• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو آگ نشہ باز کے داخل میں دہکتی ہے اُس کا نعرہ بھی ’ہل من مزید‘ہے۔ نشہ آور اشیاء سے ایک مخصوص کیفیت حاصل ہوتی ہے، لیکن کچھ مدت بعد یہ کیفیت حاصل کرنے کے لئے منشیات کی مقدار بڑھانا پڑتی ہے (SCARFACE اور Al Pacino یاد آ گئے) ویسے بھی انسانی فطرت جاننا چاہتی ہے کہ اس موڑ سے آگے کا منظر کیسا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ کچھ مہم جُو مسافرانِ راہ سُکر ہل من مزید کا ورد کرتے کرتے زہرِ افعی تک جا پہنچتے ہیں، اپنی زبان پر سانپ سے ڈسواتے ہیں، زہر ان کے لہو میں تیرتا ہے، اور پھررفتہ رفتہ یہی زہر ان کی زندگی کا ضامن بن جاتا ہے۔

آج تک ہم ایک ہی بات جمہوری راہ نمائوں سے سنتے آئے تھے کہ آرمی چیف کو اپنے آئینی حلف کی پاس داری کرنی چاہئے، یعنی سیاست کے خرابے سے دور رہنا چاہئے اور آئینی دائرے کے اندر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں، اور یہ کہ آرمی چیف لگانا وزیرِ اعظم کا اختیار ہے۔اس کے علاوہ ماضی کے ناخوش گوار تجربات سے سیکھ کر سنجیدہ حلقے یہ مشورہ دیتے ہیں کہ تین سینئر جرنیلوں میں سے ہی چیف کا انتخاب ہونا چاہئے تاکہ ادارے اور سیاسی نظام کو غیر ضروری افراتفری اور کش مکش سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اب ذرا ان اوصافِ حمیدہ کا ذکر ہو جائے جو عمران خان آرمی چیف میں دیکھنا چاہتے ہیں، وہ فرماتے ہیں چیف کو ’تگڑا‘ ہونا چاہئے اور ’محبِ وطن‘ ہونا چاہئے۔ کیا مطلب ہوا؟ یہ خوبیاں ہر فوجی میں نہیں ہونی چاہئیں؟ یہ وظائف ہر وزیرِ اعظم بلکہ ہر حکومتی عہدے دار میں نہیں ہونے چاہئیں؟ وہ کون سے عہدے ہیں جن کے لئے غیر محبِ وطن افراد سے بھی کام چل سکتا ہے؟ کتنے سینئر افسران ہیں جنہیں خان صاحب نے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے؟ اور کیا یہ سرٹیفکیٹ انہوں نے خود جاری کئے ہیں یا کسی اور نے؟

خان صاحب سے حُب الوطنی کی تعریف بھی اچھی طرح سمجھنی چاہئے، وہ کسے محب وطن سمجھتے ہیں، اپنے حلف کی پاس داری کرنے والے کو یا ان کے سیاسی مخالفین کو چُن چُن کر جیلوں میں ڈالنے والے کو؟ محب وطن وہ ہے جو آئینی نظام کے استحکام کا باعث بنتا ہے یا وہ جو ہائی برڈ نظام کھڑا کرتا ہے؟ یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ آئین سے خان صاحب کے لگائو کا یہ عالم ہے کہ حکومت چھوڑنے سے پہلے سات دن میں انہوں نے پانچ مرتبہ آئین توڑا تھا، اور ملکی تاریخ کے پہلے آئین شکن کی عظمت اجاگر کرنے کے لئےوہ اپنے اکثر جلسوں میں ویڈیوز بھی چلاتے رہے ہیں۔ چلیںخان صاحب آپ یہ بتائیں کہ محب وطن چیف وہ تھا جسے نواز شریف نے لگایا تھا، یا وہ تھا جسے آپ نے ایکسٹینشن دی تھی؟ کچھ تو بتائیں خان صاحب، اور اگر آپ نہیں بتائیں گے تو پھر ہمیں مجبوراً محبِ وطن افسر کی تعریف جسٹس شوکت صدیقی سے پوچھنا پڑے گی۔ بہرحال، یوں لگتا ہے جیسے عمران خان کسی خاص نام سے بہ وجوہ خوف زدہ ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ اس حوالے سے کوئی تنازع کھڑا کر سکیں، ابھی انہوں نے ابتدا کی ہے، غالباً وہ ایک دو قدم آگے بھی جائیں گے، اور بھرپور کوشش کریں گے کہ جس طرح ان کے رفیقِ دیرینہ کو مریم نواز اور زرداری صاحب نے نام لے کر متنازع بنا دیا، اسی طرح وہ بھی جوابی وار کر سکیں۔

