• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے گذشتہ کالم 18 ستمبر کو ’’سپہ سالار کا چنائوـ‘‘ کے عنوان سے لکھا جس کے چھپنے کے بعد خود مورچے میں چُھپ کے اس خوش فہمی میں رہا کہ شاید اتر جائے اُس کے دل میں میری بات؟۔اُمید کے اس انتظارمیں میرے تین چار کالم سیاہی سے محروم رہے۔ سفارشات کے عمل کو تو گولی مار یئے، حکومت نے تو چنائو ہی کو سرے سے چل چلائو کیا اور یوں افواجِ پاکستان کے اعلیٰ ترین سالار اپنی کرسی خالی چھوڑ کر سلامی کے جھنڈے کو وعلیکم سلام کہتے ہوئے گھر سدھارے۔ اس ’’خُلع‘‘ کو پورا کرنے کے لیے وزیرِ اطلاعات نے اطلاع دی کہ’’ وزیراعظم کو اپنی آئینی ذمہ داریوں کا بخوبی احساس ہے اور یہ کہ وہ تمام فیصلے بر وقت کریں گے اور جو فیصلے بھی کر یںگے وہ انشاء اللہ قومی مفاد میں ہوں گے‘‘۔ واقعی ہماری کیا بات ہے! وزیرِ باکمال کی
تین باتیں واقعی کمال کی ہیں۔ پہلی وزیرِ اعظم کا اپنی آئینی ذمہ داریو ں کا احساس۔ بات بھی درست ہے کیونکہ آئین میں چنائو کی ذمہ داری اُنہی کی توہے مگرشاید آئین بنانے والے یہ بھول گئے کہ اہم عہدوں پر تعیناتی سبکدوش ہونے والوں سے کم ازکم ایک روز قبل ہو جانی چاہیے ۔بہرحال یہ آگاہی تو صرف آئین کی روح کو سمجھنے سے ہی آئے گی ناں!بروقت تعیناتی والی بات پہلی بات کی جڑواں بہن ہے۔ جب آئین ہی خاموش اور روح پرور ہو توظاہرہے کہ وقت کا تعین بھی صوابدیدی ہی ہو گا ۔ میرے نزدیک اس عقل و فہم کے مخمصے میں وقت کی تعریف میں بروقت اوربُرے وقت کا درمیانی فاصلہ گڈ مڈ ہو چکا ہے ۔ تیسر ی اطلاع ا پنے تئیں خاصی جان دار ہے یعنی وزیرِاعظم جوفیصلہ بھی ’’کرپائیں گے‘‘ وہ قومی مفاد میں ہو گا۔ یہ عندیہ سن کردل کو تسلی ضرور ہوئی کہ شکر ہے اس بار ’’قومی مفاد‘‘ کے چاند کو ہم بھی دیکھیں گے! درحقیقت اس طرح کے تمام چنائو قومی مفاد پر ہی تو مبنی ہونے چائیں۔ مجھے یہاں ایک قصّہ یاد آیا۔ پاکستان میں انتخابات کے دوران جب میں ایک کورس پہ تھا تو میرے ایک غیر ملکی ساتھی نے حیرت سے پوچھا کہ آپ لوگ انتخابات کے آزاد اور شفاف ہونے کا اتنا چرچہ کیوں کرتے ہیں۔"Are they not supposed to be free and fair ?" میں فقط ہنس کہ چل دیا۔قارئین کرام! یوں توافواج پاکستان اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چئیرمین کے علاوہ بہت سارے اہم عہدوں کی کرسیاں ابھی تک خالی پڑی ہیں کیونکہ حکومت وقت سب سے پہلے گردشی قرضوں کی گردش میں رہی پھر اس غوطہ زنی کے بعد ہوا میں اڑتے ہوئے جہازوں کو جھپہ دے مارا جس سے خلاصی عدلیہ کی بر وقت مدد سے حاصل ہوئی۔ ہوائی بلندی سے گرنے کے بعد ریلوے کی پٹریوں پر چل دوڑے۔ افسوس کہ گردش بھی بہت کی، ہوا میں بھی بہت اڑے اور دوڑے بھی بہت مگر یوں لگ رہا ہے جیسے فضلُو ابھی تک جوتے ہی ڈھونڈ رہا ہو۔جہاں تک نجکاری کا تعلق ہے تو وہ ابھی تک پچکاری سے آگے نہیں نکلی! کاش اہل اقتدار یہ جان لیتے کہ ہر کام ’’منشاء‘‘ سے نہیں ہوتا کیونکہ نِیّتیں اگر واقعی صاف ہوں توپھر اللہ کی منشاء بھی شامل حال ہو جاتی ہے۔ قومی مفاد کے مخملی لحاف میں لپٹی ہوئی مفاہمت کا ملاکھڑا تو چئیرمین نیب کی تعیناتی کی صورت میں ہم سب نے دیکھا اور محظوظ بھی ہوئے۔آئین کے تقاضے تو پورے ہوئے یا نہیں مگر اس کی روح ایک بار پھر ہوا میں معلق ہی رہی ۔ کاش کہ مفاہمت زدہ نگران وزیرِاعلیٰ دستیاب ہو تے تو پھریہ تعیناتی یقینا بر وقت ہو جاتی ۔قارئین کرام! چونکہ بات کی ابتدا سپہ سالار کے چنائو سے ہوئی تھی اس لیے اختتام بھی اسی پر کرنا مناسب ہو گا ۔ مانا کہ قومی مفاداورکفایت شعاری کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تعیناتی اگلے ماہ چیف آف آرمی اسٹاف کے چنائو کے ساتھ ہی کر دی جائیگی مگر موجودہ سپہ سالار کا اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان بذاتِ خود کرنا اور اس کے بعد میڈیا پر تجزیوں اورتبصروں کی بھر مارابھی تک میری سمجھ سے بالا تر ہے۔نہ جانے کیوں گمان ہوتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے! وزیرِاعظم کی آئینی ذمہ داری کا احساس بر حق مگر اب تک جو فیصلے ہی نہ ہو پائے اُنہیں ہم بروقت کیسے سمجھ لیں۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی؟ بہرحال اللہ کرے یہ سب کچھ قومی مفاد میں ہی ہو۔ آمین! جاتے جاتے سیدضمیرجعفری کا ایک شعر آپ کی نظر:
جہاں کی تیز رفتاری کو روکا تو ہے کچھ ہم نے
ہمیں جو آج کرنا ہے وہ اگلے سال کرتے ہیں
تازہ ترین