ایکسچینج سنبھلنے میں تین ماہ لگ گئے، سب سے بڑھ کر عوام منہگائی سے بےحال ہوگئے۔ نیز، ریاست و حکومت کی ساکھ پر بین الاقوامی اعتمادبھی خاصا متزلزل ہوا۔

اگر 75برس گزرنے کے بعد بھی سیاست دانوں کو اتنی عقل نہیں آئی کہ معیشت کو کھیل تماشا سمجھنے کا انجام کیا ہو سکتا ہے، تو پھر اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ بہرحال، یہ مرحلہ تو طے ہوگیاکہ اب آئی ایم ایف کی طرف سے چھٹی اور ساتویں قسط ملنے کا انتظام ہوگیا ہے، جس کی مالیت 1.7ارب ڈالرز ہے۔یاد رہے، قرض لینا کوئی قابلِ تحسین عمل نہیں، لیکن جب معیشت کے ساتھ مسلسل کھلواڑ کیا جائے، تو قومیں مسلسل مقروض ہی ہوتی ہیں۔یہاںہمیں یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ مُلک کی آبادی 22کروڑ تک جا پہنچی ہے، لیکن ہمارے پاس نہ کوئی بڑے ترقیاتی منصوبے ہیں، نہ روزگار کے مواقع۔ قریباً نوّے لاکھ افراد تو تارکینِ وطن ہوچُکے ہیں اور نہ جانےکتنےجانے کو تیار ہیں۔ 

جب کہ ہمارے پاس وہی ایک گِھسا پٹا جواز اور دلیل ہے کہ لیڈر شِپ اچھی نہیں، اس لیے یہ پس ماندگی ہے۔قوم قرضوں میں جکڑی ، کرپشن عروج پر ہے، ذرا جائزہ تو لیں کہ یہ عالی شان ہاؤسنگ سوسائیٹیز اور محل نما بنگلوں کے سامنے دو، دو ہائبرڈ گاڑیاں کیسے کھڑی ہیں، کیا تن خواہ دار طبقے کے لیے اس قدر منہگی گاڑیاں افورڈ کرنا آسان ہے۔ دن، رات شاپنگز اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں دعوتوں کا پیسا کہاں سے آرہا ہے۔ پھر جلسوں، سیمینارز، کانفرنسز میں غریبوں کا رونارویا جاتا ہے اور رونا بھی وہ لوگ روتے ہیں، جو خود ہیلی کاپٹرز اور برانڈڈ گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ہمیں تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ آخر عوام کی سمجھ بوجھ کو کیا ہو جاتا ہے، وہ کیوں ان سے سوال نہیں کرتے۔ خیر، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ان بدترین معاشی حالات میں ایک بڑا ریلیف ہے۔

البتہ یہ کہنا کہ آئی ایم ایف نے رحم کھا کرایسا کیا، سراسر حماقت ہے کہ اوّل تو عالمی ادارہ خود بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان جیسا بڑی آبادی والا مُلک مستقل معاشی مشکلات سے دوچار رہے، دوم ،ہمارے مُلک کا قرض واپس کرنے کا ریکارڈ اچھا ہے،لیکن کیا قوم ہر قسم کے قرضوں سے نجات چاہتی ہے، تواس کا فیصلہ اسے خود ہی کرنا ہے۔ یہ ماضی کا رونا روکر ہوگا یا مستقبل کے صحیح فیصلے کرکے، مسیحاؤں کا انتظار کر کے یا اپنے جیسے انسانوں کی رہنمائی میں، یہ عوام کو سوچنا ہے۔ پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں مقابلہ ترقّی کی دَوڑ کا ہونا چاہیے، نہ کہ لیڈروں پر الزامات لگانے،ا نہیں جیل بھیجنے کا۔ ہر وقت کورٹ کچہری، کیا یہی ہماری سیاست ہے۔ 

