• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کالم کا آج کا عنوان دیکھ کر آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ شبیر کمانڈو کسی فلم کا نام ہے اورشاید ہم اس پر بات کریں گے۔ شبیر کمانڈو واقعی ایک حقیقی اور عجیب و غریب فلمی قسم کا کردار ہے جو ہمارے پورے معاشرے پر چھاپا ہوا ہے اور ہمارے ملک کی بربادی میں اس کردار کا بہت دخل ہے یہ کریکٹر ہمارے ملک کے ہر ڈیپارٹمنٹ میں موجود ہے اور شاید ہمیشہ رہے گا، یہ کردار وہ ہے کہ اسے جس کام کے لئے لگایا جاتا ہے وہ یہ کام نہیں کرتا بلکہ وہ کام کرتا ہے جس کا وہ اہل نہیں ہم زیادہ سسپنس نہیں ڈالتے، آپ کو بتا ہی دیتے ہیں عزیز قارئین! آپ نے یقیناً چند روز قبل جنگ لاہور میں یہ خبر پڑھی ہو گی کہ ڈسکہ کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ایک نوجوان اپنڈکس کی درد کے ساتھ آیا، مذکورہ سرجن نے ایک نہیں بلکہ اس نوجوان کامران افضل کے (جو اب اس دنیا میں شبیر کمانڈو کی وجہ سے نہیں ہے) دو آپریشن کر ڈالے، مریض کو انستھیزیا یعنی آپریشن سے قبل بے ہوشی کی دوائی ایک غیر تربیت یافتہ اور ٹیوب ویل آپریٹر شبیر حسین کمانڈو نے دی۔ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے باصلاحیت چیئرمین ڈاکٹر محمد اجمل اور ان کے رفقاء کار ڈاکٹر ریاض احمد تسنیم اور دیگر کو جب یہ شکایت موصول ہوئی۔
انہوں نے انکوائری کی اور انکوائری میں ثابت ہو گیا کہ مریض کی ہلاکت کے ذمہ دار سرجن شاہد فاروق اور شبیر حسین کمانڈو ٹیوب ویل آپریٹر ہے۔ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے وہ پرائیویٹ ہسپتال بند کرنے کا حکم دے دیا ہے اور دونوں کو پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور گرفتاری کا حکم بھی دیا گیا ہے، اب دونوں مفرور ہیں اور یہ مقدمہ دفعہ 322 کے تحت درج کیا گیا ہے۔ کامران افضل، شبیر کمانڈو کی ’’مہربانی‘‘ سے اللہ کو پیارا ہو گیا۔ ایک گھرانہ اجڑ گیا اور کمانڈو بھاگ گیا،اب یہ دونوں چند برس مفرور رہیں گے پھر کسی چھوٹے شہر میں پھر کسی نئے نام سے پرائیویٹ ہسپتال شروع کرکے شبیر کمانڈو ٹیوب ویل آپریٹر دوبارہ لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے میدان ’’عمل‘‘ میں آ جائے گا ،کوئی حکومتی ادارہ، کوئی عدالت اور کوئی پولیس انہیں تاحال پکڑ نہیں سکی، اس دوران شبیر کمانڈو کئی اور زندگیوں کا چراغ گل کر دے گا۔ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے بڑی محنت اور لگن کے ساتھ انکوائری رپورٹ مرتب کی بلکہ ملتان میں ایک چلتا پھرتا پرائیویٹ کلینک بھی پکڑا جو ایک دائی چلا رہی ہے اور بچوں کی ڈلیوری کرتی ہے اور جب کیس خراب ہو جاتا ہے تو وہ دائی بمعہ اپنی ٹیم کے غائب ہو جاتی ہے اور پھر کسی نئی بستی میں یہ خوفناک کھیل شروع کر دیتی ہے اور ہر مرتبہ ایک نئے نام سے ہسپتال قائم کر لیتی ہے۔ یہ شبیر کمانڈو ٹیوب ویل آپریٹر ہمارے ملک میں ہر محکمے میں موجود ہے۔ وہ کسی بھی ادارے کا سربراہ بنتا ہے پھر وہاں پر خوب تباہی مچاتا ہے خوب کمائی کرتا ہے اور پھر وہاں سے خود ہی یا حکومتی طریقہ کار کے مطابق اس کا تبادلہ کسی اور محکمے میں ہو جاتا ہے اور وہاں کوئی اور شبیر کمانڈو آ جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ کمانڈو ایکشن ہی تو ہے کہ آپ اس محکمہ میں لوٹ مار کریں، حکمرانوں کو غلط اعداد و شمار پیش کرکے خوش کریں، اپنی جیب بھریں اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ آپ نے وہ خبر پڑھ لی ہو گی کہ کسی طرح متروکہ وقف املاک بورڈ کی سکھوں اور دیگر اراضی کو وہاں کے کئی ’’شبیر کمانڈوز‘‘ نے مختلف لوگوں اور اداروں کو فروخت کیا اور اب بیرون ملک موجیں مار رہے ہیں بلکہ ان کے ایک سابق سربراہ آصف ہاشمی تو مختلف ٹی وی چینلز پر دعوے کر رہے ہیں، کوئی ان کی کرپشن ثابت نہیں کر سکتا۔ واقعی جہاں پر شبیرکمانڈو جیسے لوگ ہوں گے وہاں کون ان کی کرپشن ثابت کر سکے گا؟
