• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلمانوں کے اندر فتنہ و فساد پھیلانے میں ہمیشہ سے منافقین نے اہم کردار ادا کیا۔ ان منافقین نے اکثر اوقات مسلمان بن کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺمکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو وہاں ان کے خلاف سازشیں کرنے والوں نے ایک مسجد بنائی۔ تاریخ میں اس کا ذکر مسجد ضرار کے نام سے آتا ہے۔ قرآن مجید میں بھی مسجد ضرار کا ذکر موجود ہے۔ اس مسجد کو مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے والے استعمال کرتے تھے، لہٰذا نبی کریمؐ نے اس مسجد کو گرانے کا حکم دیدیا تھا۔ نبی کریمؐ نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم کرنے کے بعد ایک دستور تشکیل دیا تو اس میں واضح کیاکہ تمام متقی اہل ایمان متحد ہو کر اس شخص کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے جو سرکشی اختیار کرے، ظلم اور گناہ کے طریقے اپنائے یا ایمان والوں میں فساد پھیلائے۔ ایسا کرنے والے شخص کی مخالفت میں ایمان والوں کے ہاتھ ایک ساتھ اٹھیں گے خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ اس دستور میں یہ بھی کہا گیا کہ کوئی مومن کسی دوسرے مومن کو کافر کے بدلے قتل نہیں کرے گا اور نہ ہی مومن کے خلاف وہ کسی کافر کی مدد کرے گا۔ رفیق ڈوگر صاحب نے اپنی تصنیف’’الامینؐ ‘‘ کی جلد دوم میں دستور مدینہ کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ چار جلدوں پر مشتمل اس تصنیف میں نبی کریمؐ کے حالات زندگی کو پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ منافقین ہمیشہ سے مسلمان بن کر مسلمانوں میں اختلافات پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نبی کریمؐ کے وصال کے بعد منافقین کی سازشوں میں تیزی آگئی۔ مصری عالم ڈاکٹر طہٰ حسین نے حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ کے حالات زندگی پر دو علیحدہ علیحدہ کتابیں تحریر کیں۔ ان کتابوں میں ان دونوں محترم صحابہ کرامؓ کے خلاف منافقین کی سازشوں کا بڑی تفصیل سے ذکر ہے۔ ڈاکٹر طہٰ حسین نے جنگ جمل اور جنگ صفین کا بڑی غیر جانبداری سے تجزیہ کرنے کی کوشش کی۔ جنگ جمل حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حامیوں کے درمیان ہوئی۔ کوفہ اور بصرہ میں ایک گروہ نے اعلان کردیا تھا کہ جب تک حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا وہ نئے خلیفہ حضرت علیؓ کی بیعت نہیں کریں گے۔حضرت عائشہ ؓ کا بھی یہی خیال تھا کہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو سخت سزا دی جائے۔ جب حضرت علیؓ کو اس مطالبے کا علم ہوا تو انہوں نے بھی اس مطالبے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو سزا ملنی چاہئے۔
حضرت علیؓ نے حضرت عائشہؓ کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کیا اور مفاہمت کی پیشکش کی۔ بصرہ کے مقام پر دونوں اطراف میں مذاکرات شروع ہوئے۔ جب حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کے حامی مفاہمت کے قریب پہنچے تو منافقین پریشان ہوگئے۔ منافقین کے گروہ کا سرغنہ عبداللہ بن سبا تھا۔ یہ شخص پہلے یہودی تھا لیکن بعد میں مسلمان بن گیا لیکن اس شخص نے مسلمان بن کر مسلمانوں کو آپس میں لڑانا شروع کردیا تھا۔ جب عبداللہ بن سبا کو معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے دوگروہ آپس میں لڑنے کی بجائے صلح پر آمادہ ہورہے ہیں تو اس نے ایک سازش تیار کی۔ ایک رات اس کے ساتھیوں نے حضرت علیؓ کے لشکر میں گھس کر حضرت عائشہؓ کے ساتھیوں پر تیر برسادئیے اور کچھ ساتھیوں نے حضرت عائشہؓ کے گروہ کی جانب سے حضرت علیؓ کے ساتھیوں پر حملہ کردیا۔