اوریہ تو ہونا ہی تھا۔ہمارے محلے میں ایک بہت ’تگڑا‘ آدمی تھا، جس نے اپنے تین سال کے بیٹے گڈو کو ’شیریں سخنی‘ کے چند نمونے یاد کروا رکھے تھے، جو وہ بڑے فخر سے اپنے مہمانوں کو گڈو کی توتلی زبان میں سنواتا اور اپنے اس کارنامے پر نازاں دکھائی دیا کرتا تھا۔جب گڈو جوان ہوا تو اس نے اپنے والد صاحب پر بھی مشقِ سخن کاآغاز کر دیا۔ اور یہ تو ہونا ہی تھا۔ پہلے عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو گالیاں دیتے تھے، پھرپارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے لگے، پھر عدالتوں اور الیکشن کمیشن کی عزت افزائی کرنے لگے، اور اب وہ ایک قدم اور آگے بڑھ گئے ہیں۔ اس میں گڈو کا کوئی قصور نہیں ہے، اسے یہی آدابِ فرزندی سکھائے گئے تھے، اسے کبھی کسی نے ٹوکا ہی نہیں، پارلیمنٹ پر حملہ کرے، حوالات پردھاوا بول کر اپنے لوگ چھڑائے، پولیس فورس پر تشدد کرے، پی ٹی وی میں گھس جائے، سرکاری افسروں کے نام اپنی ڈائری میں نوٹ کرے، آئین توڑے قانون توڑے، یعنی جو جی چاہے کرے اسے کبھی روکا ہی نہیں گیا، اس کی ہر ہر بد تہذیبی پر مسکراتے ہوئے کہا گیا ’گڈو بڑا شرارتی ہے‘۔ سو یہ تو ہونا ہی تھا۔جس نے اختلافِ رائے کیا اسے مزا چکھایا گیا، صحافی تھا تو لفافی قرار پایا، جج تھا تو ریفرنس بنا دیا گیا، سیاست دان تھا تو چور ڈاکو کہہ کر جیل میں ڈال دیا گیا، ادارے کے بعد ادارہ تباہ کیا گیا، ایک ہی ادارہ بچا تھا، مگر کب تک، ہل من مزید کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں، شرارتی گڈو اپنے باپ کا گریبان پکڑ کر کھڑا ہے ، یہ تو ہونا ہی تھا کہ دو جمع دو چار ہی تو ہوتے ہیں، کیکر کے بیج سے کیکر ہی اُگ سکتا تھا، سر و کا بوٹا نہیں۔تو اب دامن تو اڑے گا،پھٹے گا، یہ تو ہونا ہی تھا۔

باقی سب خیریت ہے،اربابِ بست و کشاد اس صورتِ احوال پر غم و غصے کا اظہار کر چکے ہیں، ہم بھی کئے دیتے ہیں، اس ضمن میں اگر غم و غصہ مزید بڑھااور کوئی گریہ کی مجلس منعقد کی گئی تو ہم بھی ضرور حلقہء نوحہ گراں میں شامل ہو کر ثوابِ دارین حاصل کریں گے، تب تک کے لئےاجازت دیجئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین