• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرچہ پاکستانی میڈیا میں وزیراعظم نوازشریف کے دورے کو تقریباً ناکامی کا سرٹیفکیٹ دیا جا چکا ہے لیکن اگر موجودہ حالات کے سیاق و سباق میں دیکھیں تو یہ دورہ پاک امریکہ تعلقات میں دوررس و مثبت نتائج کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس دورے کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان کی رکی ہوئی امداد کو بحال کیا گیا ہے بلکہ امریکہ نے تجارتی سہولتیں دینے کے علاوہ انرجی سیکٹر میں بھی مدد کا وعدہ کیا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ امریکہ کے پاکستان کے بارے میں مثبت رویّے کا امریکہ کے اتحادیوں اور مالیاتی اداروں پر اچھا اثر پڑے گا اور ان کی بیگانگی میں کمی کا امکان ہے۔
وزیراعظم کے دورہ واشنگٹن کے بارے میں میڈیا میں بڑی دلچسپ تقسیم ہے۔ میڈیا کا وہ حصہ جو واشنگٹن کے حلقوں کی پاکستان کے بارے میں سوچ کا واقف حال ہے اس کی نظر میں اوباما شریف ملاقات سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔ اس کے الٹ پاکستانی میڈیا ان نکات کو اجاگر کر رہا ہے جن میں دونوں ملکوں کے درمیان بنیادی تضاد پایا جاتا ہے۔ ان میں ڈرون حملے، عافیہ صدیقی اور شکیل آفریدی جیسے پیچیدہ مسائل ہیں۔ اگر وزیراعظم کا یہ دورہ ان مسائل کے حل کیلئے تھا تو یہ شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام قرار دیا جا سکتا تھا کیونکہ ان مسائل پر طرفین اس وقت پالیسی میں تبدیلی نہیں کر سکتے۔ نہ تو امریکہ کھل کر ڈرون حملے بند کرنے کا اعلان کر سکتا ہے یا عافیہ صدیقی کو رہا کر سکتا ہے اور نہ ہی نوازشریف شکیل آفریدی کو رہا کر سکتے ہیں۔ اس لئے اس دورے کے اصل ایجنڈے پر یہ مسائل تھے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے طرفین نے اپنے اپنے عوام کے لئے وہی بیان بازی کی جو وہ پہلے سے کرتے آئے ہیں۔
اس دورے کے اہم ترین پہلو دونوں ملکوں کی قومی سلامتی کے مسائل تھے۔ اسی لئے وزیراعظم کے وفد کی سب سے زیادہ ملاقاتیں وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی ایجنسی کی سوزن رائس سے ہوئیں۔ وزیر خارجہ جان کیری کے ڈنر میں ملاقات کے بعد دوسری غیر اعلانیہ ملاقات وائٹ ہاؤس میں ہوئی جس کے بارے میں ابھی تک نہیں بتایا گیا کہ اس میں وزیراعظم خود موجود تھے یا ان کے چیدہ چیدہ نمائندے حصہ لے رہے تھے۔ اس کے علاوہ اوباما شریف ملاقات کے فوری بعد ایک میٹنگ ہوئی جس میں اوباما اور سوزن رائس امریکہ کی نمائندگی کر رہے تھے جبکہ پاکستان کی جانب سے میاں نواز شریف اور طارق فاطمی موجود تھے۔ اس میٹنگ کا دورانیہ پندرہ منٹ طے کیا گیا تھا لیکن یہ پینتالیس منٹ تک جاری رہی۔ قومی سلامتی پر ان ملاقاتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اصل معاملات پر زیادہ تر پس پردہ مذاکرات ہوئے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ نہ تو پاکستانی وفد نے میڈیا کو ان مذاکرات کے بارے میں کچھ بتایا اور نہ ہی امریکیوں نے۔ یہ شکایت صرف پاکستانی میڈیا کو ہی نہیں ہے کہ مذاکرات کو مکمل طور پر صیغہ راز میں رکھا گیا ہے بلکہ واشنگٹن کے امریکی حلقے بھی شاکی ہیں کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کچھ بتانے کے لئے تیار نہیں ہے اور اس دورے میں شفافیت نہیں ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات میں جو فیصلے کئے گئے یا جن پر اختلاف پایا گیا وہ حساس نوعیت کے ہیں اور دونوں ملک اس پر میڈیا میں کچھ بھی کہنے سے گریزاں ہیں لہٰذا اس دورے میں کئے گئے زیادہ تر فیصلوں کے بارے میں اندازے لگائے جا سکتے ہیں اور وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے میڈیا کی بریفنگ میں اتنا ہی کہا کہ یہ دورہ انتہائی اہم تھا حالانکہ اس میں ایسے فیصلے نہیں کئے گئے جو میڈیا کی شہ سرخیاں بن سکیں۔