میڈیا کا ہر وقت جذباتی استعمال، سوشل میڈیا پر فتوحات کے قصّے، کیا ایسے آئی ایم ایف کا قرض ادا ہوجائے گا؟ ہر گز نہیں۔ آئی ایم ایف کی قسط کے بعد معاشی ماہرین نے سُکھ کا سانس لیا کہ اب وَرلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دوسرے مالیاتی اداروں، مُلکوں کی جانب سے سرمایہ کاری کی راہ ہم وار ہوگئی ہے۔ لیکن کچھ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ پیسا بھی کرپشن کی نذر ہوجائے گا کہ ویسے بھی یہ ہماری قومی فطرت ہے کہ پیسا آیا اور کھا گئے۔ بچت کرنے کے معاملے میں دنیا میں پاکستانی قوم آخری نمبروں پر آتی ہے۔ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک بڑے بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، جس سے ایک طرف تو ضروریات پوری ہوتی ہیں ، نیز خزانے کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر کالا باغ ڈیم، دیامیر بھاشا ڈیم کو قریباً بیس بلین ڈالرزکی ضرورت ہے، جو خوابوں میں تو ملکی ذرایع سے پوری ہوسکتی ہے، مگر حقیقت میں نہیں۔ درحقیقت ہمیں اس کے لیے دیگر ممالک کا کنسورشیم بنا کر سرمایہ کاری کرنا ہوگی اور اس کے لیے ورلڈ بینک اور ایشیائی بینک جیسے اداروں کی شمولیت اور گارنٹی چاہیے۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر کوئی صرف چندہ اکٹھا کر کے یہ کام کرنے نکل کھڑا ہو، تو وہ بے وقوف بنا رہا ہے۔یہ نہ بھولیں کہ اس وقت ملکی آبادی کا بڑا حصّہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، چھوٹے لنگر خانوں وغیرہ کی افادیت اپنی جگہ، لیکن جس قوم کو دس لاکھ سے زیادہ روز گار کے مواقع چاہیے ہوں، وہاں لنگر خانوں جیسی باتیں مذاق لگتی ہیں۔ 

ہمیں ڈیمز،بڑے موٹر ویز، ہائی ویز اور ماس ٹرانزٹ، شہری منصوبوں پر کام کرنا پڑے گا، جس سے ا نفرا اسٹرکچر بھی بہتر ہو اور روز گار بھی بڑی تعدا میں ملے۔ خاص طور پر اُن نوجوانوں کو جو جامعات سے ٹیکنیکل تعلیم لے کرنکل رہے ہیں۔ ویسے بھی آئی ٹی کی اسپیس چِین اور بھارت نے بہت کم کردی ہے اور ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایک اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہاں ٹیکنیکل مضامین کے نام پرایسے ایسے مضامیں پڑھائے جاتے ہیں، جن کا اصل زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ علاوہ ازیں، پی ایچ ڈی اسکالرز کے ریسرچ پراجیکٹس پر نظر ڈالی جائے، تو لگتاہے کہ محض ڈگری کے لیے کام کیا ہے۔ انٹرن شِپ ایک مشقِ فضول بن گئی ہے اور ایچ ای سی اس پر غور تک کرنے کو تیار نہیں۔

یاد رہے، منگلا اور تربیلا ڈیم کے منصوبوں نے جہاں توانائی کی ضرورتیں پوری کیں، وہیں روز گار بھی مہیّا کیا اور یہ ورلڈ بینک اور دیگرملکوں کے کنسورشیم سے ممکن ہو پایا۔ ہم نے سی پیک میں چین کو ساٹھ ارب ڈالرز کے منصوبے کے عوض ہی شراکت داری دی تھی کہ اس سے انفرا اسٹرکچر اور روز گار دونوں ہی مل رہے تھے۔ یوں سرمایہ کاری بھی بڑھی اور تجارت کی راہیں بھی ہم وار ہوئیں۔ لیکن یاد رہے، سی پیک منصوبہ کوئی امدادی منصوبہ نہیں، بلکہ یہ بھی چینی کمپنیوں اور بینکس کی طرف سے دیئے گئے قرض سے مکمل ہوگا۔ جب آئی ایم ایف کی بین الاقوامی مالیاتی گارنٹی حاصل ہوجاتی ہے، تو وہ مُلک جو سرمایہ کاری کرنے کے خواہش مند ہوتےہیں، فوراً آگے بڑھتے، سرمایہ لگاتے ہیں۔ 

وہ ممالک، جو سرمایہ کاری کرتے ہیں، انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ کرپشن کہاں ہورہی ہے، کون کر رہا ہےیا کرپشن پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔ وہ تو یہ دیکھتے ہیں کہ اُن کا لگایا ہوا سرمایہ کتنا محفوظ ہے اور اس سے منافع ملنے کے امکانات کتنے ہیں۔ آئی ایم ایف کی گارنٹی کم ازکم اُنہیں یہ اعتماد دلا دیتی ہے کہ ان کا لگایا سرمایہ ڈوبےگا نہیں۔جب ترکیہ میں صدر اردوان وزیرِ اعظم تھے، تو انہوں نے آئی ایم ایف سے قرضے لیے، لیکن ساتھ ہی بڑے بڑے منصوبے بھی شروع کر دیئے۔

