• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ بھی خوش رہے اور ظلم سے نجات بھی، ناممکن۔ وزیراعظم کا فرمان اپنی جگہ لیکن ’’ مذاکرات‘‘ اتمام ِ حجت ہی ہوں گے کہ’’ آپریشن ‘‘بڑے گیم پلان ہی کا تو حصہ ہے۔ افراتفری، انارکی مقصود اور بدنصیب قوم کا مقدر۔ روایتی کہانی جس میں ایک بچی’’ایلس‘‘ ایک تخلیلاتی اور تصوراتی خیرہ کن دنیا کا مشاہدہ کرتی ہے تو محیر العقول واقعات سے پالا پڑتاہے۔ مافوق الفطرت مناظر سارا دورانیہ بچی کو ہکا بکااور ششدر رکھتے ہیں۔ قابل ِ صداحترام وزیراعظم پاکستان ہمہ گیر دورے کے بعد ارض ِ پاک قدم رنجہ فرماکر دوبارہ عازم ِسفر ہو چکے۔ دورہ اس حد تک تو کامیاب کہ پاکستانی میڈیا 10دن دیدہ دل فرش ِ راہ رہاالبتہ حاصل کلام’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘‘’’ایلس کراماتی،عجائباتی دنیا میں‘‘کی فلم ہی توتھی۔ اوباما ملاقات کے بعد میاں صاحب کی آخری پریس بریفنگ کہ ’’پہلے ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہو گا۔ اپنی حرکتوں پر غورکرنا ہوگا‘‘۔ اپنے وزیراعظم کی کسمپرسی پر ترس آیا ۔ اگر طلبی نہیں تھی تو ایسے دورے کو بہتر وقت تک کے لیے موخر کرنا ہی عقلمند ی ٹھہرتا۔’’ مسائل ِفساد‘‘ تو زیر ِ بحث آئے نہیں ،روزے گلے پڑگئے ۔ امریکی صدارتی ترجمان نے وزیراعظم پاکستان کے بیان کے اگلے دن ہی فرما دیا۔ ’’عافیہ پر خاص بات نہیں ہوئی البتہ شکیل آفریدی کا معاملہ اٹھایاجبکہ ڈرون حملوں کے بارے صدر اوباما مئی میں پالیسی دے چکے ہیں‘‘۔دوسری طرف جماعتہ الدعوۃ اور حافظ سعید کا معاملہ اٹھانا دراصل محب الوطن کے لیے وارننگ کہ دل و جان نچھاور کرنے والوں پر عرصہ حیات تنگ ہو چکا۔دورہ بے ترتیب اوربے ہنگم جہاں ہر طرح کے سفارتی آداب پامال ہوئے، بے اعتنائی امڈ امڈ کر سامنے آئی۔اندرونی خلفشار اور مہنگائی کیا کم نقصان پہنچا چکی تھی کہ واشنگٹن سے نئے قضیے لے آئے ۔ محترم وزیراعظم عنان ِ اقتدار آپ کے پاس، گھر کے سربراہ آپ، اللہ نے موقع دیا ہے ٹھیک کر ڈالیں۔ دور ہ’’ ونڈرلینڈ‘‘ اختتام پذیر ہواہوم لینڈ کی فکر کریں۔ضمنی مسائل اجاگر کرنے کی بجائے ہمہ گیر احاطہ (Holistic)قومی ضرورت ۔اگر ایمان محکم، عمل پیہم رہا،قوم کو متحد کر لیا،اعتماد میں لے لیاتودہشت گرد ی سے بھی خلاصی ،ڈورون حملے بھی بند،عافیہ بھی واپس اور ننگ ِ پختون شکیل آفریدی بھی تختہ دار پر۔ مٹھی بھر دانشور جو اپنے عائلی معاملات کی پیچیدگیوں کے حل کے لیے محلے اورعلاقے کے بااثر لوگوں سے مد دکے قائل ہیں ملکی معاملات میں بھی بیرونی مداخلت پر بغلیں بجاتے ہیں،ایسے لوگوں سے دور رہیں۔ 18 کروڑ عوام کو ہمنوا وہم رکاب بنا لیا تو وطن عزیز کو ٹیڑھی،ترچھی،بھینگی آنکھ سے کوئی نہ دیکھ پائے گا۔ ونڈرلینڈ میں ہمارے لیے کچھ نہیں وہاں تو 2014 کے بعد، خطے کا جو ناک نقشہ ترتیب پا رہا ہے ، غوروغوض کہ پاکستانی عسکری و سیاسی قیادت کو استعمال کیسے کیا جائے؟ پاک فوج اور اٹیمی اثاثوں کو بے اثر کیسے بنایا جائے؟ بھلا یہ کیسے ممکن کہ امریکہ مطمئن رہے اور انصاف کا سورج بھی نظر آئے ۔عافیہ کا کیس کیا آشکار کر رہا ہے ؟انسانی تاریخ میں ظلم و بربریت کی ایسی مثال خال خال ۔خوش قسمتی کہ اب بھی ایسے دانشور میسر جو ضمیر کی تجارت سے ناواقف۔ ڈاکٹر آغا خالد سعید سے پہلی ملاقات 1973میں تب ہوئی جب میں قائداعظم یونیورسٹی میں نووارد تھا۔ چند دنوں میں گاڑھی چھننے لگی آغا صاحب گو بھٹو صاحب کی نوازشات سے استفادہ اٹھاتے ہوئے سرکاری ملازمت لے چکے تھے لیکن عملاََ اشتراکیت کے سکہ بند مبلغ ،نوکری صرف تنخواہ کی حد تک محدود، دن کے 18 گھنٹے کیمونزم کا اشتہارجبکہ میں تھا 24گھنٹے اسلامی انقلاب کا نقیب۔ ہمارے نظریات بُعد المشرقین ایک خلیج حائل اس کے باوجود کئی کئی گھنٹے اکھٹے گزارنا روزمرہ کا معمول تھا۔ نظریات میں دوری کے باوجود باہمی قربت کا سہرا آغا صاحب کے سربلکہ ان کی غیر مرئی ذہانت وفطانت اور اپنے نظریے پر غیر متزلزل یقین کی مرہون منت۔وفاداری بشرط ِ استواری اصل ایمان کی اصل تصویر آغاخالد سعید نے اس وقت حیراں کر دیاجب بتایا کہ وہ امریکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے روانہ ہوا چاہتے ہیں۔’’اشتراکی اورسامراج یاترا‘‘ طبیعت پر گراں ٹھہری مگر بھاری دل سے رخصت کیا۔ مزید حیرانگی جب چند سالوں بعدیہ خبریں آنا شروع ہوئیں کہ مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت سے آغا صاحب کا دل پسیجااورمقصد کے لیے استقامت اور جہد ِ مسلسل کی تصویر بن گئے ۔ہر لمحہ ہر لحظہ امریکی مسلمانوں کی بہتری کے لیے سینہ سپر۔ انسانی حقوق، استعماریت کے خلاف جدوجہد ،دانش،تحریراور بلاغت نے نو م چامسکی اور طارق علی کا ہم پلہ بنا دیا۔نواز شریف صاحب کے دورہ امریکہ کے موقع پر ایک خط (جس میں امریکہ کے درجنوں نابغہ روزگار اپنی حکومت سے ملتجی نظر آتے ہیں)بنام صدر اوباما اور وزیراعظم نواز شریف محنت ِ شاقہ اور لابنگ کرکے تیار کروایا۔ اس بیش قیمت دستاویز پر آغا صاحب آپ کو مبارک۔ پیش ِ خدمت ہے۔
’’صدر بارک حسین اوباما اور وزیراعظم محمد نواز شریف :
یو ر ایکسیلینز!ہم زیر ِ دستخطی، ایک پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ جو بغیر کسی قانونی حیثیت آج امریکہ میں موجود ہے ،کے حوالے سے چند گذارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔باوجودیکہ حکومت ِپاکستان واضح موقف اختیار کر چکی کہ وہ عافیہ کی پاکستان جلد ازجلد واپسی کی متمنی ہے۔ ہماری فکروپریشانی بھی یہی ہے کہ وہ اپنے وطن ، بچوں ، ماں اور بہن بھائیوں سے ہزاروں میل دور امریکی جیل میں بلاوجہ کیوںبند ہے؟
مزید فکر مندی وپشیمانی اس کی بگڑتی ہوئی جسمانی اور ذہنی صحت اور حالت جو دس سالہ انتہائی تکلیف دہ اذیت کا نتیجہ ہے۔ ماضی میں بہت سارے ایسے مواقع ضائع کر دیئے گئے جہاں عافیہ کو اپنی فیملی کے ساتھ جوڑا جا سکتا تھا۔ ابھی دو سال پہلے امریکی حکومت کا پرائیویٹ جاسوس ریمنڈ ڈیوس جس نے بغیر جواز دن دہاڑے 2 پاکستانیوں کو بیچ چوراہے قتل کیا۔ جب امریکی حکومت نے رہائی کا مطالبہ کیا توڈاکٹر عافیہ کی فیملی اور وکیل نے گذارش کی کہ اگرایسی انہونی ہونی ہے تو عافیہ کی واپسی کے ساتھ مشروط ہو۔ بدقسمتی کہ اُس وقت کی حکومت کوئی ایسا موقف اختیار نہ کر سکی اور موقع ضائع کر دیاگیا۔ امریکی شہری ہونے کے ناطے ہمیں انتہائی شرمندگی ہے کہ یکے بعدہماری دونوں حکومتیں ، بش انتظامیہ اور اب اوباما انتظامیہ اس گھمبیر مسئلے کو مسلسل نظرانداز کر رہی ہیں۔ ایک انتہائی ذہین ، فطین اسکالر جس نے MIT اور Brandies سے نیورو سائنس اور ماہر ِ تعلیم کی ڈگریاں اعزازات کے ساتھ حاصل کیں اس کے ساتھ نہ ختم ہونے والا بہیمانہ سلوک امریکی عوام کی سمجھ سے بالاتر۔ ایک طرف انتہائی تعلیم یافتہ مسلمان عورت کی ناقابل ِبیان بے حرمتی جہاںہر دفعہ الزام تبدیل ہوتا رہااور بالآخرایک مضحکہ خیز الزام میں سزا ہو گئی۔ دوسری طرف محترمہ ملالہ یوسف زئی کی پذیرائی فقط ہماری بے خلوصی اور بناوٹ ہی کو ظاہر کر پائی ہے۔دنیا جان چکی ہے کہ ملالہ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پروپیگنڈہ ہتھیار بن چکی ہے ۔ دنیا کی اکثریت اس جنگ کو استعماری تسلط اور دنیا کودوبارہ غلام بنانے کا آغاز سمجھ بیٹھی ہے۔ تاسف اور تکلیف سے کہنا پڑتا ہے کہ بیچاری عافیہ کے معصوم بچے پچھلے دس سال سے ممتا کی محبت سے محروم کر دیئے گئے۔ ایسی تمام درخواستیں نظرا ندازجن سے ماں کو بچوں سے ملنے کا موقع ملتا۔نواز شریف کا دورہ اور پاکستانی حکومت کے حالیہ موقف میں نئی جان محسوس ہوئی اس سے امید بندھ گئی کہ ڈاکٹر عافیہ اپنے ملک پاکستان واپس جا سکیں گی۔
ایسے تاریخی موقع پر جبکہ دونوں حکومتیں تعلقات کی نئی جہتوںکی متلاشی ۔ ڈاکٹر عافیہ کی دل دہلادینے والی تکلیف کو ختم کرنے کے لیے کئی مثبت راستے اختیار کیے جا سکتے ہیںاور پاکستان منتقلی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ قانونی موشگافیوں کو پورا کرنے کے لیے کئی آپشنز موجود ہیں۔ ایسا کرنے سے امریکہ کا اپنا اخلاقی تشخص بہتر ہو گا جبکہ پاکستان بلکہ پوری مسلمان دنیا کے دل و دماغ جیتنے کا موقع بھی۔ ہم اوباما انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ دیانتدانہ وعدہ کرے تاکہ 10سال سے جاری بے انصافی ختم ہو سکے اور ڈاکٹر عافیہ 2013کے اختتام سے پہلے پاکستان پہنچ سکے۔ عزت اور احترام کے ساتھ (درجنوں دستخط)‘‘۔
اس خط میں اٹارنی جنرل رمزے کلارک، سنیٹر مائیک گریول، ممبر کانگریس پال فنڈلے کے علاوہ سنیٹرز، ممبرز کانگریس ، سابقہ حکومتی اہلکار، ہیومن رائٹس اور علم ودانش کے نامور نام شامل ہیں۔ بدقسمتی کہ نواز شریف اوباما ملاقات کے اگلے دن امریکی صدارتی ترجمان نے پیدا ہونے والی امیدپراداسی برسا دی کہ عافیہ کا مسئلہ تو گفتگو کا حصہ ہی نہ رہا البتہ ’’غدار‘‘ شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کرنے کا قضیہ ہم نے بار بار چھیڑا۔ آغا خالد سعید چیف ایگزیکٹو امریکن مسلم الائنس جن کی حیثیت تمام مسلمان تنظیموں (سیاسی، غیر سیاسی، مذہبی )کے درمیان رابطہ پرسن اور کوارڈینٹر کی ہے،اپنی کوششیں مزید تیز کر چکے ہیں۔
گو آجکل صحت کے معاملے میں پریشانی لاحق۔ اللہ ان کو جلد مکمل صحت یاب کرے (آمین)۔ مسئلہ چاہے یہودی صیہونیت کی زد میں آنے والے مسلمان سکالر ڈاکٹر سمیع ارائیں کا یا ہندو لابی کا تختہ مشق ڈاکٹر فائی (آزادی ِکشمیر کے لیے کوشاں) یاامریکی دہشت گردی کانشانہ بننے والی ڈاکٹر عافیہ ، آغا صاحب بلاتفریق ایک ہی جوش اور جذبے سے تن من دھن حاضر ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ آغا صاحب جیسے سحر انگیز مبلغ اور دانشور مسلمانوں کو اور وہ بھی امریکی سرزمین پر میسرہیں ۔ آغا صاحب اللہ آپ کا حامی و ناصر کہ فرعون فریبی بھی اورکمینہ بھی.......مجھے آپ کی دوستی پرہمیشہ فخرہے۔‘‘
تازہ ترین