• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی تاریخ میں بڑے بڑے نازک موڑ آئے۔ عجیب و غریب واقعات رونما ہوئے۔ پیپلزپارٹی کے اپنے ہی صدر کی جانب سے اسمبلیاں توڑنا اور پھر خود ان کا انجام بھی سب نے دیکھا۔اس وقت کے صدر اور انہیں عہدے سے ہٹوانے والے مرکزی کردار دونوں اب اس جہان میں نہیں ،اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ فاروق لغاری کو عہدہ صدارت سے ہٹوانے میں سب سے اہم کردار نواب اکبر بگٹی مرحوم کا تھا۔ فاروق لغاری جب صدر پاکستان تھے تو ایک روز نواب اکبر بگٹی ان سے ملنے کیلئے ایوان صدر تشریف لے گئے۔ فاروق لغاری مرحوم نے نواب صاحب کا گرمجوشی سے استقبال کیا مگر نواب صاحب نے ملاقات کے ابتدا میں ایک ایسا مطالبہ کر دیا جس سے محفل کا ماحول گرم ہوگیا۔ فاروق لغاری نے نواب صاحب کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ نواب صاحب نے ایوان صدر سے اجازت چاہی تو فاروق لغاری نے بلوچ روایات کے برعکس اسٹاف افسر سے کہا کہ نواب صاحب کو گاڑی تک چھوڑ آئیں اور خود اپنی کرسی پر ہی بیٹھے رہے۔ نواب اکبر بگٹی اسلام آباد میں قیام کے دوران اپنے بھانجے شیر علی مزاری کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ سردار نصراللہ خان دریشک ذاتی تعلق میں نواب بگٹی سے ملنے شیر علی مزاری کے گھر پہنچے تو شیر علی نے انہیں بتایا کہ فاروق لغاری نے نواب صاحب کو باقاعدہ پروٹوکول نہیں دیا جبکہ وہ خود بھی بلوچ سردار ہیں اور بلوچ روایات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ نواب صاحب کا صدر مملکت سے ملاقات کے بعد واپسی کا پروگرام تھا مگر اب انہوں نے یہیں ٹھہرنے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ لگتا ہے کوئی گل کھلا کر جائیں گے۔
نصراللہ دریشک نے واپسی پر فاروق لغاری کو فون کیا اور ملنے ایوان صدر چلے گئے،صدر صاحب کو بتایا کہ نواب صاحب کو ناراض کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ فاروق لغاری نے جواب دیا کہ نواب صاحب کی آج واپسی کا پروگرام ہے۔ اگلے ماہ وہ واپس آئیں گے تو پھر دوبارہ دعوت دے کر بلا لوں گا مگر نصراللہ دریشک نے انہیں بتایا کہ بگٹی صاحب نے واپسی کا پروگرام موخر کر دیا ہے۔ جس پر فاروق لغاری پھٹ پڑے اور کہنے لگے کہ دریشک صاحب نواب صاحب کا مطالبہ ہے کہ گورنر بلوچستان جنرل عمران کو گورنری سے ہٹا دو، حالانکہ اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ ہےکہ انہیں کسی صورت عہدے سے نہیں ہٹانا۔ اس واقعے سے ایک ہفتے بعد پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں میاں شہباز شریف سمیت متعدد رہنماؤں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں آٹھویں ترمیم کے خلاف سخت تقریریں کیں تو نواب اکبر بگٹی کہنے لگے کہ صاف صاف الفاظ میں میاں صاحب آپ اس کی مخالفت کیوں نہیں کرتے،جس پر میاں نواز شریف نے جواب دیا کہ فوج اس ترمیم کو ختم نہیں کرنے دیتی ،نواب صاحب نے اپنے روایتی جارحانہ انداز میں جنرل جہانگیر کرامت کو فون کیا اور کہا کہ اگر ہم آٹھویں ترمیم کو ختم کریں تو آپ کو کیا اعتراض ہے۔ اس پر انہوں نے کہہ دیا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ آٹھویں ترمیم کو ختم کرنے کا فیصلہ ہو چکا تھا،نواب صاحب مرحوم اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکے تھے۔میاں نواز شریف صاحب کی چوٹی زیریں (ڈیرہ غازی خان)آمد سے قبل فاروق لغاری کا میاں صاحب پر اعتماد کا یہ عالم تھا کہ قریبی دوستوں کے بتانے کے باوجود انہوں نے تسلیم نہیں کیا کہ میاں نواز شریف کی آمد کا مقصد انہیں عہدہ صدارت سے رخصتی کا عندیہ دینا ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر لغاری خاندان طویل عرصے بعدمیاں صاحب پر اعتماد کرتے ہوئے اقساط کی صورت میں مسلم لیگ ن میں شامل ہوا،پہلے راجن پور سے سردار جعفر لغاری اور پھر ڈیرہ غازی خان سے فاروق لغاری مرحوم کےصاحبزادے اویس،جمال۔ مگر اب صورتحال یہ ہے کہ صرف چار ماہ کی رفاقت کے بعد ہی جعفر لغاری مسلم لیگ ن کو خیر باد کہنے کا حتمی فیصلہ کرچکے ہیں۔پہلے شہباز شریف کی جانب سے راجن پور کی صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑنے کے بعد ان کی بیوی کے بجائے عبدالقادر ممدوٹ کو ٹکٹ دینا اور اب بلدیاتی انتخابات میں ان کے بجائے شیر علی گورچانی کو فوقیت دینا۔ان وجوہات کی بنا پر لغاری خاندان جن کا اعتماد کئی برسوں بعد میاں برادران پر بحال ہوا تھا، ماند پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔جعفر لغاری تو اس حد تک فیصلہ کرچکے ہیں کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کو ہرانے کیلئے وہ میر بلخ شیر مزاری اور نصراللہ دریشک سے ہی اتحاد کر لیں گے۔
