• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل نسیم حجازی اور ابن صفی کے ہیرو ایک نہتی سولہ سالہ لڑکی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ تمام کے تمام بحر ظلمات کے گھوڑے روشنی کی ایک ننھی کرن کو اپنے پیروں تلے روندنے کو بیتاب ہیں لیکن ان کا بس نہیں چلتا، وہ ان کی کمندوں سے کافی بلندی پر ہے لیکن گفتار کے غازی لگتا ہے کہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر چہ طالبان کی بندوق تو کچھ ملالہ کا نہیں بگاڑ سکی مگر ان کے قلم، قلم سے زیادہ ان کی زبانیں یہ کام کرسکتی ہیں۔ مجھے ان کی آزادی اظہار کا احترام ہے کہ جو آزادی اظہار وہ کسی دوسرے کو دینے کو ہرگز تیار نہیں۔ آخر ملالہ یوسف زئی نے وہ کونسی سرخ یا کالی لکیر غلطی سے پار کر لی ہےجسے پاکستان کی اس بہادر ترین بچی کا بارودی سرنگ پر پائوں پڑنے کے مترادف بنایا جارہا ہے۔
آخر وہ لوگ جیسا کہ خود اس نے کہا تھا ایک لڑکی، ایک کتاب اور ایک استاد (ضیاء الدین یوسف زئی) سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں؟
بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر پاکستان جیسے ملک میں ایسی دیدہ و نادیدہ قوتیں ہوتی ہیں جن کی مرضی سے اگر فلم بنائو تو وہ’’ وار‘‘ ہو جائے اگر ان کی مرضی کے بغیر کتاب لکھو تو وہ پھر ملالہ کی کتاب بن جاتی ہے۔ بندگلی میں پھنسی ہوئی بند دماغوں اور دلوں والی قوم کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ملالہ کی کتاب کھلے سماجوں والی قوموں کے کتاب گھروں میں باقی عالمی بیسٹ سیلرز کی قطار میں پڑی ہوئی ہے لیکن اس کی مصنفہ کو دیوار میں چنوائے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہماری تمام خود شکستگی اب ملالہ سے حسد اور دشمنی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ’’دیکھو اور بھی تو لڑکیاں ہیں پاکستان میں لیکن ملالہ کو اتنی اہمیت کیوں؟‘‘ کئی پاکستانیوں کو کہتے سنا جاتا ہے۔ بعض کج فہم اسے سلمان رشدی سے ملا رہے ہیں تو اسے ایسا لگتا ہے کہ خدانخواستہ ملالہ ایک نیا سلمان رشدی ہے اور اس کے خلاف گھیرا تنگ کرنے والے سارے کے سارے کردار پاکستانی فلم انٹرنیشنل گوریلے کے ہیرو ہیں۔ سلمان رشدی کی کتاب کے جواب میں پاکستان میں بنائی جانے والی فلم انٹرنیشنل گوریلے اگر آپ نے نہیں دیکھی تو ضرور دیکھئے گا۔ملالہ کا تعلق سیلف میڈ متوسط لیکن تعلیم یافتہ طبقے سے ہے۔ وہ لڑکی ہے، پختون ہے (جو اب ایک عالمی شخصیت بن چکی ہے) طالبان کی بندوق کو اس کے قلم اور کتاب سے چیلنج ہے۔ وہ جانتے ہیں یہ لڑکی ان کی فکر اور سوچ کیلئے امریکی ڈرون سے بھی ان کے لئے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ برصغیر جنوبی ایشیا پر معروف ہمعصر مورخ و مصنف ولیم ڈیلرمپل نے ملالہ کو اٹھارویں صدی کے افغانستان میں برطانوی استعماری بیٹھکی طاقت کو دفن کرنے والی، اس کی ہم نام کا نیا جنم قراردیا ہے۔
