• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
24؍ اکتوبر 1975ءآغا شورش کاشمیریؒ کے انتقال کا دن ہے۔ مدت ہوئی ان کی یاد میں سال بہ سال ایک تعزیتی تقریب منعقد ہوا کرتی تھی جسے جلسۂ عام ہی کہنا چاہئے، لاہور کے عوام و خواص اس میں بھرپور شرکت کرتے، ماحول کی توانائیاں اور یادوں کی گرم جوشیاں دیکھنے سے تعلق رکھتیں۔ آغا شورش کاشمیری کی شخصیت اور تقریروں کے انداز کی تاریخی نیرنگیوں میں مقررین اسیر ہو جاتے، ان میں زندگی کا نیا آہنگ تھرتھرانے لگتا، عام و خواص میں امید، آزادی، بے ساختگی، جرأت، گفتار، کردار و عزم اور قومی بیداری کے بپھرتے دریائوں کی باغیانہ لہروں کے مدوجزر سے اس جلسۂ عام میں پاکستان کے پُر یقین مستقبل کی صدائوں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔
آغا شورش کاشمیریؒ نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے ’’پاکستان کے قیام کی خاطر جو خون خرابہ ہوا اور مسلمانوں کو جو قیمت ادا کرنی پڑی وہ غیر متوقع نہیں بلکہ متوقع تھی۔ قوموں کی زندگی انہی حادثوں سے بنتی ہے۔ ایک کا خون دوسرے کے چہرے کا غازہ ہوتا اور ایک کی ہڈیاں دوسرے کے سہرے کا پھول ہوتے ہیں۔ شاخیں کاٹنے ہی سے پھول کھلتے اور ٹہنیوں کا حسن نکھرتا ہے۔ پاکستان بلاشبہ ہندوستان کے مسلمانوں کی ہر نوعی قربانی کا نام تھا۔ نعرے ہمیشہ عبرتناک ہوتے ہیں، مظاہرے خطرناک اور مجاولے اندوہناک۔ پاکستان کے سفر کو عوام اگر گلگشت چمن سمجھے تھے تو یہ ان کا حن ظن تھا جو قومی سیاست میں جذباتی نعروں کی وجہ سے عموماً پیدا ہو جاتا ہے، اگر سات آٹھ لاکھ مسلمانوں کی بے دریغ قربانی سے پاکستان میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہو جاتی تو کوئی قیمت نہ تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ رہنمائوں کے وعدے روز بروز دوشیزہ کی کہہ مکرنی ہوتے گئے۔
آغا شورش کاشمیریؒ کی یاد میں منعقدہ یہ تعزیتی اجتماعات ذہن میں آتے ہی میرے ذہن میں ان کی سوانح حیات کا یہ قصہ سرسرانے لگتا ہے۔ مدت ہوئی، جیسا کہ عرض کر چکا، یہ سالانہ تعزیتی اکٹھ قصہ پارینہ بن چکا، اسباب میں میں جانا نہیں چاہتا۔ آخری نتیجے کے طور پر آپ اسے اس شہر لاہور کی اور اس شہر کی وساطت سے پو رے ملک کی محرومی قرار دے سکتے ہیں۔ ہر سال آغا شورش کے تذکرے سے پاکستانی عوام کو اپنے زخموں کے فہم کی جو نعمت نصیب ہوتی تھی ان سے وہ بھی چھن گئی۔ ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ آغا صاحبؒ کے جگر دار قلم کا شہکار تھا، اس کا اختتام ہو گیا۔ وہ زندگی کی داستان کہتے کہتے سو گئے اور ’’چٹان‘‘ وقت کی گرد میں گم ہو گیا۔ میرے جیسے لوگ، جنہیں ماضی ہانٹ کرتا، رلاتا اور سسکاتا رہتا ہے آج میکلوڈ روڈ پر واقع چٹان بلڈنگ کو ایک پتھرائی ہوئی نظر سے دیکھتے اور سن ہو کے رہ جاتے ہیں۔ آغا شورش کاشمیریؒ نے بھی اپنی زندگی میں ہوائوں کے رخ تبدیل کرنے کے بجائے ہوائوں کی قیمت لگائی اور وصول کی ہوتی، وہ بھی اپنی اولاد کے لئے پبلی کیشنز کی ایک قطار، پلازوں یا بلند منزلہ بلڈنگوں کا ایک جائیدادی ہمالہ اور کم از کم آٹھ ہندسوں پر مشتمل کیش بینک بیلنس چھوڑ کر گئے ہوتے، ان کی اولاد بھی شب و روز اپنی روزی روٹی کی جدوجہد میں وقت صرف کرنے پر مجبور ہونے کے بجائے اپنے باپ کی یادوں کے چراغ جلا سکتی۔ باپ بھی ایسا برصغیر کی تاریخ نے جس کی رفاقت میں زندگی گزاری، باپ بھی ایسا جس نے قلم و قرطاس کو حرمت اور تکلم کی تخلیقی دنیائوں سے روشناس کرایا، باپ بھی ایسا منقبت رسولﷺ میں جس کے لفظ کبھی یکسانیت کا شکار نہ ہوئے، ایسے لمحات میں ہمیشہ آغا شورشؒ کے باطن سے تخلیقی سوتے پھوٹتے رہے!
وہ 1975ء میں ہم سے جدا ہوئے۔ 1970ء میں پاکستان کا دو لخت ہونا تو ان پر بیت گیا۔ 1977ء کے بعد کا پاکستان وہ نہیں دیکھ سکے۔ ضیاء الحق کی ذات گرامی، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، افغان جہاد، شاہنواز بھٹو کی موت، مرتضیٰ بھٹو کا قتل، بے نظیر بھٹو کی شہادت، پوری دنیا کے امن و چین اور انسانوں کی ذاتی زندگیوں کو پاکستان سمیت اسلامائز کرنے والے مجاہد طالبان، مذہبی رہنمائوں اور مذہبی جماعتوں کا مفلسی کی تاریک وادیوں سے دولت کے جزیروںتک کا حیرت انگیز سفر، اس سب کا مشاہدہ ان کے مقدر میں نہیں تھا، میرا وجدان کہتا ہے، دلیل مجھے سہارا دیتی ہے، آغاؒ کے راہوار سوچ کی رفتار اور ڈھنگ سے مجھے خبر ملتی ہے، ان سب کرداروں اور واقعات کے خرمن پر ان کا قلم برق بن کے گرتا۔ لفظ کے امانت دار اور انسانیت کے سوداگروں کے مابین چھڑنے والی جنگ کا ایک عہد گواہ ہوتا، پھر خیال آتا ہے میں اپنے اس خواب کی تعبیر میں اذیت پسند ہو گیا ہوں۔ آغا شورش کاشمیریؒ نے تو متحدہ ہندوستان اور پھر پاکستان میں مسلمانوں کے لئے اپنی پوری زندگی ہی دان کر دی، کیا اب تم لوگ ان کی ہڈیاں بھی ظالموں کی بداعمالیوں کی یا اپنے عذاب کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہو؟
سحر طراز نثرنگار برادر عرفان صدیقی نے، آغا صاحب کے ساتھ تاریخ کی رفاقت انہی کے اشعار میں بیان کی ہے، میں بھی یہ مستعار لے رہا ہوں
ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کا صلہ آہنی زنجریں تھیں
سرفروشوں کے لئے دار و رسن قائم تھے
خان زادوں کے لئے مفت کی جاگیریں تھیں
بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں
از افق بہ افق خوف کا سناٹا تھا
رات کی قید میں خورشید کی تنویریں تھیں
جانشینیانِ کلائیو تھے خداوند مجاز
سبز توحید کی برطانوی تفسیریں تھیں
حیف اب وقت کے غدار بھی رستم ٹھہرے
اور زنداں کے سزا وار فقط ہم ٹھہرے
24؍ اکتوبر 1975ء کی وہ سہ پہر تھی یا شام کا سمے، اب صحیح طور پر تعین نہیں کر سکتا، ہاں یہ ضرور ہے نماز جنازہ مغرب کے قریب قریب یونیورسٹی گرائونڈ میں ادا کی گئی۔ آغا شورش کاشمیریؒ کے دم رخصت کی خبر سے اس روز کے اخبارات سیاہ حاشیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ صبح لاہور کے ماحول پر سوگوار زلزلے کی طرح نازل ہوئی، عوام کی ٹولیاں اور جتھے جتھے جوق در جوق شورشؒ کی رہائش گاہ، واقع بالمقابل ہائیکورٹ لاہور پر غول در غول جمع ہونے لگے۔ پورے پنجاب کی سیاسی، ادبی، صحافتی، سماجی اور دینی کریم نظر آ رہی تھی۔ ایک عجب پُر شور سکوت داند وہ تھا جس میں خواص حیران و پریشان اور عوام خوف زدہ تھے۔ عوام، ایسا لگتا تھا جیسے انہیں غم سے زیادہ ڈر نے آن لیا ہے۔ میں نے سوچا ایسا کیوں ہے؟ پھر مجھے اپنی ایک جاری رہنے والی کیفیت سے اندازہ ہو گیا۔
میں اکثر جی پی او سے میکلوڈ روڈ کی طرف جاتا اور اکثر ہی آغا صاحب یا تو مسعود کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے یا کبھی کبھار چٹان بلڈنگ سے پیدل ہی چلتے اپنے گھر آرہے ہوتے، میں جب بھی شورش کاشمیری کو اس راستے پر دیکھتا میرا دل خودی اور اعتماد سرشار میں جاتا، مجھے کہیں دور اپنے باطن سے یہ آواز سنائی دیتی ’’جب تک یہ لوگ موجود ہیں، پاکستان کی سرزمین بانجھ نہیں ہو سکتی‘‘ آج مجھے اپنی یہ حالت یاد آنے پر شورش کے جنازے پر عوام کے خوف کی اس لاشعوری گھبراہٹ کا ادراک ہو رہا ہے۔ شورشؒ کی موت پر ان کا غم تو آشکارا تھا ہی، اصلاً انہیں پاکستان کی سرزمین سے ایک نادر و نایاب سایہ کے اٹھ جانے سے اپنے یتیم ہونے کے احساس نے آن لیا تھا، ان کی خوف زدگی بے امان ہونے کی لاچارگی کا اظہار تھی۔ جنازہ اٹھایا گیا۔ میں بھی ہزاروں پاکستانیوں کے ساتھ آبلہ پا بھاگا چلا جا رہا تھا، ورد جاری تھے، کلمہ شہادت کی آوازیں لبوں سے نہیں دلوں سے نالہ ہائے آہ و فغاںکی صورت میں آسمان کا سینہ بھی شق کئے دے رہے تھے۔ بہت دن اداس رہا، پھر تو اس ملک میں جو جو آغا شورشؒ تھے یا جنہیں خود آغا شورشؒ اپنا سرمایہ افتخار جانتے اور مانتے تھے، ان کے ایک ایک کر کے جانے کی قطار لگ گئی، اب ہم ہیں اور شہر لاہور میں لے دے کے ایک مجیب الرحمن شامی کا ڈیرہ ہے جہاں آپ ان فرزندان پاکستان کے تاریخی ورثے اور اسلوب کی صدائے باز گشت سے اپنا دامن بھر سکتے ہیں، پتہ نہیں بڑے آدمی کیا ہوتے ہیں، بس سوال اتنا ہے جس کے وجود میں آپ کو بڑوں کی روایات کی تصویر دکھائی دیتی رہے، اسے ہی نعمت غیر مترقبہ جانو کہ ابھی ویرانہ نہیں آیا۔
اور کیا کہوں، ابھی تو آغا شورش کاشمیری کی کہانی شروع ہی کی تھی، کالم کی گنجائش ختم ہو گئی، ان کی ذات سے دل کا خانہ آباد رہے گا، زندگی رہی، خدا نے استطاعت دی تو اگلے برس، ہم ہیں اور یہ یاد ہے دوستو!
تازہ ترین