دوسری جانب فاروق لغاری مرحوم کے صاحبزادے جمال اور اویس بھی مسلم لیگ ن میں سخت ناخوش ہیں۔لغاری خاندان سے شمولیت کے وقت شریف فیملی نے وزارت کا جو وعدہ کیا تھا وہ اب تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔دوسری جانب علاقے کے حالات اس حد تک بدل چکے ہیں کہ جہاں کھوسہ کے صاحبزادوں کو عوام نے بری طرح سے رد کیا وہیں لغاری خاندان بھی اپنی آبائی نشست گنوا بیٹھا ہے۔ جنوبی پنجاب میں آنے والے سالوں میں سخت سیاسی قیادت کا بحران نظر آرہا ہے۔ کھوسہ جو ڈیرہ غازی خان PP-244 کی نشست گزشتہ چالیس برسوں سے جیتتے آرہے تھے اس مرتبہ متوسط طبقے کے تحریکی مسلم لیگی سے برے طرح سے ہار گئے۔ ویسے تو سید عبدالعلیم شاہ نے 2002 میں بھی کھوسہ خاندان کو بری شکست سے دوچار کیا تھا جبکہ جمال لغاری تو اپنے والد کی NA172کی خاندانی سیٹ حافظ عبدالکریم سے ہار گئے۔ لغاری خاندان سمجھتا ہے کہ جس طرح فاروق لغاری کے ساتھ کیا گیا اسی طرح ان کا بھی اعتماد توڑا گیا ہے۔ایسے حالات میں حکمران پارٹی مسلم لیگ ن کے پاس اس علاقے میں قیادت کا خلا نظر آرہا ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ چاہے کھوسہ فیملی ہو یا لغاری دونوں عوامی اعتماد کھو چکے ہیں۔ سابق صدر پاکستان،گورنر پنجاب اور حال ہی میں وزیراعلیٰ کے منصب پر رہنے والے اپنی ذاتی نشستیں بھی نہیں بچا پائے۔ پورے جنوبی پنجاب میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال ایسی ہے جیسے آپ بلوچستان کے کسی دور دراز قبائلی علاقے میں گھوم رہے ہوں۔ حالیہ دورہ جنوبی پنجاب کے دوران پورا علاقہ سہماہوا معلوم ہوتا تھا۔رحیم یار خان اور راجن پور کے درمیان کچے کے علاقے میں پولیس کی متعدد چوکیوں پر چھوٹو مزاری گینگ کا قبضہ ہے تو ڈیرہ غازی خان میں گزشتہ ماہ 2ایس ایچ اوز اور ایلٹ فورس کے دو نوجوان دہشت گردوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت آج ہے تو اس کا سہرا شہباز شریف کو دیا جاتا ہے۔ یہ اسی مرد واحد کی کوشش تھی کہ منی لاڑکانہ(مظفرگڑھ)سے پیپلزپارٹی کے تمام امیدواروں کو آؤٹ کیا تو ملتان سے سابق وزیراعظم کے صاحبزادوں اور بھائی کو ناک آؤٹ کر دیا گیا۔ پنجاب تو وہی ہےمگر وہ شہباز شریف دکھائی نہیں دیتے۔ زبان زدعام ہے کہ 7کلب (وزیراعلی ہاؤس) میں وزیراعلیٰ کا منصب حمزہ شہباز نے سنبھالا ہوا ہے۔ حالیہ دورے کے دوران ایک ڈویژن کے کمشنر نے بے بسی سے بتایا کہ مقامی ایم این اے اور ایم پی اے نقشہ لے کر نمودار ہوجاتے ہیں اور خود ہی لکیر لگا کر بتادیتے ہیں کہ حلقہ بندیاں یوں کردی جائیں۔ ایک افسر نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ راجن پور کے سب سے پرانے علاقے داجل اور کوٹ مٹھن شریف ہیں ،آبادی سب سے زیادہ ہے۔علاقے کی حدود کافی بڑی ہے،مگر حیران کن طور پر انہیں نظر انداز کرکے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے حلقے میں آنے کی وجہ سے ایک ایسا علاقہ فاضل پور جو یونین سے بھی کم ہے اسے میونسپل کا درجہ دے دیا گیا ہے۔یہ صرف جنوبی پنجاب کے تین ڈویژن کی اطلاعات ہیں۔اگر ایسی صورتحال پورے صوبے میں ہے تو کس حد تک خوفناک ہے۔لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے بعد سرکاری افسران کو بھی ہمت سے کام لیتے ہوئے ناجائز احکامات کو رد کر دینا چاہئے۔حکمرانوں کو بھی اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ عوامی انتقام خطرناک ہوتا ہے۔ عوام کے صبر کا امتحان اتنا مت لیں کہ انتقام کی آگ بھڑک اٹھے۔
تازہ ترین