آج ہمارے حکمران بار بار ترکی اور چین جاتے ہیں، وہاں کی ترقی اور کئی ’’چیزوں‘‘ سے متاثر ہیں، تو جناب وہاں کی سیاست اور بیورو کریسی میں کوئی ’’شبیر کمانڈو‘‘ نہیں۔ دنیا کے ہر ملک نے 50 سے 70 برس میں ترقی کے زینے چڑھ لئے ہیں، ہم آگے جانے کی بجائے پیچھے کی طرف بڑی تیزی کے ساتھ سفر کر رہے ہیں، روشنی سے اندھیروں کی طرف کا سفر شروع کر چکے ہیں، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ انتہا کو پہنچ چکی ہے، ترکی اور چین کی قوم کو مخلص اور ایماندار قیادت ملتی رہی ہے، ہمیں یہاں پر شبیر کمانڈو ہی ملتے رہے۔ کئی سال پہلے کراچی کے ایک محکمے کو شکایت ملی کہ ایک گل خان نامی پٹھان ایک معروف برانڈ کا جعلی صابن بنا کر فروخت کر رہا ہے، چنانچہ اس کو پکڑ لیا گیا، معاملہ اس ادارے کے سربراہ بیورو کریٹ کے پاس لایا گیا۔ جب گل خان اس بیورو کریٹ کے پاس آیا تو اس نے کہا کہ میرا صابن جعلی کہاں سے ہے، ہم نے اس معروف برانڈ کی کمپنی کی سیکنڈ ہینڈ مشینری خریدی وہاں کا انجینئر پارٹ ٹائم ہمارے پاس کام کرتا ہے، وہی فارمولا ہے وہی کیمیکلز ہیں آپ لیبارٹری میں چیک کرائو، اس بیورو کریٹ نے گل خان کی بات مان کر صابن لیبارٹری میں بھیج دیا اور معروف کمپنی کا صابن بھی ساتھ بھیج دیا، جب رپورٹ آئی تو دونوں صابنوں کی کوالٹی اور تمام اجزاء بالکل ایک معیار کے قرار پائے، اس پر گل خان نے کہا کہ بتائو میرا صابن جعلی کہاں سے ہوا؟ ہم اصل تو بنا نہیں سکتے تو کم از کم گل خاں والا فارمولا ہی اپنا لیں اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال دیں۔ ایک ایسے گل خان کی ضرورت ہے جو دوسرے ممالک کی ترقی اور منصوبوں کو نقل کر سکے، یہ علیحدہ بات ہے کہ کوریا اور کئی ممالک نے ایوب خان کے دور میں بننے والے منصوبوں کو دیکھ کر اپنے ہاں وہ کام شروع کیا اور آج وہ ہم سے بہت آگے جا چکے ہیں ہمارے حالات تو اب یہ ہو چکے ہیں کہ ہم اب نقل بھی نہیں کر سکتے۔ کاش حکومت کبھی ان ’’بابے‘‘ بیورو کریٹس کو بلائے اور پوچھے کہ تم جو ہر وقت ڈینگیں مارتے رہتے ہو تم لوگوں نے اپنےدور میں آخر کیا توپ چلائی ہے؟ ذرا بتائو تو سہی، آج ملک کا ہر ڈیپارٹمنٹ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں پر کرپشن کے اندھیرے ڈیرہ ڈالے نہیں بیٹھے۔ پچھلے دنوں ایک درویش منش بیورو کریٹ نے پتہ نہیں کس طرح دو سرے بیورو کریٹس کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس ملک کی اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہے کہ واسا اور دیگر شہروں میں ملک کے حکومتی ادارے جو پانی فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں لوگ ان کا پانی نہیں پیتے بلکہ پینے کے پانی کے لئے انہیں مختلف کمپنیوں سے پانی لینا پڑتا ہے، کبھی کسی نے اس پر سوچا اور تازہ ترین خبر تو آپ سب نے پڑھ لی ہو گی کہ گورنر ہائوس کا پانی پینے والوں کو کینسر کا خطرہ، ریسرچ ادارے نے گورنر ہائوس کے پانی میں خطرناک اجزاء کی موجودگی ثابت کر دی ہے، فرسودہ فلٹریشن پلانٹ آرسینک کو پانی سے علیحدہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، یہ پانی گورنر ہائوس میں قائم اسکول کے سینکڑوں بچے، ملازمین اور دیگر لوگ بھی پیتے ہیں۔ ہم نے 67 برس میں یہ ترقی کی ہے کہ لوگوں کو پینے کے لئے صاف پانی مہیا نہیں کر سکے آج اس ملک میں جو 80 فیصد بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں اس کی ایک وجہ پینے کے لئے صاف پانی کا نہ ملنا ہے، پورے ملک میں کسی بھی فلٹریشن پلانٹ کو چیک کرنے کا مناسب انتظام نہیں، کاش حکمران یہ سمجھ سکیں اس ملک کے غریب لوگ بھی زندہ انسان ہیں، سیاست میں بھی کئی شبیر کمانڈوز ٹیوب ویل آپریٹر ہیں، مزید کچھ نہیں کہوں گا۔ انسانی حقوق کے عالمی منشور میں لکھا ہے کہ ہر شخص کو اپنی اور اپنے اہل و عیال کی صحت، علاج کی سہولیات حاصل کرنے کا حق حاصل ہے، بیماری، معذوری، بیوگی، بڑھاپا اور روزگار کے حوالے سے مکمل تحفظ کا حق حاصل ہے۔کیا ہمارے ملک کے غریب عوام کو یہ حق حاصل ہے؟
تازہ ترین