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بریفنگ میں یہ ضرور کہا کہ امریکہ کو پاکستان کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور یہ پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے لیکن یہ مذاکرات پاکستانی آئین کی حدود میں ہونا چاہئیں۔ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف طالبان کے ساتھ مذاکرات پر امریکی تائید حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اگرچہ امریکہ نے ڈرون حملوں کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے گریز کیا ہے لیکن یہ عین ممکن ہے کہ پاکستان کو اشارہ دیا گیا ہو کہ امریکہ ڈرون حملے بند کرنے کا اعلان تو نہیں کرے گا لیکن وہ مذاکرات کی کامیابی کے لئے ان حملوں کو معطل کردے گا۔ اس بارے میں جو بھی وعدے ہوئے ہیں ان کا ثبوت آنے والے دنوں میں سامنے آجائے گا۔ مطلب اگر امریکہ آئندہ کئی ہفتوں تک ڈرون حملے نہیں کرتا تو اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکے گا کہ امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کا سنجیدگی سے خواہاں ہے۔
وزیراعظم کے دورے کے دوران ہی انسانی حقوق کی تنظیموں (ایمنسٹی انٹرنیشنل وغیرہ) نے امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں رپورٹیں جاری کیں جن میں کہا گیا تھا کہ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر یہ حملے دو ملکوں کی باہمی مفاہمت سے کئے جائیں تو یہ غیر قانونی نہیں ہیں۔ چنانچہ امریکیوں نے چپکے سے واشنگٹن پوسٹ میں وہ خفیہ میمو جاری کر دیئے جن کے مطابق ڈرون حملے پاکستان کے ساتھ مفاہمت سے کئے گئے۔ ان کے مطابق پاکستان کو ہر ڈرون حملے سے پہلے اطلاع کی جاتی تھی اور حملے کے بعد بتایا جاتا تھا کہ حملے میں کتنے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ میمو شائع کرنے کا مقصد عالمی برادری کو یہ بتانا تھا کہ امریکی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں کر رہے ہیں اور سب کچھ پاکستان کی رضامندی سے ہو رہا ہے۔
قطع نظر ڈرون حملوں جیسے اختلافی مسائل کے وزیراعظم نوازشریف کا مقصد امریکہ کے ساتھ نئے تعلقات کا آغاز کرنا تھا۔ حکومت میں آنے کے بعد وزیراعظم نے چین، سعودی عرب اور ترکی کے دورے کئے۔ اگرچہ ان دوروں میں باہمی مفاہمت کی کئی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے لیکن پاکستان کے خزانے میں ایک دھیلا بھی نہیں آیا۔ قوی امکان ہے کہ پاکستان کے بہی خواہوں نے بھی مشورہ دیا ہو گاکہ جب تک پاک امریکہ تعلقات راہ راست پر نہیں آتے امریکہ کے اتحادی بھی اس کی مدد کرنے سے گریز کریں گے۔ اسی طرح عالمی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کی زیادہ مدد نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ پاکستان یہ بھی چاہتا ہے کہ امریکہ بلوچستان میں بیرونی دراندازی بند کرنے میں اس کی مدد کرے۔ طرفین کے رویّے سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ دراندازی کس طرح سے بند ہو سکتی ہے۔ غالباً جماعت الدعوۃ اور حافظ سعید کا ذکر اسی سیاق و سباق میں ہوا ہے۔
قومی سلامتی کے گمبھیر مسائل کے علاوہ تجارت اور انرجی سیکٹر پر امریکی امداد میں بھی پیشرفت ہوئی ہے۔ بہت جلد ایک پاکستانی تجارتی وفد واشنگٹن سے مذاکرات کرنے کے لئے جارہا ہے۔ اسی طرح چند ہفتوں میں ایک دوسرا وفد انرجی پر امریکی امداد کے لئے مذاکرات کرنے جائے گا۔ اس لئے اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو وزیراعظم نوازشریف کا دورہ امریکہ کافی مفید ثابت ہوا۔ اگرچہ قومی سلامتی کے بارے میں کئے گئے فیصلے صیغہ راز میں ہیں لیکن امریکہ نے پاکستان کی معاشی امداد بحال کرکے تعلقات میں نئے آغاز کا عندیہ دیا ہے۔
تازہ ترین