رات کی تاریکی میں منافقین کی سازش کامیاب ہوئی اور مسلمانوں کے دونوں گروہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے لگے۔ حضرت علیؓ نے اس لڑائی کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے کیونکہ حضرت عائشہؓ کو ایک اونٹ پر بٹھا کر میدان جنگ میں بھیج دیا گیا تھا۔ حضرت علی ؓ نے جب دیکھا کہ دونوں اطراف سے صحابہ کرامؓ شہید ہورہے ہیں تو انہوں نے اونٹ پر حملے کا حکم دیا۔ اونٹ زخمی ہو کر گر پڑا۔ حضر ت عائشہؓ کو عزت و احترام کے ساتھ میدان جنگ سے واپس بھیج دیا گیا اور جنگ ختم ہوگئی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد حضرت علیؓ نے عام معافی کا اعلان کردیا۔ انہوں نے تمام مقتولین کی نما ز جنازہ پڑھائی۔ تین دن تک بصرہ سے باہر قیام کیا، تین دن کے بعد وہ شہر کے اندر آئے ا ور پھر حضرت عائشہؓ سے ملاقات کی۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ امّ المومنینؓ کے احترام میں کوئی کسر نہ اٹھائی جائے۔ ملاقات کے بعد واپس جاتے ہوئے پتہ چلا کہ دو کوفی امّ المومنینؐ کے دروازے پر پہنچ کر ان کی شان میں گستاخی کررہے ہیں تو حضرت علیؓ نے انہیں کوڑوں کی سزا دی۔
حضرت علیؓ کے دور خلافت میں منافقین کی سازشوں کا سلسلہ جاری رہا۔ منافقین ایک طرف حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے، دوسری طرف قاتلوں کی گرفتاری کے لئے حضرت علیؓ کے ہاتھ مضبوط کرنے سے بھی گریز کرتے تھے اور اسی صورتحال میں حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے حامی ایک دوسرے کے مقابل آگئے۔ ایک گروہ ایسا بھی تھا جو حضرت علیؓ ،حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت عمرو بن العاصؓ کو فتنہ و فساد کی وجہ قرار دے کر تینوںکو قتل کرنا چاہتا تھا۔ اس گروہ نے حضرت امیر معاویہؓ پر حملہ کیا لیکن حملہ ناکام ہوگیا۔ حضرت عمرو بن العاصؓ اس لئے بچ گئے کہ وہ بیماری کی وجہ سے نماز فجر کے لئے مسجد میں نہ آئے لیکن حضرت علیؓ کے خلاف سازش کامیاب ہوگئی اور وہ شہید کردئیے گئے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ مورخین ان واقعات کو درست تسلیم نہ کریں لیکن میں نے تو صرف ڈاکٹر طہٰ حسین کی تحقیق بیان کی ہے جس کے مطابق منافقین نے پہلے حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کے مابین جنگ کرائی پھر حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ میں اختلافات پیدا کئے پھر ان دونوں کو حضرت عمرو بن العاصؓ کے ہمراہ قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔
میں نے تاریخ کے ان واقعات کا ذکر آج کے حالات کے تناظر میں کیا ہے۔ آج بھی کچھ منافقین مسلمان بن کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔ مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگائے جارہے ہیں، مسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ جب بھی مسلمانوں کے متحارب گروہوں میں صلح کے لئے مذاکرات کی کوشش ہوئی ہے تو عبداللہ بن سباکے پیروکار کوئی نہ کوئی ایسی سازش کرتے ہیں کہ مسلمان مذاکرات چھوڑ کر پھر سے آپس میں لڑنے لگتے ہیں۔ ہمیں اپنی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے۔ جنگ جمل اور جنگ صفین کے بعد سانحہ کربلا رونما ہوا۔ مسلمانوں نے مسلمانوں کو قتل کیا۔ یہ سب کیوں ہوا؟ اس پر غور کیجئے، منافقین کو پہچانئے جو مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑارہے ہیں۔ دستور مدینہ سے سبق حاصل کیجئے، مسلمانوں میں فساد پھیلانے والوں کے خلاف متحد ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور کافروں کی خوشنودی کے لئے مسلمانوں کا خون بہانا بالکل جائز نہیں۔ آئیے دور جدید کے عبداللہ بن سبائوں کو پہچانیں، اگر مسلمان متحد ہوگئے تو یہ سازشی عناصربے نقاب ہوجائیں گے۔
تازہ ترین