• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اپنی تاریخ کے بد ترین سیلاب سے دوچارہے۔گلگت بلتستان سےٹھٹھہ تک پورا علاقہ سیلاب زدہ ہوچکا ہے۔ قلات ڈویژن کے ضلع خصدار اور ضلع لسبیلہ سے شروع ہونے والے سیلابی ریلوں نے ملک بھر میں ’’سپر فلڈ‘‘کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ جنوب مغربی پنجاب، شمال مشرقی بلوچستان اور شمال مغربی سندھ جو قدرتی طور پر تینوں صوبوں کا سنگم ہے، یہ علاقے تباہی کا مرکز ہیں ۔ پنجاب کے ڈیرہ غازی خان،تونسہ،راجن پور اور کوہِ سلیمان سے ملحقہ پٹی، بلوچستان کے شہر سبی سے ملحقہ علاقے، سندھ کے شہر جیکب آباد، لاڑکانہ، سکھر، دادو، نوابشاہ،نوشہرو فیروز،مورو کے اضلاع سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نمایاں ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک کے 116 اضلاع سیلاب کا سامنا کر رہے ہیں۔ سینکڑوں انسانی اموات کے حتمی اعداد و شمار ہی دستیاب نہیں۔ تقریباً33ملین لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ 2ملین ایکڑ پہ کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ایک ملین جانور سیلابی ریلوں کی نذر ہوگئے ہیں۔ 3ہزار کلومیٹر سڑکیں بہہ گئیں، 67,000گھرمنہدم اور 145پل تباہ ہوچکے ہیں۔ریلیف کے کام کی بھی الگ کہانی ہے۔جن علاقوں میں پانی کھڑا ہے وہاں ریلیف کا کام بہت کم ہے۔ان علاقوں تک پہنچنے کے راستے مسدود ہیں۔ان برے حالات میں خواتین سب سے زیادہ مشکلات سے دوچار ہیں۔ان مشکل حالات میں سماجی تنظیموں نے خدمت کی نئی مثالیں قائم کی ہیں۔پورے پاکستان سے مخیر حضرات اور ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور جماعتوں نے ایثار کے وہ مظاہرے کئےہیں کہ قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔خصوصاًاسکولوں اور کالجوں کے طلباء نے بے مثال جذبے کا مظاہرہ کیا ، ان نوجوانوں کا جذبہ مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی ایک کرن ہے۔لاہور کے مختلف ا سکولوں کے طلبہ پر مشتمل تنظیم ’’فلاح ‘‘نے مجھے مدعو کیا کہ وہ سیلا ب زدگان کی خدمت کیلئےضلع ڈیرہ غازی خان کے دورے کا ارادہ رکھتے ہیں۔میں بھی سعادت بھر ے سفر کا حصہ بن گیا۔ہم لوگ لاہور سے نماز فجر کے بعد نکلے۔ جونہی سیلاب زدہ علاقے کی حدود شروع ہوئیں تو ایسے مناظر دیکھنے کو ملے جس نے دل دہلا دئیے۔ بچوں کےچہروں پر بھوک کی پر چھائیاں، عورتوں کی آنکھوں میں بے یقینی کے سائے، مائوں کی گود میں بھوک سے بلبلاتے بچے،بڑھاپےکی دہلیز پر قدم رکھنے والے نوجوانوں کی فکر مندی اور سفید ریش بزرگوں کی بے بسی نے جی اداس کر دیا۔لیکن ساتھ ہی دل میں ایک گونہ اطمینان بھی تھا کہ تکلیف کی گھڑی میں پاکستان کے بچے بوڑھے اور جوان یکجان ہوکر ان کی مدد کو نکلے ہیں ۔’’فلاح‘‘کا قافلہ ڈیرہ غازی خان سے ہوتا ہوا راجن پور روڈ پر تحصیل کو ٹ چٹھہ پر واقع عظیم صوفی بزرگ پیر محمد اکرم شاہ جمالی کی درگاہ پہنچا۔کچھ لمحے آرام کے بعد ہم کوہ سلیمان سے اترنے والے سیلابی پانی سے متاثر ہونیوالے دیہات کی طرف روانہ ہوئے۔ ’’فلاح‘‘ کے امدادی سامان میں خشک راشن،روزہ مرہ ضرورت کی اشیا، دودھ کے ڈبےاور مچھر دانیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔وہاں پہنچ کر مسلم گلوبل ریلیف کی ٹیم بھی ہمارے ساتھ شامل ہوگئی۔سامان کی تقسیم کے دوران میں دیکھتا رہا کہ وہ بچے جن کی مسیں بھیگ رہی تھیں وہ اپنے ننھے ہاتھوں سے متاثرین کو سامان دے رہے تھے اور دلاسہ بھی۔اس لمحے یوں لگ رہا تھا جیسے ننھے فرشتے، زمین زادوں سے گھل مل گئے ہوں۔ابھی تقسیم کا عمل جاری تھا کہ اطلاع ملی دریائے سندھ کے کنارے پر موجود علاقہ ’’جھکڑ امام شاہ‘‘دریا کا حفاظتی بند ٹوٹنے سے زیر آب آیا ہوا ہے اورکئی دن سے متعدد دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہے، لوگ پینے کے پانی سے بھی محروم ہیں۔ امدادی قافلہ نے اسی وقت دریا کی طرف سفر شروع کیا۔ایک دشوار گزار راستےسے گزر کر مقررہ مقام تک پہنچے۔ریسکیو 1122کی کشتی میں راشن ، دودھ، جوس اور پانی لاد کر متاثرہ علاقوں کی طرف روانہ ہوئے۔کشتی آتے دیکھ کر ان کے چہرے کھل گئے۔بچوں کے بے ساختہ قہقہوں نے سفر کی تھکان دور کردی۔خدمت کے ذریعے خدا تک پہنچنے کا عزم رکھنے  والے پرعزم کارکنان نے خطرے کی پروا کئےبغیر گہرے پانی میں سفر کر کے متاثرین کا غم بانٹا،ان کے زخموں پر مرہم رکھا۔بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ لاکر ایک عجیب روحانی مسرت کا احساس ہوا۔سورج غروب ہوچکا تھا لیکن ریلیف کا کام جاری رہا۔جب تک وہاں موجود آخری آدمی تک سامان نہ پہنچا یہ کام جاری رہا۔ ’’فلاح‘‘کی اس سرگرمی کی خاص بات یہ تھی کہ متاثرین خصوصاً خواتین کی عزتِ نفس کا خاص خیال رکھا گیا۔لاہور کے لاڈلے اور نازو نعم میں پلے بچوں نے اپنے کندھوں پر آٹے کی بوریاں اٹھا کر ثابت کیاکہ وہ مستقبل میں بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ اس خوبصورت سفر میں جابجا مختلف تنظیموں کے کارکنان متحرک دکھائی دئیے۔جن میں المصطفیٰ ٹرسٹ،ضیاالامہ فاؤنڈیشن،الخدمت فا ؤ نڈ یشن،تعبیر ویلفیئر فاؤنڈیشن، مسلم ہینڈز ا نٹر نیشنل ، المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی کے علاوہ کئی نجی ادارے اور انفرادی طور پر بھی دھرتی کے بیٹے اپنا فرض نبھا رہے تھے۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

تازہ ترین