• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ویسے تو بلدیاتی جمہوریت مغربی جمہوری تصورات کا جزوِ لاینفک سمجھی جاتی ہے لیکن پاکستان کی ’’جمہوری ‘‘ سیاسی جماعتوں کو مغربی جمہوریت کے صرف وہی اجزا ’’جمہوریت‘‘ نظر آتے ہیں جو انہیں اقتدار کی راہ داریوں تک لے آئیں اور پھر ’’جمہوری‘‘ گل کھلانے کا کھلا موقع دیں۔مغربی جمہوری طرزِ حکو مت جو آج کل کم و بیش پوری دنیا میں رائج ہے ، اس کی ایک قدرے بگڑی ہوئی شکل کو پاکستان کے قائدین’’جمہوریت ‘‘نے بھی از راہِ کرم اپنا لیا ہے۔ مغربی جمہوریت میں عوامی حمایت سے منتخب حکومتوں کی تقسیمِ کار بڑی واضح ہے۔ قومی اور صوبائی اور بلدیاتی اسمبلیاں اپنے اپنے دائرہ کار میں قانون سازی ، منصوبہ بندی اور نگرانی کے فرائض انجام دیتی ہیں۔ گویا پوری ریاست کی ضروریات کے پیشِ نظر ریاستی قوت کو تین درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں سے بلدیاتی حکومتیں عوام کے قریب ترین ہونے کی وجہ سے انکے روز مرہ کے معاملات دیکھتی ہیں اور انکے مسائل حل کرتی ہیں۔ یہی وہ حکومتی فرائض ہیں جو پاکستان میں سب سے زیادہ پہلوتہی کا شکار ہیں اور ایک عام شہری کے روزمرہ کے مسائل نے اسکی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ مغربی و دیگر جمہوری معاشرو ں میں بلدیاتی حکومتیں صفائی ستھرائی، شہری منصوبہ بندی، میونسپل اور میٹروپولیٹن ٹرانسپورٹ، اسکولوں و اسپتالوں کی نگرانی، امن و امان جیسے سارے امور کی نگران ہوتی ہیں اور ان معاملات میں ان کو ایک طرف تو بے پناہ خود مختاری حاصل ہوتی ہے اور دوسری طرف وہ اربوں کھربوں روپوں کے حکومتی وسائل اکٹھے بھی کرتی ہیں اور خرچ بھی کرتی ہیں گویا وہ تمام مسائل جن کا رونا ایک عام پاکستانی شہری روتا ہے وہ سار ے کے سارے بلدیاتی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔
پاکستان کی جمہوری تاریخ بھی عجیب و غریب واقعات اور رُجحانات سے بھری پڑی ہے ۔ فوجی آمروں کو بلدیاتی اداروں سے اتنی محبت ہوتی ہے کہ صوبائی اور قومی سطح کی سیاست کو محدود کرنے کیلئے وہ ضلع کی سطح کی سیاست اور جمہوریت کے بہت بڑے علمبردار نظر آتے ہیں اور سول آمروں کو صوبوں اور مرکز پر اتنا زیادہ ارتکازِ طاقت منظور ہو تا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ آرمی چیف اور آئی جی سے لیکر ایس ایچ او، پٹواری اور ایم ایس تک سب انہی کے سرچشمہِ طاقت سے فیض یاب ہوں۔ اسی لئے ، باوجود اس بات کے کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک آئینی فرض ہے،آئینی اور جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات کی سب سے بڑی دشمن رہی ہیں۔گزشتہ دورِ حکومت میں مسلم لیگ(ن) کی پنجاب حکومت سمیت دیگر صوبائی حکومتیں پانچ سال تک اپنی آئینی ذمہ داری سے راہِ فرار حاصل کرتی رہیں اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت تو میٹرو بس جیسے بلدیاتی منصوبے کو قومی انتخابات میں ایک قومی کارنامے کے طور پر پیش کرتی رہی۔
سیاسی جماعتوں کی طرف سے بلدیاتی انتخابات سے فرار کے پیچھے دراصل ان جماعتوں کے قائدین کی آمرانہ ذہنیت اور مفاد پرستی جیسی کمزوریا ں چھپی ہوئی ہیں۔ ایک صوبے کے وزیرِ اعلی کی آمرانہ خواہش ہوتی ہے کہ سارے صوبے پر اس کا کلی اختیار ہو ، سو وہ ڈی سی اور ڈی پی او کے ذریعے سارے ضلعوں کو اپنی مٹھی میں رکھتا ہے ۔ یہ بیوروکریٹ وزیر اعلی کی تو غلامی کرتے ہیں اور اسکی صحیح غلط ، قانونی، غیر قانونی تمام خواہشات پوری کرتے ہیں لیکن عوام کے حوالے سے یہ لوگ بڑے ظالم ہوتے ہیں اور ساری خرابی کی جڑ بن جاتے ہیں۔ دوسری طرف اگر مضبوط بلدیاتی حکومتیں بن جائیں تو بہت سے ضلعوں میں وزیر اعلی کی مقابل سیاسی جماعتوں کے ضلعی و تحصیل ناظموں کے منتخب ہونے کا خطرہ جمہوریت کا ڈھونگ رچانے والے ہمار ے آمرانہ ذہنیت کے وزرائے اعلی کو خوفزدہ کرتا رہتا ہے ۔ سو وہ بلدیاتی انتخابات کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہتے ہیں اور اپنی اس مجرمانہ خواہش کو پورا کرنے کیلئے بیوروکریسی کو اسکی حیثیت سے بہت زیادہ با اختیار بنا دیتے ہیں ۔ اس طرح ’’جمہوری ‘‘ وزرائے اعلی کا مسئلہ تو حل ہوجاتا ہے لیکن صوبے بھر کے عوام کے مسائل دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ مسائل جو پوری دنیا میں ضلع سطح پر عوامی نمائندے حل کر رہے ہیں،صوبائی وزرائے اعلی کی ایماء پاکستان کی کرپٹ ترین مرکزی سطح کی بیوروکریسی کیونکر حل کر سکتی ہے؟
پھر ضیاء دور کی ایک اور تاریک روایت جس نے پاکستانی سیاست میں سیاستدانوں کو خرید و فروخت کی ایک جنس بنادیا وہ غیرجماعتی انتخابات اور شتر بے مہار قومی اور صوبائی اراکینِ اسمبلیوں کو قابو میں رکھنے کیلئے ڈویلپمنٹ فنڈز کی صورت میں سیاسی رشوت کے کلچر کا آغاز تھا۔ فوجی ہماری نام نہاد سیاسی جماعتوں کی آج بھی پوری کوشش ہے کہ بلدیاتی انتخابات کا پریشر ’’یااللہ جھوٹ ‘‘ ثابت ہو جائے۔اس ’’یااللہ جھوٹ ‘‘ کی کہانی بھی سنتے جائیں۔کسی زمانے میں جیل پولیس کی ٹریننگ لے رہا تھا اور سخت گرمی میں سورج نکلنے کے بعد ڈرم کی بیٹ پر پریڈ دس منٹ میں ہی نڈھال کر دیتی تھی۔ اس کے بعدپوری کوشش کے باوجود بھی قدم اٹھنے کا نام نہیں لیتے تھے اور ڈرم پیٹنے والے موصوف اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ ٹھک ٹھک ڈرم بجاتے جاتے تھے۔ ہمارے انسٹرکٹرصاحب ہماری پریڈ کی رگ رگ سے واقف تھے ، جیسے ہی ہمار ے قدم ڈرم کی بیٹ کا ساتھ چھوڑنا شروع کرتے۔ وہ ہمیں طعنہ دیتے ہوئے ’’یا اللہ جھوٹ‘‘ ،’’یا اللہ جھوٹ‘‘ دھاڑنا شروع کر دیتے ۔دیگر بہت سے حربوں کے ساتھ ساتھ ان کا یہ گُر بھی کارگر ثابت ہوتا اور انہوں نے ہمیں پریڈ سکھا ہی دی۔
سپریم کورٹ کے اتنے توانا پریشر کے باوجود ہماری حکومتیں اورقابلِ صد احترام ریاض کیانی صاحب کی حقیقی سربراہی میں تازہ تازہ نام’’روشن‘ ‘ کرنے والا پاکستان الیکشن کمیشن آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں ، اسی دوران گھاگ قسم کے وزرائے اعلی تو قبل از انتخابات دھاندلی کا وہ سبق دوبارہ دوہراتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ، جو انہیں از بر یاد ہے۔پورا زور اپنے لوگوں کی خواہشات کے مطابق نئی حلقہ بندیوں پر لگایا جا رہا ہے کہ اگر با امرِ مجبوری بلدیاتی انتخابات کروانے بھی پڑ جائیں تو ساری ریوڑیاں اپنوں ہی میں بٹیں۔جمہوریت کے ان پاکستانی موجدین کا دل کبھی نہیں چاہے گا کہ مضبوط بلدیاتی حکومتیں وجود میں آئیں جونچلی سطح پر اختیارات اور وسائل کی منتقلی کے نتیجے میں عوامی مسائل حل کریں، کیونکہ اس نظام سے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اپنی جماعتوں کے اندر اور ریاستی سطح پرمکمل گرفت کمزور پڑنے کا خوف لاحق ہے۔ لیکن پاکستان کے تمام جمہوریت پسند طبقات کا فرض ہے کہ اسلام آبادسمیت تمام صوبوں میں مضبوط بلدیاتی حکومتوں کے قیام کیلئے ان سیاسی قائدین کو انکی آئینی ذمہ داری اور ان کے انتخابی نعروں اور وعدوں کو یاد دلاتے رہیں ۔ ان کا کام ہے کہ یہ پس و پیش کرتے رہیں اور ہمار ا کام ہے کہ ہم انہیں ’’یا اللہ جھوٹ ‘‘ کا طعنہ دیتے رہیں، اس وقت تک جب تک یہ بلدیاتی انتخابات کروانے پر مجبور نہ ہو جائیں۔
تازہ ترین