اس طرح قرضوں سے ترکی عوام کو بھی فائدہ پہنچا۔ پوری دنیا میں دھوم مچ گئی کہ نیا، جدید تُرکی وجود میں آرہاہے۔ جب استنبول کو زیرِ زمین سُرنگ کے ذریعے یورپ اور ایشیا سے ملایا گیا، تو ایک جہاں میں اس کا ذکر عام تھا۔ایسے ہی منصوبوں کی وجہ سے ترکیہ کی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہوئی اور اس نے آئی ایم ایف کا قرض واپس کرنے کا بڑا کارنامہ انجام دیا۔وہی ترکیہ، جسے ایک زمانے میں کوئی پوچھتا تک نہیں تھا، آج یورپ اور ایشیا ئی اسلامی دنیا کے لیے اقتصادی ترقّی کی مثال بن گیا ہے۔

اسی طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد جب امریکا نے وسیع ترقّی کا فیصلہ کیا اور سُپر پاوَر بننے کی طرف قدم بڑھایا تو اس نے بھی شروعات بڑے منصوبوں ہی سے کی ۔ یاد رہے، اُس وقت امریکا کی آبادی ہماری موجودہ آبادی کے برابر تھی۔اُس وقت کے امریکی صدر روزویلٹ نے اپنے منصوبہ سازوں کو یہ ٹاسک دیا، تو انہوں نے تجویز دی کہ پورے مُلک میں ہائی ویز اور بڑے بڑے تعمیراتی منصوبوں کاجال بچھا دیا جائے۔ امریکا مشہور عالمی بحالی کا منصوبے کا آغاز اسی زمانے میں کیا گیا تھا۔ جس نے جدید یورپ اور بعد میں جنوب مشرقی ایشیا کی ترقّی کی بنیاد رکھی۔ اگر چِین کا وَن بیلٹ،وَن روڈ منصوبہ دیکھا جائے، تو اس میں بھی شاہ راہوں، انڈسٹریل زونز،ہوائی اڈّوںاورریلویز وغیرہ کے منصوبوں کا لامتناہی سلسلہ سامنے آتا ہے۔

یہاں یہ مثالیں اس لیے دی جارہی ہیں کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی پر توقع ظاہر کی ہے کہ یہ آخری پروگرام ہوگا، اس کے بعد ہم خود اپنے پَیروں پر کھڑے ہوجائیں گے اور ہمیں قرض لینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ یقیناً ایسا ممکن ہے، لیکن اس کے لیے دو چیزوں کی اشد ضرورت ہے، عوام کا معاشی عزم اور سوچ۔ اس ضمن میں فضول بحث اور تھیوریز کے بجائے کام کام اور صرف کام پر توجّہ دینی چاہیے کہ ہم کہتے تو بہت کچھ ہیں،قرضوں کا ماتم بھی کرتے ہیں، لیکن عملاً کچھ نہیں کرتے۔ یہی دیکھ لیں کہ یہ سیلاب اچانک نہیں آیا، کئی سالوں سے اس کی پیش گوئی کی جا رہی تھی،لیکن ہم نے انتظامات کے نام پر کچھ نہیں کیا۔ 

عوام کو سوچنا چاہیے کہ حکومت کی کارکردگی اس کے لیڈروں کی گرج دار آواز، بدتمیز شور مچانے والے وزیروں، مشیروں، ترجمانوں سے نہیں پرکھی جاتی، بلکہ کارکردگی تو مُلک و قوم کی ترقّی کی صُورت نظر آنی چاہیے۔جو پارٹیاں اپنے دَور میں محض وعدے اور اپنی مجبوریوں کا اظہار کرتی رہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ کم زور ہیں۔ وہ نہ تو تیاری کر کے آئی تھیں، نہ ان میں حکم رانی کی اہلیت تھی۔یاد رکھیں،بڑے لیڈر زوہ ہوتے ہیں، جو تقریریں کم اور کام زیادہ کرتے ہیں۔ اچھی لیڈر شِپ وہ ہوتی ہے، جو ایک تو پارٹی کا تسلسل برقرار رکھے ، دوم اپنے کارکنان کی تربیت کرے، نہ کہ چیلے چمچےجمع کرتی ہے۔

