• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوج کے سینئر جرنیلوں میں کوئی غیر محبِ وطن ہوسکتا ہے؟عمران کو یقین ہے ۔عمران خان کے ماننے، چاہنے والوں کا جذبہ جنون اور جوش آسمان پر، وجہ نیا بیانیہ، عمران خان کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشانہ ہے۔ 23 جنوری 2022ء کو بطور وزیر اعظم قومی نشریاتی تقریر فرمائی ،’’اگر مجھے اقتدار سے علیحدہ کیا گیا تو خطرناک ثابت ہوں گا‘‘۔

بالآخر 10اپریل کو اقتدار سے باہر ہوئے تو دن رات خطرناک بننے کے لئے وقف ۔ ملک کے طول و عرض میں جلسے، جلوس، لانگ مارچ، ملک کے خلاف سازشیں،سب کچھ جھونک چکے ہیں۔ مطالبہ ایک ہی، فوری الیکشن۔الٹی میٹم، فوری الیکشن نہ کرائے تو 25لاکھ لوگوں کیساتھ اسلام آباد پر چڑھائی، حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا تھا۔پشاور سے مارچ کا آغازکیا،بالآخر 25مئی کو اسلام آباد پر یلغار کر ڈالی۔ خیبرپختونخوا ، دو تہائی اکثریت، حکومتی وسائل دستیاب۔

پشاور تا کراچی درجنوں جلسے کئے،ماننے والوں کا جذبہ ساتویں آسمان پر، نئے ترانے ،عہدِعثمانی کے جنگی بینڈ اور ترانوں نے منظرپیش کیا۔

دورائے نہیں کہ آج کے سیاستدانوں میں سے سب سے دلیر، عوامی طور پر پُر اثر تقاریر اور ٹکراؤاور تصادم کا بیانیہ نئی مقبولیت متعارف کرا گیا۔ تحریک انصاف کے اکثر سینئر لیڈر اور نوجوان ہمہ وقت مستقل رابطے میں، سب کی غلط فہمیاں یا خوش فہمیاں مبالغہ آرائی کی ساری حدیں عبور کر گئیں۔

 سچائی وارے میں آئے یا نہیں ، اس کے قریب نہیں بھٹکنے دیا۔مفروضے ایسے جو وارے میں،عمران خان دوتہائی اکثریت کا لیڈر، اسٹیبلشمنٹ کے اندر تقسیم موجود،حکومت یا ادارے گھبراگئے، مقبولیت کا جادو سر چڑھ کربول رہا ہے۔ ہر ادارے میں بغاوت ہوسکتی ہے۔عمران خان نے کمال مہارت سے اپنی جماعت کو CULTکا درجہ دیا ، ان کو سڑکوں پر نکالا ،تصادم ٹکراؤ کے بیانیے نے مقبولیت کو چار چاند لگائے۔

نیا بیانیہ حیرت انگیز تریاق، 2018ء کے انتخابی وعدے ،حکومتی کارکردگی سب کچھ طاقِ نسیاں پر۔ایک بات پلے سے باندھی، ’’سازش کے تحت اقتدار سے باہر ہوئے‘‘۔تمام متعلقین دل سے ایمان اوردل و جان قربان کرنے کے جذبے سے سرشار سڑکوں پر تھے۔

عمران خان کو دوبارہ وزیر اعظم بنوانے کیلئے کوشاں تھے۔عمران خان سیاسی حکمت عملی سے نا بلد ،اہلیت قریب نہیں بھٹکی۔قطع نظر، دھمکیوں ، بلیک میل کرنے سے فوری انتخاب حاصل کرنا،مقصد اور امید۔ ایسے بیانیے نے مقبولیت اور بکھرے ہوئے مایوس کارکنوں کو یکجا ضرور کیا، مطلوبہ نتائج کا حصول کبھی بھی ممکن تھا۔ہمیشہ سے رائے کہ اداروںکے ساتھ ٹکراؤالیکشن سے دور بلکہ سیاست سے باہر کر دیتا ہے۔ایسا بیانیہ رفعتیں دیتا ہے۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اسٹیبلشمنٹ سے جو بھی ٹکرایاپذیرائی ملنا آزمودہ فارمولہ ضرور،انتخابی سیاست سے لگا نہیں کھاتا۔ادارے نہ بھولتے ہیں اور نہ ہی معاف کرتے ہیں۔

عمران خان آخری دنوں شدت سے اقتدار پر جمے ،کسی قیمت اقتدارچھوڑنے پر تیار نہیں تھے۔ عمران خان کی اقتدار سے علیحدگی بزور طاقت یا ماورائے آئین اقدامات کے ذریعے نہیں بلکہ عین آئینی تقاضوں کو پورا کر کے ہوئی۔وطنی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی۔عمران خان نے اس کو اپنی بے عزتی اور توہین جانا۔

اس سے پہلے جب انہیں سن گن ہوئی ، غصے سے بپھرے ،کبھی ملفوف اور کبھی ننگے الفاظ سے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔ایسا بیانیہ عمران خان کو مقبولیت دے گیا مگرالیکشن سے کوسوں دور لے گیا۔عمران خان نے فوری الیکشن کروانے کے لئے ترکش کے سارے تیر چلا دیئے،جلوس،جلسوں پر پیسہ پانی کی طرح بہایا۔

