• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے نام کسی نے اپنے خط میں لکھا ہے’’امن بھائی،ہم چندہ کرکے آپ کو ہندوستان بھیجیں گے تاکہ آپ اپنی آشا سے مل سکیں مگر ہمیں اتنا تو بتائیں کہ آپ بکرے سے دوبار آدمی کیسے بنے؟‘‘ خط پڑھنے کے بعد میں نے چھان بین کی۔ میری کہانی پڑھنے کے بعد کئی لوگ جن کے گھر کے افراد غائب ہوگئے ہیں، خواہ مخواہ مخمصوں میں پڑ گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ گم شدہ افراد کو بکرا بنانے کے بعد ذبح کردیا گیا ہے۔ امیدوں پر زندہ رہنے والے ایسے لوگ بھی ہیں جو آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کے غائب، بھائی،بیٹے،والد وغیرہ ایک روز میری طرح زندہ لوٹ آئیں گے اور سب سے مل کر رو پڑیں گے۔ ایک بے حد بوڑھی عورت کو نہ جانے کس نے میرے گھر کاپتہ بتا دیا، وہ آئیں زاروقطار روتے ہوئے انہوں نے کہا ’’دس برس سے میرا جوان بیٹا غائب ہے، تیرا قصہ پڑھنے کے بعد مجھے لگتا ہے،میرے بیٹے کو کسی نے بکرا بناکر غائب کردیا ہے۔ بیٹا تو میری مدد کر، جیسے تو پھر سے آدمی بن کر لوٹ آیا ہے، میرا بیٹا بھی لوٹ آئے‘‘۔
بڑھیا کو تسلی دیتے ہوئے میں نے کہا’’ایک پیر سائیں کی بددعا سے میں بکرا بن گیا تھا، اسی پیر سائیں کی دعا سے میں پھر سے آدمی بن گیا ہوں‘‘۔ بڑھیا نے منتیں کرتے ہوئے کہا ’’بیٹا تو مجھے اس پیر سائیں کا پتہ دے یا پھر مجھے پیر سائیں کے پاس لے چل۔ میں ان کے آگے گڑگڑاؤں گی کہ میرے دس سال سے غائب بیٹے کے حق میں دعا کریں تاکہ میرا بیٹا گھر لوٹ آئے‘‘۔
’’دس برس بہت زیادہ ہوتے ہیں اماں‘‘۔ میں نے کہا’’ہوسکتا ہے وہ اب تک…‘‘۔
’’آگے کچھ مت کہنا‘‘ بڑھیا نے روتے ہوئے کہا’’میرے بیٹے کوکچھ نہیں ہوا ہے۔ ہاں میں ماں ہوں، میں جانتی ہوں میرا بیٹا زندہ ہے،وہ زندہ ہے۔بکرا ہی سہی مگر وہ لوٹ آئے، تو مجھے پیر سائیں سے ملا‘‘۔
’’پیر سائیں بے پروا مجھے دیکھتے ہی آپے سے نکل جاتے ہیں‘‘ بڑی مشکل سے بڑھیا کوٹالتے ہوئے میں نے کہا’’میں آپ کو پیر سائیں بے پروا کا پتہ دیتا ہوں،آپ خود جاکر ان سے ملیے‘‘۔
پیر سائیں بے پروا وزیر اعظموں، وزرائے اعلیٰ، وزیروں، سرکاری افسروں، سیاستدانوں، بیوپاریوں، انڈر ورلڈ اور اووز ورلڈ کے ڈانوں، لینڈ مافیا،بلڈر مافیا اور ہتھیار اور ہیروئن کاکاروبار کرنے والوں کے پیرومرشد ہیں۔ ہم جیسے لوگ اگر سچ مچ کے گھوڑے ہوتے پھر بھی پیر سائیں بے پروا ہمیں گھاس نہیں ڈالتے۔ وہ تو اتفاق کی بات تھی کہ میرا ان سے آمنا سامنا ہوگیا تھا۔ میں کوستا ہوں اس دن کو، ان سے میرا نہ آمنا سامنا ہوتا اور نہ ہی بکرا بن کر اذیتوں سے گزرتا۔ کراچی کے ڈان اور گپی بھائی کا میں مرہون منت ہوں، جن کی سفارش پر پیرسائیں بے پروا نے اپنی بددعا واپس لی اور میں بکرے سے آدمی بن کر گھر لوٹ آیا۔ آپ جانتے ہیں میں کیوں گھر لوٹ آیا اور وہ بھی شام کے وقت؟ اس لئے کہ میں بدھو ہوں، دنیا کا ہر بدھو شام کے وقت گھر لوٹ آتا ہے۔ اس بات میں فلسفہ ہے لہٰذا کوئی بدھو صبح سویرے ،دوپہر اور رات کو گھر نہیں لوٹتا۔ بدھو جب بھی لوٹتا ہے شام کو گھر لوٹتا ہے۔
