• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شیخ عمر وڈیلو اسپین کے اسکالر ہیں یہ مسلمان دنیا کو سود سے پاک متبادل معاشی نظام فراہم کرنے کی سعی کر رہا ہے۔ عمر وڈیلو نے پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت میں بھی ایک پٹیشن دائر کر رکھی ہے کہ روزمرہ کے لین دین میں سودی نظام کا متبادل موجود ہے۔ عمرو ڈیلو کے ساتھ ان کی اہلیہ حمیرا اویس بھی پٹیشنر ہیں حمیرا اویس شاہد پنجاب اسمبلی کی سابق رکن ہیں اور آج کل سود کے خلاف جہاد پر نکلی ہوئی ہیں جن دنوں وہ پنجاب اسمبلی کی رکن تھیں ان دنوں بھی انہوں نے سودی نظام کے خلاف قانون سازی کروائی تھی مگر اس قانون پر ہنوز عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
حمیرا اویس کا خیال ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان آزادی کے 66 برس گزرنے کے باوجود ایک اسلامی ریاست کی حیثیت اختیار کرنے سے قاصر ہے۔ پاکستان میں اسلامی معاشی نظام حکومتی سطح پر آج تک نہ تو کبھی پیش کیا گیا ہے اور نہ ہی کبھی لاگو ہو سکا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی عوام کو ہمیشہ یہی بتایا گیا کہ سود کے بغیر کوئی بھی معاشی نظام چلانا ممکن نہیں۔ ہمیشہ یہی باور کرایا گیا کہ صرف اور صرف مغربی سرمایہ دارانہ نظام ہی چل سکتا ہے جو کہ اس وقت دنیا بھر میں رائج ہے۔ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ دولت کے چند ہاتھوں تک ارتکاز کا یہ غیر منصفانہ سامراجی نظام صرف چند لوگوں کی تجوریاں بھرے گا اور دنیا کے چھ ارب انسانوں کی حق تلفی ہوتی رہے گی۔ جبکہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل حلال معاشی نظام اپنے تمام تر اسلامی قوائد و ضوابط کے ساتھ موجود ہے۔ حکومت پاکستان اسے نافذ کر کے معاشرے کو ناانصافی اور استحصال سے بچا سکتی ہے۔ تاریخ اس کامیاب نظام کا نظارا عہد رسالت میں مدینہ منورہ میں کر چکی ہے۔ پاکستانی معیشت اس وقت قرضوں اور ان پر اٹھنے والے سود میں جکڑی ہوئی ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کے اندرونی قرضوں میں پچھلے سال کی نسبت 1.3 ٹریلین ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے اور بیرونی قرضے 65.7 بلین ڈالرز تک پہنچ گئے ہیں جبکہ فارن ریزرو صرف گیارہ بلین ڈالرز ہیں۔ موجودہ حکومت ابھی تک آئی ایم ایف سے صرف 550 ملین حاصل کر سکی اور مزید کیلئے دامن پھیلائے ہوئے ہے پاکستان کو مسلسل انفلیشن کے ذریعے لوٹا جا رہا ہے جبکہ ٹیکسوں کا شکنجہ سخت ہوتا جا رہا ہے لیکن اس سخت ہوتے ہوئے شکنجے میں اس بات پر کوئی غور نہیں کر رہا کہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم کو عوامی سہولتوں پر خرچ نہیں کیا اس معاشی گورکھ دھندے کے سبب امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ٹیکسوں کی بھرمار نے زندگی کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں نہ معاشی انصاف باقی رہ گیا ہے اور نہ ہی کہیں اقتصادی آزادی نظر آتی ہے۔ اس مشکل ترین صورتحال میں دنیا کے پاس اسلامی معاشی نظام کے علاوہ حقیقی معاشی استحکام کیلئے اور کوئی راستہ نہیں۔ اسلام سود کو اللہ اور رسول ﷺ کے خلاف کھلی جنگ قرار دیتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ دنیا کا سارا اقتصادی ڈھانچہ سود پر کھڑا ہے جو کسی بھی وقت دھڑام سے گر سکتا ہے۔