درجنوں جلسے کراچی تا پشاور کر ڈالے۔ 25/30 لاکھ لوگوں کو اسلام آباد لانے کا دعویٰ ،بالآخر 25مئی کو ’’لانگ مارچ‘‘ کا دن آیا تو سارے صوبائی وسائل کے باوجود عوام کو اسلام آباد لانے میں ناکامی ہوئی۔مجھے نہیں معلوم کہ ساڑھے تین ماہ بعد آج ستمبر میں مقبولیت 25مئی سے دگنی ہوچکی ہے یا نہیں۔ اضافے کی وجہ بظاہر موجود نہیں اور اگر ہے تو7/8 ہزار کا دگنا 14/16ہزار ۔عمران خان کو معلوم کہ اسلام آباد پر ناکام دو چڑھائیوں کے بعد تیسری چڑھائی کامیاب کیونکر ممکن ہوگی؟

چند ماہ پہلے پاکستان کی مقبول ترین تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کی اکثریت قطار باندھے، نواز شریف سے الیکشن ٹکٹ وصول کرنے کیلئے تن من دھن سے کوشاں تھی۔نواز شریف ایک’’ لغو الزام‘‘ پر سیاست سے باہر،آج عمران خان بغیر کسی چیلنج کے دندناتے پھرتے ہیں۔

طبیعت مائل تو مخالف سیاستدانوں کو گالیوں ، بہتانوں اور جھوٹے الزامات سے نواز دیا،خلجان آیا تو اسٹیبلشمنٹ پر برس پڑے،مزاج یار میں آیا، عدالتوں کی ’’توقیر و عزت ‘‘ کو مٹی میں ملایا،جھجھک رہی نہیں ہے۔آج جب اسلام آباد ہائیکورٹ کی کمال مہربانی پرشوکاز نوٹس کا ضمنی جواب جمع کروایا تو معافی میں افسوس کیا کہ نادانستگی میں ہوا۔فرماتے ہیں ’’ سوچ بھی نہیں سکتا تھا عدلیہ کی توہین کا‘‘،مذاق اپنی جگہ،آج عدالت نے اسے معافی سمجھ کر معاف کر دینا ہے۔

25مئی کے بعد تحریک انصاف نے ساری امید، توجہ پاکستان کے ڈیفالٹ اور اقتصادی ابتری سے باندھ لی۔

پاکستان کو سری لنکابنانے پر توجہ دی۔شوکت ترین کا دو صوبائی وزرائے خزانہ سے رابطہ کر کے آئی ایم ایف کی مدد رُکوانااور پاکستان کو ڈیفالٹ کی طرف دھکیلنا۔ایسے پرعزم واقعات عمران ٹولے کے حصے میں۔’’ہوئے تم دوست جس کے ‘‘۔ہر جگہ منہ کی کھانی پڑی۔سیاسی منظرنامے پر خوش آئند تصویراور پرامید حالات کی موجودگی کیساتھ عمران خان کے خلاف انواع واقسام کے لوازمات، گو نا گوں مقدمات تعمیری مراحل میں ہیں۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس سوہانِ روح،یاد رہے کہ تحریک انصاف اس کیس کے دباؤمیں8سال سے گھٹن میں،الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد حواس باختہ،عمران خان ممنوعہ فنڈنگ کیس کے شدید دباؤ میں ہیں۔فنڈ ریزنگ والی کامیاب رات کے بعد ممنوعہ فنڈنگ کیس(مماثلت کا شک نہیں)صاف معلوم ہوتا تھا کہ نفسیاتی طور پر دباؤ میں،ممنوعہ فنڈنگ پر صفائیاں، وضاحتیں دیتے پائے گئے۔

علاوہ ازیں توشہ خانہ،250ملین کے عوض 450کنال زمین ہتھیانا،اپنے دور میں ہر طرح کے کرپشن اسکینڈل، فرح گوگی، توہین عدالت، ریاست اور اداروں پر ہر طرح کا حملہ، اخلاقی اورمالی بد عنوانیوں پر مرتب فائلیں ،سب کچھ، بہت کچھ کرنے کو ۔ممنوعہ فنڈنگ کیس واحد جہاں عمران خان بین الاقوامی اور ملکی سطح پرفوری طور پر گھیرے میں ہیں۔عارف نقوی کا نام ہی کافی ہے۔

سیمن کلارک کی فنانشل ٹائمزمیں رپورٹ اورابراج گروپ پر کتاب چشم کُشا، ہو شرباء، عمران خان کی ساکھ کو زمین بوس کر چکی ہے۔عمران خان کے خلاف چارج شیٹ جس میں خیرات کے نام پر پیسہ اکٹھا کر کے سیاست کو پروان چڑھایاسے لے کر منی لانڈرنگ اور کیا کچھ مواد موجود نہیں۔

عارف نقوی 280سال جیل بھگتنے کی دہلیز پر۔ جہاں فنانشل ٹائمز نے عمران خان کے دیانتداری امیج کو پاش پاش کر دیا۔عمران خان نے تحریک انصاف کو سختی سے منع کر رکھا ہے کہ فنانشل ٹائمز رپورٹ کو زیر بحث نہیں لانا۔ اس کیس میں، عمران خان اور درجنوں دوسروں نے عدالتی گرفت میں آنا ہے۔سزا اور نا اہلی سے بچ نہیں پائیں گے۔

تازہ ترین