آئی ایم ایف کے قرضے پر بہت سے لوگ یہ کہتے بھی نظر آئیں گے کہ مُلک کو پھر قرضوں کے جال میں جکڑ دیا، لیکن ایک مُلک ،جس کا بجٹ 9.5کھرب روپے ہو، اُس کے لیے ایک ارب سترہ کروڑ ڈالرز اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہی ہیں، لیکن مُلک جس معاشی گرداب میں پھنس گیا تھا، اس سے نکلنے کا کوئی راستہ تو نکالنا ہی تھا اور فی الحال وہ راستہ یہی تھا۔ایک اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ دوست ممالک نے اس حکومت کے آنے کے پانچ ماہ میں چار ارب ڈالرز اسٹیٹ بینک کو فراہم کر دیئے تھے، جو ایسے قرضوں کے لیے آئی ایم ایف کی شرط ہوتی ہے۔اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان ممالک کا ہماری معیشت کے آگے بڑھنے پر اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ 

دوست ممالک ہمارے مُلک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، چندہ نہیں دیتے، یعنی ہمارا فرض ہے معاہدہ چاہے کسی بھی حکومت نے کیاہو، ریاست اُسے ضرور پورا کرے۔ کئی منصوبے ابھی تک پینڈنگ ہیں، جن میں سے کچھ تو بین الاقوامی مجبوری ہیں، جیسے پاک، ایران گیس پائپ لائن، جس پر امریکی پابندی لگی ہوئی ہے، لیکن کچھ منصوبے جیسے سعودی عرب سے ریفائینری کا معاملہ،چھوٹے ڈیمز کی تعمیرات، جس سے فوری منافع ہوگا، ہمیں فی الفور پورے کرنے چاہئیں۔

جاپان کی کراچی سرکلر ریلوے میں دل چسپی ہے، تواس کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا تھا، لیکن وہ بھی نہیں ہوا۔اس مفروضے کو تو ذہن سے بالکل نکال دینا چاہیے کہ بیرونِ ممالک پاکستانیوں کے اربوں ڈالرز پڑے ہیں، جن کی واپسی سے سب ٹھیک ہوجائے گا، کیوں کہ یہ گزشتہ چار کیا، چالیس سال میں نہیں ہوا، بلکہ جو حکومت ان پیسوں کی واپسی کے وعدے پر آئی تھی، وہ خود اب جاچُکی ہے۔اور یہ بھی طے ہے کہ اگلے چالیس سال میں بھی ایسا ممکن نہیں کہ نہ تو کسی مُلک اور نہ ہی بین الاقوامی بینک نے اس کی تصدیق کی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا قرض رقم کے لحاظ سے کتنا ہی کم کیوں نہ ہو، ہمیں پھر ایک موقع ملا ہے کہ اس پیسے سے خُوب محنت کرکے ایک بار پھر اپنی تقدیر بنائیں۔ البتہ، یہ ضرور ہے کہ اس کے لیے ایک تو حکومت کا نظریہ بالکل واضح ہونا چاہیے، دوسرا عوام یک سوئی سے اس پر عمل کریں۔ ترکیہ، ملائیشیا، سنگاپور، کوریا اور چِین کی مثالیں بہت ہوگئیں، اب خود کچھ کرنے کا وقت ہے۔ ویسے تو ہم خود کو قرضوں میں جکڑی قوم کہتے ہیں، اپنی غربت اور مجبوریوں کا رونا روتے رہتے ہیں، لیکن معاشرتی رویے، طرزِ زندگی ایسا ہے کہ بڑی بڑی ترقّی یافتہ قومیں شرما جائیں۔

ہمارے ایک دوست برطانیہ سے حال ہی میں آئے، رات کو ریستورانوں میں رش دیکھ کر کہنے لگے’’ایسا تو برطانیہ میں بھی نہیں ہوتا، پاکستان میں تو کھانے کی میزتک پہنچنے کے لیےبھی لمبی قطار لگی ہے،غربت کہاں ہے؟‘‘ آئی ایم ایف کا قرضہ نہ سرمائے کی ریل پیل ہے، نہ خوش حالی کی دلیل، ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ اگر ریاست اور عوام ترقّی کرنے کے لیے تیار ہیں، تو دنیا بھی ساتھ دینے،ان پر اعتماد کرنے کو تیار ہے۔