• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

محترمہ بے نظیر بھٹو کے دبئی سے کراچی آنے کےاعلانات کے بعد محترمہ کے کراچی آمد والے دن سے ایک روز پہلے ہی ہزاروں لوگ ملک کے مختلف علاقوں سے کراچی آکر ایئر پورٹ کے گرد جمع ہونے لگے۔ یہ اطلاعات جب کراچی پریس کلب پہنچیں تو ہم دو‘ تین صحافی اس نتیجے پر پہنچے کہ دوسرے دن صبح کو ایئر پورٹ پہنچنا آسان نہیں ہوگا۔ طے یہ پایا کہ رات کو ہی ملیر کےعلاقے میں کسی دوست کے ہاں منتقل ہوجائیں اور وہاں سے اس استقبال کی کوریج کے لئے ملیر سے ایئر پورٹ آئیں دوسرے دن جب ہم ملیر سے ساڑھے نو بجے صبح کراچی ایئر پورٹ پہنچے تو وہاں لاکھوں لوگ جمع ہوچکے تھے‘ لوگ وہاں موجود ہوٹلوں سے اور ٹھیلے والوں سے بسکٹ اور چائے کا ناشتہ کررہے تھے۔ ہم اس اجتماع کو کراس کرکے کسی طرح ہوائی اڈے تک جا پہنچے۔ جب ہوائی جہاز ایئر پورٹ پر کھڑا ہوا تو ہزاروں لوگوں نے جیے بھٹو کے زور دار نعرے لگانے شروع کردیئے‘ اسی دوران ہوائی جہاز کا دروازہ کھلا اور لوگوں کو محترمہ بے نظیر بھٹو ہوائی جہاز کے دروازے پر کھڑی نظر آئیں تو یہ نعرے چاروں طرف سے اور زور دار انداز میں لگائے جانے لگے مگر اس وقت چاروں طرف خاموشی چھا گئی جب محترمہ دروازے سے باہر آنے کے بعد سیڑھیوں کے ذریعے نیچے اترنے کے بجائے خاموش کھڑی رہیں پھر آسمان کی طرف چہرہ کرکے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر اللہ پاک سے دعا مانگنے لگیں‘ بعد میں سیڑھیاں اترنے کے بعد پی پی رہنما انہیں اسی ٹرک پر لائے جس کے ذریعے انہیں کراچی شہر آنا تھا وہ جیسے ہی ٹرک کی چھت پر آئیں تو استقبالیہ ہجوم کی طرف سے زور دار نعرے لگائے جانے لگے‘ محترمہ کے سامنے رکھےہوئےڈائس جس پر مائیک لگا ہوا تھا، اس پر ایک اسکرین لگی ہوئی تھی‘ مائیک کے نزدیک آتے ہی محترمہ نے پارٹی رہنماؤں سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ محترمہ کو بتایا گیا کہ یہ بلٹ پروف اسکرین ہے‘ اس بات پر محترمہ کافی ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں کہ یہ اسکرین یہاں کیوں لگائی گئی ہے؟ جواب میں پارٹی رہنماؤں نے بتایا کہ محترمہ ہماری اطلاعات کے مطابق کچھ قوتیں آپ پر قاتلانہ حملہ کرنا چاہتی ہیں ممکن ہے کہ ایئر پورٹ سے بلاول ہاؤس تک پہنچنے کے دوران آپ پر فائرنگ کا منصوبہ ہو۔ یہ سن کر محترمہ آگ بگولہ ہوگئیں اور آگے بڑھ کر اسکرین کو ڈائس سے اتار کر زور سے نیچے پھینک دیا اور کہنے لگیں کہ یہ ہزاروں لاکھوں لوگ جو پتہ نہیں کہاں کہاں سے آئے ہیں ، کھلے عام میرا استقبال کررہے ہیں، میرے حق میں نعرے لگا رہے ہیں اور میں بلٹ پروف اسکرین کے پیچھے خود کو محفوظ کرکے ان سے خطاب کروں؟ محترمہ نے صاف لفظوں میں کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا‘ مائیک سے محترمہ کے جملے سن کر استقبالیہ ہجوم محترمہ کے حق میں زور دار نعرے لگانے لگا، اس کے بعد محترمہ نے مختصر خطاب بھی کیا، شاہراہ فیصل پر ان کا ٹرک شہر کی طرف بڑھنے لگا،ہم جب ہوائی اڈے سے باہر آئے تو دیکھا کہ وہ افراد جو ایک آدھ گھنٹہ پہلے شدید بھوک کی شکایت کررہے تھے کیونکہ اس پورے علاقے میں کھانے پینے کی اشیامکمل طور پر ختم ہوچکی تھیں، ٹرک پر سوار محترمہ بے نظیر بھٹو کو دیکھ کر اپنی بھوک بھول گئےتھے اور ٹرک اور استقبالیہ ہجوم کے نزدیک جاکر محترمہ کے حق میں زور دار نعرے لگارہے تھے۔ یہ نظارہ بھی دیکھنے کے لائق تھا کہ جب یہ ٹرک ان علاقوں سے گزرا جہاں روڈ کے دونوں طرف چھوٹی بڑی عمارتیں تھیں اور ان کی چھتوں اور گیلریوں میں مردوں، بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد کھڑی ہوکر محترمہ کا استقبال کررہی تھی۔ بہرحال جب اندھیرا پھیلنے لگاتو ایک مرحلے پر ٹرک پر بم حملہ کیا گیا اور فائرنگ بھی کی گئی۔(جاری ہے)

تازہ ترین