کراچی کے ڈان کو میں براہ راست نہیں جانتا تھا۔ وہ میرے بچپن کے دوست، میرے ہم راز، میرے غم گسار، میرے یار غاز کھپی کے منہ بولے بھائی گپی کے بااعتماد بزنس پارٹنر ہیں۔ آپ یوں سمجھ لیجئے کہ کراچی کا ڈان میرے لنگوٹیے یار گپی کافرنٹ مین ہے۔ اگر بیشمار املاک آپ کے نام میں رجسڑڈ ہے اور آپ نہیں چاہتے کہ لوگوں کوپتہ چلے کہ آپ کے پاس کتنی املاک ہے تب آپ مزید املاک اور اثاثے کسی اور شخص کے نام میں خریدتے ہیں، ایسا شخص آپ کا فرنٹ مین ہوتا ہے۔ کراچی کاڈان گپی کافرنٹ مین ہے۔ کراچی میں بننے والی ہر دوسری عمارت گپی کی املاک ہے۔ کچھ جاسوسوں کا خیال ہے کہ گپی بذات خود کھپی کافرنٹ مین ہے۔ محققوں نے ثابت کردیا ہے کہ دولت والوں کی دنیا میں سب لوگ ایک دوسرے کے فرنٹ مین ہوتے ہیں۔ چھوڑیئے فلسفے کی باتیں اب آپ قصہ سنیں میرے دوبارہ بکرے سے انسان بننے کا۔
عید رات بہت دیر گئے میں نے کراچی کے ڈان کو مویشیوں کی منڈی میں ٹہلتے ہوئے دیکھا۔ خوشامدیوں کے علاوہ آٹھ دس کمانڈو قسم کے گن مین اس کے ساتھ تھے۔ ان سب کے پیٹ بہت بڑے تھے اور ٹانگیں دبلی پتلی تھیں۔ جب وہ میرے قریب سے گزرا تو میں نے اسے آواز دی ’’ڈان بھائی!‘‘
ڈان بھائی رک گیا۔ ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ میں نے کہا’’میں گپی کے بچپن کادوست بالم بدایونی تیرے سامنے کھڑا ہوں اور بہت پریشان ہوں‘‘ ڈان نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا’’بالم تو مجھے دکھتا کیوں نہیں۔ کیا تو ابھی بھی گم شم ٹوپی پہنتا ہے! ‘‘ میں نے کہا ’’میں تیرے سامنے کھڑا ہوں ڈان بھائی‘‘۔ تعجب سے ہر طرف دیکھتے ہوئے ڈان نے کہا ’’تو میرے سامنے کھڑا ہے؟‘‘
’’ہاں ڈان بھائی‘‘ میں نے کہا’’تیرے سامنے آنکھوں پہ کالی عینک لگائے سلمان خان جیسا جو بکرا کھڑا ہوا ہے، وہ میں ہوں،گپی کادوست بالم بدایونی‘‘۔ لپک کر ڈان نے مجھے سینگوں سے پکڑتے ہوئے پوچھا’’تیری یہ حالت کس نے بنائی ہے بالم؟‘‘
میں نے کہا ’’بے پروا نے‘‘۔
گپی نے جیب سے موبائل فون نکالا اور پیر سائیں بے پروا کا نمبر ملایا ۔علیک سلیک کے بعد ڈان نے پیر سائیں سے کہا’’پیر سائیں گستاخی کی معافی چاہتا ہوں۔آپ نے میرے دوست بالم بدایونی کو بکرا بنا دیا ہے،آپ اسے دوبارہ انسان بنا دیجئے‘‘۔ڈان کان سے فون لگائے پیر سائیں کو سنتا ریا پھر اس نے کہا’’اپنی گستاخی پر بالم شرمندہ ہے، بہت پچھتایا ہے اس نے آپ کی بددعا سے بکرا بن جانے کے بعد بالم توبہ تائب ہوتا رہا ہے۔ آپ اسے معاف کر دیجئے۔اپنی کرامت سے دوبارہ اسے آدمی بنادیجئے‘‘ دیکھتے ہی دیکھتے میں دوبارہ بکرے سے آدمی بن گیا۔ میں خوش نصیب تھا۔گپی اور ڈان جیسے لوگ میرے دوست تھے،باقی بکرے کٹ گئے۔
تازہ ترین