ملالہ کی کتاب کے مواد سے زیادہ بعض بھائی لوگوں کو حسد ملالہ کو ملنے والی اچھی عالمی شہرت، پروٹوکول اور کتاب کی رائیلٹیز سے لگتی ہے۔ پشتو میں ایسے حسد کو تربور کہتے ہیں کہ دیوار گری تو کیا ہوا کم از کم چچازاد بھائی کی مرغی تو مری۔
ڈاکٹر بسام طبی شامی نژاد عالمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر ہیں جو جرمنی میں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر بسام طبی دنیا میں عالمی تہذیبی تنازعوں اور اسلام پر مغرب اور امریکہ سمیت دنیا بھر میں اپنے لیکچر اور تصنیفات جنہیں اب اسلامولوجی کہا جارہا ہے کے حوالے سے انتہائی مانے اور جانے جاتے ہیں، ان کا تعلق سنی عقیدے سے ہے۔ ڈاکٹر بسام طبی گیارہ ستمبر دو ہزار ایک سے قبل کی دنیا کے اسلامی اسکالر ہیں۔ وہ انیس سو نوے کی دہائی میں پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو ان کا ایک لیکچر سننے میں بھی کراچی میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ گیا تھا۔ یہ وہ دن تھے جب پاکستان سمیت دیگر مسلم دنیا میں مصنف سلمان رشدی کے ناول سیٹینک ورسز پر ایک آگ سی لگی ہوئی تھی۔ میں نے ڈاکٹر بسام طبی سے سلمان رشدی کی کتاب کے خلاف پُرتشدد ردعمل اور مصنف کے خلاف ایران کے آیت اللہ خمینی کی طرف سے فتوے پر ان کے خیالات جاننے کے لئے سوال کیا تھا۔ڈاکٹر بسام طبی نے میرے سوال کے جواب میں کہا تھا’’اگرچہ سلمان رشدی کی کتاب سے دنیا میں کروڑ ہا مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے لیکن سلمان رشدی کے خلاف تلوار میرا قلم ہونا چاہئے۔ قلم کا جواب قلم سے ہونا چاہئے‘‘۔یہی تو انہی دنوں میں اپنے کالج کے طلبہ کو ملالہ کے والد ضیاءالدین نے کہا جسے اب ملالہ کی کتاب کے حوالے سے سیاق و سباق سے ہٹ کر غلط بیان کیا جا رہا ہے۔
کسی نے ضیاء الحق کے دور میں تب توہین مذہب کا مقدمہ دائر کرنے کی بات نہیں کی جب سندھ میں ایم آر ڈی تحریک کے دوران سکرنڈ کے قریب قومی شاہراہ پر گوٹھ پنہل چانڈیو کے قرآن خوانی کرتے ہوئے لوگوں پرٹرک چڑھادیئے گئے تھے نہ ہی ان شدت پسندوں، ان دہشت پسند ٹولوں کے خلاف جنہوں نے بابری مسجد کے انہدام کے سانحے کے خلاف ردعمل کے آڑ میں پاکستان کے کئی علاقوں میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں اور املاک پر حملے کیے تھے۔ طالبان و دیگر ایسے دہشت گرد ٹولے آئے دن مسجدوں اور درگاہوں کو بموں سے آڑاتے رہتے ہيں لیکن غیرت بریگيڈ کی غیرت اس پر بیدار ہوکر ان کے خلاف توہین مذہب کے پرچوں کی بات نہیں کرتی۔
یہ سب باتیں ملالہ ڈنکے کی چوٹ کہتی ہے حتیٰ کہ ڈرونز کے متعلق بھی اس نے صدر اوباما کے سامنے اپنی بات رکھی۔ یہاں تو وزیراعظم لکھا ہوا اسکرپٹ لایا ہوا تھا۔ بس ملالہ اسکرپٹ سے باہر گئی اور آمریت کی تمام باقیات نے اس پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے ہیں۔
