• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس نے کہا: قریب پہنچنے کی دیر ہی تھی ۔چھوٹی دروازے سے لگی جیسے میری ہی آہٹ کا انتظار کر رہی تھی ۔وہ میری طرف لپکی۔ کبھی بڑی بھی اسی طرح منتظر ہوا کرتی تھی لیکن چھوٹی کے آتے ہی سب کچھ بدل گیا ۔ بڑی نے بے دلی سے کھانا کھایا ۔پھر وہ ایک طرف چلی گئی ۔ اب و ہ مجھ سے نظر تک نہ ملایا کرتی تھی ۔ گھر پر قبضے کی جنگ اس نے خاموشی کے ساتھ ہار دی تھی ۔کبھی میری ایک آواز پہ وہ دوڑی چلی آتی تھی ۔ اب لاکھ بلانے پر بھی خاموشی سے میری طرف دیکھتی رہتی ۔

میں نے اس سے پوچھا : بڑی کے ہوتے ہوئے اسے چھوٹی بیاہ لانے کی کیا ضرورت تھی ؟وہ ہنس پڑا اور اس نے کہا : تم یہ سمجھ رہے ہو کہ میں دو بیویوں کی بات کر رہا ہوں ؟ میری ایک ہی بیوی ہے ۔ یقین کرو ، میں عورتوں کی نہیں، دو بلیوں کی بات کر رہا ہوں۔کیا ان کا یہ رویہ بالکل ویسا ہی نہیں ، جیسا انسانوں میں دو سوکنوں کا ہوا کرتا ہے؟

اس نے کہا : ہر بلی خاموشی سے ایک نادیدہ دائرہ لگاتی ہے ۔ یہ دائرہ اس کی سلطنت ہوتی ہے ۔ اس Territoryکی حدود میں وہ اپنے پیشاب اور پنجوں سے نشان لگاتی ہے ۔ جب کوئی دوسری بلی اس سلطنت میں قدم رکھتی ہے اور وہ اگر اپنی دم اپنی ٹانگوں میں دبا کر نہیں آتی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اس سلطنت پہ قبضہ کرنے آئی ہے ۔ اس کا نتیجہ اعصاب شکن جنگ کی صورت میں نکلتاہے ، جسمانی لڑائی جس میں شامل ہوتی ہے ۔ کیا یہ سب انسانوں جیسا ہی نہیں ؟

اس نے کہا :ملکہ الزبتھ کی ڈیانا سے ایک اعصاب شکن جنگ ہوئی تھی ، جو شہزادی کی موت تک جاری رہی ۔ یہی کھیل شہزادی میگھن کی بار دہرایا گیا ۔ اس کی وجہ دو بلیوں میں Territoryپر قبضے کی جنگ ہی تھی ؛البتہ شہزادیوں اور ملکہ کے درمیان قبضے کی یہ جنگ بکنگھم پیلس سمیت چھ شاہی محلات تک محیط تھی ۔ بڑی بلی یعنی ملکہ الزبتھ کا دعویٰ یہ تھا کہ یہ محلات ان کی Territoryہیں ۔ ڈیانا ہو یا میگھن انہیں ان کی طے کر دہ شرائط کے مطابق زندگی گزارنا ہوگی ۔

اس پر چھوٹی بلی یعنی میگھن مارکل نے کہا کہ وہ اس کی شرائط پھاڑ کر ہوا میں پھینک دے گی ۔ اس نے شاہی محل چھوڑا ، شاہی زندگی چھوڑی۔ میڈیا کو ایسے ایسے انٹرویو دیے کہ شاہی قوانین کی دھجیاں اڑگئیں ۔ اس وقت وہ ملکہ اور شہزادی نہیں بلکہ صرف اور صرف ایک ساس اور بہو تھیں۔ یہ جنگ اسی طرح لڑی گئی ، جیسے پاکستان کے کسی گائوں میں ایک ساس اور بہو لڑتی ہیں ۔ فرق صرف یہ تھا کہ محلات اور شاہی ملبوسات میسر نہیں ہوتے ۔ جبلتوں کی جنگ مگر ہوبہو ویسی ہی ہوتی ہے ۔

