• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی سویلین وزیرِ اعظم نے اپنی پارٹی آئینی مدّت پوری نہیں کی۔ اس میں پاکستان کو پہلا متفقّہ آئین دینے والے اور جوہری طاقت بنانے والے ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل ہیں جنہیں تختہء دار پر لٹکا دیا گیا۔ ان کا سیاسی کیرئیر تقریباََ دو دہائیوں پر مشتمل تھا جس میں وہ وزیرِ قدرتی معدنیات ، تونائی ، وزیرِ خارجہ ، صدر مملکت اور پہلے منتخب وزیرِ اعظم کے عہدوں پر فائز رہے۔ اور ہر حیثیت میں انہوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ وہ صرف ایک سیاسی رہنما ہی نہیں بلکہ ایک سیاسی مفکّر بھی تھے۔اور ان کی صلاحیتوں کا اعتراف دنیا کے بڑے بڑے رہنما کیا کرتے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے خاندان اور پارٹی نے جو صعوبتیں برداشت کیں، ان کا عشرِ عشیر بھی کوئی اور سیاسی جماعت پیش نہیں کر سکتی ۔ ان کے دونوں نوجوان بیٹوں کو بھی بے رحمی سے شہید کر دیا گیا اور ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو جس نے نہ صرف فوجی ڈکٹیٹر وں کے خلاف جمہوریت کی بقا کے لیے طویل جنگ لڑی ، قیدو بند اور جلا وطنی کے عذاب سہے بلکہ اپنے بابا کی طرح جان کی قربانی بھی دے دی۔ ان کی شہادت کے بعد سندھ کے طول وعرض میں شدید ہنگامے شروع ہو گئے لیکن ان کے شوہر آصف علی زرداری نے جو خود بھی گیارہ سال جھوٹے مقدمات میں پابندِ سلاسل رہے ، کبھی ریاست کے خلاف ایک لفظ تک نہ کہا بلکہ یہ تمام تکالیف سہنے کے باوجود ’’ پاکستان کھپے ‘‘یعنی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ اسی طرح اقتدار سے کئی مرتبہ نکالے جانے اور جلا وطنی کے بعد بھی میاں نواز شریف، ان کے خاندان اور پارٹی نے پاکستان کو توڑنے کی بات کبھی نہیں کی۔ لیکن حیرانی اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر محلّاتی سازشوں کے ذریعے برسرِ اقتدار آنے والے عمران خان نے اپنی حکومت جاتے ہی ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف بہتان تراشی اور کردار کشی کی وہ مہم شروع کی جس کا تصّور کسی بھی آزاد ریاست میں ممکن نہیں۔جس کے بارے میں بھارتی حلقوں نے بھی یہاں تک کہہ دیا کہ جو کام بھارت پاکستانی فوج کو کمزور اور بدنام کرنے کےلئے نہیں کر سکا وہ عمران خان نے کر دکھایا ہے۔ پہلے انہوں نے اپنے پونے چار سالہ دورمیں پاکستانی معیشت کو زمین بوس کر دیا اور رہی سہی کسر جاتے جاتے آئی ایم ایف کے معاہدے کے برعکس پیڑول اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کرکے پوری کردی، جس کی وجہ سے فروری میں آئی ایم ایف نے اپنا معاہدہ ختم کردیا اور پاکستان کو دیوالیہ پن کے شدید خطرات لاحق ہوگئے۔ موجودہ حکومت نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے مشکل ترین فیصلے کئے ، جس کا شدید مالی بوجھ پاکستان کے غریب عوام اور سیاسی بوجھ حکومتی اتحاد کو بھگتنا پڑا۔ لیکن اقتدار کی ہوس میں منتقم مزاج عمران خان کی تسلی نہ ہوئی اور ان کی ہدایات کے مطابق ان کے سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے اپنی پوری کوشش کی کہ آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہ ہو تاکہ عوام جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور جن پر حالیہ قیامت خیز سیلاب نے مصائب کے مزید پہاڑ توڑ دئیے ہیںاتنے مجبور ہو جائیں کہ ملک انارکی اور انتشار کا شکار ہوجائے ۔ گویا محض اپنے اقتدار کی خاطر ملکی سلامتی کو بھی دائو پر لگا دیا گیا، جس کا کوئی ذی شعور اور محب ِ وطن پاکستانی تصّور بھی نہیں کر سکتا۔ صرف یہی نہیں عمران خان کی سیاست بحیثیت اپوزیشن رہنما دھرنوں ، گھیرائوجلائو اور نفرت انگیزی پر محیط رہی اور بحیثیت حکمران بدترین گورننس، معاشی تباہی ، سیاسی انتقام ، میڈیا پر آمرانہ پابندیوں اور مذہبی بلیک میلنگ سے عبارت ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے انہوں نے ایک کروڑ ملازمتیں ، پچاس ہزار گھروں ، وزیرِ اعظم اور گورنر ہائوسز کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کرنے جیسے ناقابلِ عمل نعرے لگائے۔ اور جب حکومت میں تشریف لائے تو قوم کو بھینسوں ، کٹوں ، انڈوں اور مرغیوں کے چکّر میں ڈال دیا۔ اپنی نا اہلی اور غلط پالیسیوں سے معیشت کو منفی درجے تک پہنچا دیا۔ انہوں نے اپنے مختصر دور میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ قرضہ لیا۔ لیکن اس کا مصرف کہیں نظر نہ آیا۔ ہر روز انتظامی افسروں اور وزیروں کی تبدیلیاں ایک مذاق بن کر رہ گئیں ۔ پنجاب جیسے بڑے صوبے کا سربراہ ایک ایسے شخص کو بنا دیا گیا، جو کونسلر بننے کا اہل بھی نہ تھا۔ اگر عثمان بزدار اتنا ہی عظیم سیاستدان اور ایڈمنسٹریٹر تھا تو عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ عمران نے انہیں اپنی پارٹی میں کوئی اہم عہدہ کیوں نہیں دیا؟ عمران خان جو خود کو عقل کل اور تمام علوم کا ماہر سمجھتے ہیں، وہ درحقیقت علمِ سیاست، تاریخ اور مذہبی امور میںقابلِ رحم تک کم علمی کا شکار ہیں۔ ان کے جغرافیے ، تاریخ اور مذہبی امور کے بارے میں حوالے اکثر غلط اور خود ساختہ ہوتے ہیں۔ان کی ذاتی ایمانداری کا پردہ چاک کرنے کے لئے ممنوعہ فنڈنگ ، توشہ خانہ کےتحائف ہی کافی ہیں۔ وہ انصاف کے بارے میں خلفائے راشدین کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے لیکن خود کو ہر قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔توہین ِ عدالت ان کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔وہ ایک مکمل کنفیوژڈ شخص ہیں، جو کبھی ریاست ِ مدینہ کا نعرہ لگاتے ہیں اورکبھی مغربی جمہوریت اور چینی نظام کا،اور کبھی محمد بن سلمان کی طرح کے اختیارات مانگتے ہیں۔ فیصل واوڈاکو اگر غلط بیانی کی وجہ سے قومی اسمبلی کی سیٹ سے محروم کر دیا جائے تو اسے سفیر بنا دیتے ہیں، ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئے تو آئین شکنی کے ذریعے سے اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فوج، عدلیہ اور ہر ادارے کو نیست و نابود کر دینا چاہتے ہیںکہ وہ اگرنہیں تو ملک بھی جائے بھاڑ میں۔ کیا ایسے فاشٹ رجحانات رکھنے والا شخص قوم کی قیادت کا حقدار ہے؟

تازہ ترین