یہ آمریت کی باقیات نہیں تو کیا ہے جو ملالہ کو ضیاءالحق کے دور میں عورتوں کے حقوق سلب کیے جانے پر لکھنے پر نشانہ بنا رہے ہیں۔ کوئی صاحب ٹی وی پر کہہ رہے تھے کہ ان کو ضیاءالحق کے زمانے میں حسینہ معین اور نورالہدیٰ شاہ کے ڈرامے دیکھنے کو ملے۔ مجھے معلوم ہے کہ ان لکھنے والوں کو ایک ہاتھ میں ہتھکڑی پہن کر لکھنا پڑتا تھا جب ایسے تجزیہ نگار ڈپٹی کمشنری فرمارہے تھے۔ انہی دنوں میں بقول شخصے ضیاء الحق نے خواتین کے حقوق اور آزادیوں پر اس لئے قدغن بھی ڈالی کیونکہ بھٹو خواتین سیاست میں تھیں۔ وہ بھی تو عورتیں تھیں جنہیں لاہور کے شاہی قلعے کے عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔فرخندہ بخاری ، شاہدہ جبین سمیت بے شمار خواتین۔ ناصر زیدی سمیت ابھی کئی صحافی ہیں جن کو کوڑے مارے گئے تھے۔ یہ نام نہاد میڈیا کی آزادی انہیں کوڑے کھانے والے صحافیوں کی مرہون منت ہے۔ ضیا آمر کے ہی دور میں فہمیدہ ریاض اور ڈاکٹر کنیز یوسف سمیت کئی خواتین ٹی وی ریڈیو اور سرکاری میڈیا میں زیر بندش تھیں اور ان کو جلاوطنی اختیار کرنی پڑی تھی۔ اسی دور کیلئے احمد فراز نے کہا تھا:
کتنے بے گنہوں کے گلے پر روز کمندیں پڑتی ہیں
بوڑھے بچے گھروں سے غائب بیبیاں جیل میں سڑتی ہیں
آمریت نے بقول شخصے لوگوں کے خون میں انڈے دیئے تھے جن سے وہ بچے پیدا ہوئے ہیں جن کے خلاف ملالہ یوسف زئی انگشت شہادت کی حیثیت رکھتی ہے۔ ضیاء ایسے دور پُرآشوب کا وہ بدلہ ایم آر ڈی اور پی پی پی کے کارکن نہ لے سکے جو میرے دوست اور معروف لکھاری محمد حنیف نے اپنے ناول اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز میں فرضی کرداروں کے ہاتھوں اس کی فوجی آمر سے لیا ہے۔
ضیاءٓالحق کے دنوں میں ہی ڈرامہ نگار اور سندھی افسانہ نگار عبدالقادر جونیجو کا ٹی وی ڈرامہ چھوٹی سی دنیا پی ٹی وی سے نشر ہوا تھا جس میں اس میں جینٹل مین کردار خان صاحب اور گائوں کے واٹ منی کمیاڑی گو ٹائپ جانو جرمن کے درمیان انگریزی کا مقابلہ ہوا تھا۔ جس میں جینٹل مین کردار خان صاحب کو ون ٹو تھری اے بی سی یس نو کی چرب زبانی کرنے والے کردار جانو جرمن سے ہرادیا جاتا ہے۔ مجھے ملالہ کی کتاب پر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی جیسا سائنسدان اور بھلا مانس دانشور یاجوج ،ماجوج کرداروں میں گھرا ایسا لگا۔ جانو جرمنوں کو چاہئے کاش وہ اتنا چیخنا چلانا طالبان پر سلمان تاثیر اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کی واپسی کیلئے سوات میں بچیوں کے اسکول جلائے جانے پر کرتے یا پشاور میں چرچ اڑائے جانے پر یا فوجیوں کے ذبح کئے جانے پرکرتے جتنا وہ ملالہ اور اس کی کتاب کا سیاق و سابق درست رکھنے والے ڈاکٹر پرویز ہودبھائی پرکر رہےہیں۔
تازہ ترین