کیا ہرانسان اندر سے بلی نہیں ؟ کیا بڑی اور چھوٹی بلی کی یہ جنگ دو سوکنوں جیسی نہیں ۔میری دکان کے سامنے کوئی اپنی دکان کھول لے تو کیا میری حالت بھی انہی بلیوں جیسی نہ ہو جائے گی ؟ لاکھوں برس سے قبائل ایک دوسرے پہ حملہ کرتے تو بچوں کو قتل کر ڈالتے اور عورتوں کو زندہ رکھتے کہ ان سے اپنی اولاد پیدا کریں ۔ نر شیر بھی یہی کرتے ہیں ۔ چن چن کر محافظ شیروں اور پھر ان کے بچوں کو قتل کر ڈالتے ہیں ۔ پھر انہی شیرنیوں سے اپنی اولاد پیدا کرتے ۔

انسان ، شیر اور بلی میں یہ جبلتیں سو فیصد ایک ہی طرح کارفرما ہوتی ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انسان Reasoningاور Planningکر سکتاہے ۔ باقی سب کچھ وہی ۔ آخری سانس تک ملکہ الزبتھ شہزادیوں کے خلاف جبلتوں کی یہ جنگ پوری طاقت سے لڑتی رہی ۔ شاہی رکھ رکھائو کا جنازہ نکال دیا گیا۔

انسانوں اور بلیوں ہی کی بات نہیں ۔ مکڑے سے لے کر موراور شتر مر غ تک ، سبھی مادہ کا دل جیتنے کے لئے ناچ ناچ کر دکھاتے ہیں ۔ عظیم الجثہ چھپکلیاں مادہ کو حاصل کرنے کی اس جنگ میں ایک دوسرے کی ہڈیاں توڑ ڈالتی ہیں ۔ شیرنیاں اور بلیاں کئی دن تک نر کو نظر انداز کرتی ہیں ؛حتیٰ کہ کمزور نر تھک ہار کے فرار ہو جاتے ہیں ۔ اولاد پیدا کرنے کےلئے انہیں طاقتور نر کی تلاش ہوتی ہے ۔ جیسے عورتوں کو دولت مند شوہر کی ۔

بڑی بلی جب چھوٹی کو دیکھتی ہے تو اس کے حلق سے بے اختیار غراہٹ نکلنا شروع ہو جاتی ہے ۔ اب وہ میری سیٹی کو بھی نظر انداز کرتی ہے ۔ میں اسے چھوتا ہوں تو وہ بھڑک اٹھتی ہے ۔ کیا یہ سب کچھ انسانوں جیسا نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تین میں سے دماغ کے دو حصے انسانوں ، بلیوں اور تمام میملز میں ایک جیسے ہیں ۔

اس کے باوجود کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ارتقا ایک جھوٹ ہے ۔ اس کے باوجود کہ انسانوں میں عورتیں اسی طرح بچوں کو جنم دیتی اور دودھ پلاتی ہیں ، جیسے کہ شیرنیاں اور بلیاں ۔ پیدائش سے لے کر موت تک ، ان میں اور ہم میں صرفReasoningاور Planningکا فرق ہے۔ باقی سب کچھ وہی ۔ یہ ReasoningاورPlanning انسان کو صرف اور صرف اس لئے دی گئی تھی کہ دنیا میں موجود نشانیوں کا جائزہ لے کر وہ خدا کو شناخت کر سکے ۔ اس کے بعد خدا کی مدد سے وہ ان خوفناک جبلتوں پہ غالب آنے کی کوشش کر سکے ، 3.8ارب سال میں جو انتہائی طاقتور ہوچکیں ۔ ایسا صرف غالب عقل کی مدد ہی سے ہو سکتاہے ، جس میں خدا سے تعلق کی وجہ سے نور پیدا ہو چکا ہو ۔

اس کے باوجود انسانوں کی اکثریت عمر بھر اسی طرح لڑتی رہتی ہے ، جیسے روس اور مغرب ۔

تازہ ترین