• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماضی کی پاکستانی سیاست میں ہمیشہ روشنی کم اور حرارت زیادہ رہی ہے جناب بھٹو اور جناب ضیاء الحق کے ادوار میں طعنے بازی اور الزام تراشی کی سیاست ہوتی رہی۔ اس سے پہلے بھی یا آمریتیں رہیں یا غیر مستحکم و کمزور سیاسی حکومتیں اور سیاسی سے زیادہ افسر شاہی کی حکومتیں۔ جناح صاحب کے بعد سوائے سہروردی مرحوم کے شاید ہی کوئی بچا ہو۔
خواجہ ناظم الدین جیسے بھلے انسان کا یہ حال تھا کہ جب پوچھا گیا آپ گورنر جنرل بھی رہے ہیں اور وزیراعظم بھی، اپنی طاقت کہاں زیادہ محسوس کی؟ جواب دیا کہ جب میں گورنر جنرل تھا تب وزیراعظم زیادہ مضبوط تھا اور جب میں وزیراعظم بنا تو گورنر جنرل زیادہ طاقتور تھا۔ بھٹو کی سول آمریت اور ضیاء کی فوجی آمریت کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف میں نفرت، محاذ آرائی اور الزام تراشی کی سیاست بڑی خوفناک تھی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ دونوں باہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے سیاست کرتے ہیں۔ اگرچہ ہر دو اعلیٰ شخصیات باہم نرم پڑیں بھی تو عسکری و سول اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ان کے اپنے حواریوں نے کوئی نہ کوئی ایسی تیلی لگائی کہ تیل بوتلوں میں لانے والے گویا پہلے ہی تیار بیٹھے ہوتے تھے ان دنوں قومی سیاست کا جائزہ لیتے ہوئے ہم نے یہ لکھا تھا کہ قومی سیاست سیاسی نابالغوں کے ہاتھ میں ہے لیکن پھر مشرف کے شب خون نے ان دونوں کی آنکھیں کھول دیں تب انہیں احساس ہوا کہ ہمیں لڑا کر خود حکومت کرنے والے اصلی چہرے کون سے ہیں۔ مابعد بتدریج وہ وقت آیا کہ ایک دوسرے کے خلاف جن کے خون کھولتے تھے وہ بلاشبہ درد بانٹنے والے بھائی بہن بن گئے وقت کے ساتھ سیاسی لحاظ سے ہر دو شخصیات اتنی بالغ ہوئیں کہ قوم کو 14 مئی 2006ء کا وہ مبارک دن نصیب ہوا جب ان دونوں شخصیات نے لندن میں منجھے ہوئے سیاستدان ہونے کا ثبوت دیا اور ’’چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ پر دستخط کر دیئے۔ آج ہم اپنی سیاست میں جو روشنی، روا داری اور بالغ نظری دیکھ رہے ہیں یہ درحقیقت اسی میثاق جمہوریت کا فیضان ہے جس پر وطن عزیز کی آنے والی نسلیں ان دونوں بڑی شخصیات کی احسان مند رہیں گی۔
یہ اسی قربت، ہم آہنگی اور باہمی اعتماد و احترام کے رشتے کا کرشمہ تھا کہ 2008ء میں جذباتی لوگوں نے پورا زور لگایا میاں صاحب کو بھرپور اکسایا کہ الیکشن 2008ء کا بائیکاٹ کرتے ہوئے احتجاجی سیاست کا راستہ اپنائیں لیکن بی بی صاحبہ نے میاں نواز شریف سے اپنا تعلق ٹوٹنے نہیں دیا اور بالآخر انہیں اس راہ پر چلایا جس غیر جذباتی جمہوری راہ پر وہ خود چلنا چاہتی تھیں۔ وطن عزیز کی یہ بدقسمتی تھی کہ محترمہ 27 دسمبر 2008ء کو شہید کر دی گئیں لیکن اپنی موت سے پہلے آخری شخص جس سے وہ بات کرنا چاہتی تھیں، نواز شریف تھے۔
صدر زرداری کو جس اچھی طرح رخصت کیا گیااور جواباً زرداری نے جس طرح جذبات کا اظہارکیایہ سیاسی بالغ نظری کا اظہار تھا۔بظاہر چوہدری شجاعت حسین اور نواز شریف میں دوریاں نہیں لیکن صدر زرداری کے اعزاز میں تقریب کے دوران نواز شریف نے چوہدری شجاعت حسین کا خود استقبال کیا اور کہا چوہدری صاحب آپ کی مہربانی ہے کہ آپ تشریف لائے ہیں جواب میں چوہدری صاحب نے کہا کہ میاں صاحب آپ نے اتنی محبت سے بلایا تھا تو کیوں نہ آتے۔ اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے ماہ و سال میں یہ دوریاں بھی قربتوں میں بدل سکتی ہیں۔ اس پس منظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف کی قیادت میں وطن عزیز کی موجودہ سیاست اچھی خاصی میچور ہو چکی ہے اگر تمام تر غلطیوں اور کوتاہیوں کے باوجود سابقہ جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کئے ہیں تو یہ کسی ایجنسی کی مہربانی یا کسی عسکری شخصیت کی کرم نوازی نہ تھی اسٹیبلشمنٹ موقع ضائع نہیں کرتی اصل بات کسی کو موقع نہ دینا ہے ہماری نظر میں اس کا کریڈٹ چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرنے والی اپوزیشن قیادت کو جاتا ہے اس سیاسی بالغ نظری کا اعتراف کرنے کے باوجود سیاست میں موجود بہت سی کوتاہیوں کو بھی ماننا پڑے گا۔ سب سے بڑی کوتاہی سیاست میں جذباتی مذہبی ہتھیاروں کا استعمال ہے۔ اگرچہ مذہب کا سیاسی استعمال صدیوں پرانا ہے مگر عصری شعوری ترقی کے ساتھ اب اس حوالے سے نکھارآ جانا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے یہاں تو سیاسی جماعتیں ہی عقیدوں مذہبی نظریوں اور فرقوں کی بنیاد پر بنی ہوئی ہیں اور کیا مذہبی کیا غیر مذہبی اپنا الّو سیدھا کرنے کے لئے سب لوگ مذہبی جذبات کو بھڑکاتے ہیں اور پھر ان کا سیاسی استعمال کرتے ہیں۔
افسوس اس حوالے سے وہ ہنوز بالغ نظری کی منزل سے دور ہیں۔ اس کے علاوہ سیاست میں تشدد کا استعمال کئی خرابیوں کو جنم دیتا ہے۔ سیاست تو نام ہی آئینی و جمہوری جدوجہد کا ہے۔ جمہوریت کے معنی ہیں تشدد کی نفی۔ دلیل سے بات کرو، احتجاج کرو تو وہ بھی سلیقے سے استدلال سے۔ اگر آپ نے تشدد کرنا ہے تو اس کے معنی ہیں کہ آپ نے جمہوریت و سیاست کا گلا کاٹنا ہے۔ سیاست میں بالغ نظری کے لئے ہماری نظر میں تیسری چیز ہے اقتدار کے لئے صبرو حوصلے کا فقدان۔ آپ اقتدار کے لئے جمہوری جدوجہد ضرور کریں لیکن مسلمہ سیاسی اصولوں کے ساتھ جب بھی اقتدار کے لئے پاگل پن آیا سیاست کے لئے تباہی اور ملک کے لئے بربادی لایا۔ متحدہ پاکستان میں جب شیخ مجیب الرحمن صاحب واضح اکثریت سے جیتے تھے یہ بھٹو صاحب کی اقتدار کے لئے ناجائز بے صبری تھی کہ سیاست کا ہی نہیں ملک کا بھی بیڑہ غرق کرادیا۔ آج بھی ہماری سیاست میں کچھ ایسے نووارد ہیں جو یہ تمنا رکھتے ہیں کہ راتوں رات کرسیٔ اقتدار پر براجمان ہو جائیں اس کے لئے کبھی وہ کھوکھلے و جذباتی نعرے لگاتے ہیں اور کبھی ہلکے درجے کی الزام تراشی۔ ان لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے سیاسی رویّے میں بالغ نظری اختیار کریں صبر اور حوصلے سے باوقار اسلوب سیاست اپنائیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں نے وقت کے ساتھ بہت کچھ سیکھا ہے ولی خاں صاحب اور مفتی محمود صاحب کے بیٹے بھی وقت کے ساتھ خاصے بالغ نظر ہوگئے ہیں۔ جناب منور حسن، الطاف حسین اور عمران خاں صاحبان کی خدمت میں بھی ہماری گزارش ہے کہ وہ بھی اس حوالے سے نہ صرف یہ کہ خود آگے بڑھیں بلکہ اپنی پارٹیوں کو بھی آگے بڑھائیں ورنہ وطن عزیز میں سیاست کے علاوہ خدمت کے اور بھی بہت سے اصلاحی و رفاہی کام سرانجام دیئے جا سکتے ہیں۔
تازہ ترین