• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف نے اپنی حالیہ رپورٹ میں ہمیشہ کی طرح پاکستان کو کچھ بنیادی اقدامات کرنے کیلئے کہا ہے۔ان دنوں جو مہنگائی ہورہی ہے، اسکی وجہ پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرناہے۔ عمران خان کی حکومت نے یہ سبسڈی ختم نہیں کی جس کی وجہ سے آئی ایم ایف سے معاہدے میں بھی رخنہ پیدا ہوا۔ پیڑولیم مصنوعات پر نئے ٹیکس عائد کیے جانے کے باعث مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا جس کی وجہ سے موجودہ حکومت زیرِ عتاب ہے۔آئی ایم ایف نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے پاکستان میں پرتشد د مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ پاکستان سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ تو نہیں کریگا، مگر پاکستانی عوام مزید معاشی بوجھ کا شکار ہو جائیں گے۔

پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو متعدد اقدامات کرنے پر مجبور کرتے رہے ہیں ،جیسا کہ روپے کی قد ر میں کمی کی جائے، مزدوروں کی اجرتوں کومنجمدکیا جائے، فلاحی کاموں پر خرچ کم کیا جائے، ترقیاتی منصوبوں میں سامراجی ملکوں کا عمل دخل مزید بڑھایا جائے۔ یوں ان اداروں کے رُسوائے زمانہ فارمولوں کی وجہ سے نہ صرف مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت بھی بڑھ جاتی ہے اور دوسری طرف بے روزگاری، مزدوروں کی چھانٹیاں، کسانوں کا استحصال، مزدوروں کی اجرتوں کے انجماد اور تیز سے تیز تر ہونے والی افراطِ زر کی شرح کی وجہ سے مفلسی اور بدحالی میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔

پاکستان کی اقتصادیات کی دو مستقل خصوصیات ہیں جس میں سب سے بڑی خصوصیت دن بدن بڑھتا ہوا مگر طاقتور محکموں کےغیر پیداواری اخراجات میں بے انتہا اضافہ اور دوسرا ہمیشہ کی طرح غیر ملکی امداد پر بڑھتا ہوا انحصار۔ہماری ساری اکڑ تارکینِ وطن کے بھیجے جانے والے زرمبادلہ پر ہے جو تقریباً 32 ارب ڈالر ہو گیا ہے جس کی وجہ سے توازن ادائیگی تھوڑی سی سنبھلی ہوئی ہے لیکن تاریخی طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایسی آمدنی کے مسلسل بہائو کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی ۔ ہمیں چاہئے کہ توازن ادائیگی ٹھیک کریں ۔ برآمدات میں اضافہ کریں اور غیر ضروری اشیاء کی درآمدکو کم کریں اور جب تک معاشی صورتحال قابو میں نہیں آتی اس وقت تک 2022ء میں الیکشن نہ کرائے جائیں۔

ہندوستان میں تاریخی طور پر ٹیکس ٹوجی ڈی پی شرح تقریباً بیس فیصد کے اردگرد رہتی ہے جب کہ پاکستان میں یہ شرح شاید ہی کبھی دس فیصد تک پہنچی ہو۔اس کیلئے ضروری ہے کہ جاگیرداروں، قبائلی سرداروں ، اسٹاک بروکرز اور ہائوسنگ بلڈرزکو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے۔ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح کو کم کر کے ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح بڑھا ئی جائے۔عجیب اتفاق ہے کہ جس ملک میں چھتیس لاکھ سے زیادہ خاندان ہر سال بیرونِ ملک تفریحی دوروں پر جاتے ہیں، ان میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد بیس لاکھ کے قریب ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ جب تک اقتصادی حالات بہتر نہیں ہوتے نئی ڈویلپمنٹ اسکیمیں بند کر دے۔ ویلتھ ٹیکس کو دوبارہ ریویو کیا جائے اور ہر کنال کے مکان پر ٹیکس لگایا جائے ۔ دور دراز علاقوں میں سامان کوریلوے کے ذریعے بھجوایا جائے۔ ریلوے کے ذریعے ٹرانسپور ٹ میں روڈ کی نسبت فیول کا ایک تہائی کم استعمال ہوتا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تو فیڈرل گورنمنٹ کے ڈویژنز کم ہونے چاہئیں تھے ،پندرہ سے بیس ادارے ایسے ہیں جنہیں فیڈرل گورنمنٹ کو خود بند کرنا چاہئے۔ہم اس وقت تقریباًپندرہ بلین ڈالر کی پرتعیش اشیاء مثلاً شیمپو، بلی، کتوں کی خوراک ، سگریٹ، بڑی بڑی گاڑیاں، کپڑے، جوتے ، کاسمیٹکس، بلڈنگ مٹیریلز اور ایسی بہت ساری اشیاء جو صرف اشرافیہ استعمال کرتے ہیں، در آمد کر رہے ہیں۔ شہباز شریف نے حکومت میں آتے ہی چھ بلین ڈالرز کی اشیاء پر پابندی لگائی لیکن رفتہ رفتہ آئی ایم ایف اور اشرافیہ کے دبائو کی وجہ سے یہ پابندی ہٹا لی گئی۔ اس وقت سیلاب کی شدید صورتحال کی وجہ سے ہندوستان کے ساتھ فوری اور ہنگامی بنیادوں پر تجارت کو شروع کیا جائے۔موجودہ سیلاب کی تباہی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مزید بڑے اور چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے بغیر ہم پاکستان کوآئندہ تباہی سے نہیں روک سکتے جس کیلئے چاروں صوبوں کی سیاسی پارٹیاں وزیر اعظم کے ساتھ ایک فورم پر بیٹھ کر آئندہ کا لائحہ عمل بنائیں۔ یاد رہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ معاشی ہے جو گاہے گاہےسیاسی، سماجی، انتظامی اور دیگر مسائل کی شکل میں رو نما ہوتا رہتا ہے۔چنانچہ پاکستان کی بقا اور ترقی کیلئے استحصالی طبقوں جیسا کہ جاگیردار، قبائلی سردار اور سرمایہ داروں کو آئین کی حدود میں رکھے بغیر مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔

تازہ ترین