ہم پاکستانیوں کے لئے عمر وڈیلو اور حمیرا اویس کی آواز وقت حاضر کی ایک سنجیدہ پکار ہے چونکہ بلاسود معاشی نظام میں فلاح اور خیر ہے۔ ہماری قوم کے لئے وقت ہے کہ ہم سب سود کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تاکہ اپنے آپ کو معاشی استحصال سے بچا سکیں۔
میں اپنے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ میں نے پاکستانی معاشرے میں بہت سے انسانوں کو سود کے ہاتھوں پریشان دیکھا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ سود لینے والے بھی پریشان نظر آئے اور سود دینے والے بھی پریشانی سے خالی نظر نہ آئے۔ سود نے سوائے دکھوں کے کچھ نہ دیا۔ جس نے سود پر گاڑی لی، گھر بنایا بے سکون ہو گیا یا پھر جس نے کریڈٹ کارڈ لیا، رسوائی اس کا مقدر بن گئی مگر افسوس بہت سے انسان سمجھنے سے قاصر رہے۔
سود کی بربادی اپنی جگہ، ایک بربادی پیپر کرنسی کے باعث بھی ہے ’’کاغذی کرنسی‘‘ کے حق میں دلائل دینے والے بہت ہیں، پلاسٹک کرنسی کے حق میں بات کرنے والے اسے ہی معتبر قرار دیتے ہیں مگر حقیقت اس سے مختلف ہے۔ کاغذ کی کرنسی کچھ بھی نہیں، محض کاغذوں کا ڈھیر ہے۔ زر سے اس کا کیا تعلق؟ جدید سرمایہ دارانہ نظام سکوں کا مخالف ہے مگر سکوں کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں، سونے، چاندی اور کانسی کی اپنی کوئی مالیت تو ہوتی ہے کاغذ کی کیا مالیت، ہاں ردی کی ٹوکری کے لئے بہترین ہے۔
کاغذ کی کرنسی کی ابتداء ساتویں صدی میں چین کے اندر ملتی ہے یہ ابتداء تھی جبکہ اصل صورت گیارہویں صدی میں سامنے آئی جب ’’کاغذی کرنسی‘‘ نافذ ہوتے ہی منگولوں نے اسے خوب پھیلایا۔ یورپی سیاح مارکو پولو چین آیا تو کاغذ کے نوٹ دیکھ کر ششدر رہ گیا، واپس لوٹا تو اہل یورپ کو بتانے لگا پھر 1661ء میں سویڈن کے اندر اسٹاک ہوم بنک نے پہلی مرتبہ کاغذ کی کرنسی متعارف کروائی۔ کاغذ کی کرنسی متعارف ہوتے ہی حکومتوں کو اپنے لوگوں کے ساتھ فراڈ کرنے کا آسان طریقہ مل گیا۔ مثلاً اپریل 1933ء امریکی حکومت نے حکم نامہ صادر فرمایا کہ تمام امریکی سونے کے سکے فیڈرل ریزرو بینک میں جمع کروا دیں۔ جس امریکی نے ایسا نہ کیا اسے دس ہزار ڈالر جرمانہ ہو گا یا پھر چھ مہینے کی سخت ترین قید اس کے حصے میں آئے گی۔ امریکیوں نے سارے سکے جمع کروا دیئے اور ’’کاغذی ڈالر‘‘ لے لئے۔ نو ماہ بعد یعنی جنوری 1934ء میں کرنسی کو 41 فیصد ڈی ویلیو کر دیا گیا جب 41 فیصد قیمت گر گئی تو حکومت نے کہا کہ اپنے سکے واپس لے جائو۔ یوں امریکی حکومت نے محض نو مہینے کے اندر امریکیوں کی 41 فیصد دولت ہڑپ کر لی۔ آئی یم ایف نے تو اس کے تمام راستے کھول دیئے۔ آئی ایم ایف کا ممبر بننے کے لئے جو معاہدہ کیا جاتا ہے۔ اس کی شق نمبر چار کے سیکشن 2(بی) میں واضح کر دیا گیا ہے کہ کوئی بھی ملک اپنی کرنسی کو سونے کی ضمانت کے ساتھ جاری نہیں کر سکتا، ہاں مگر کسی دوسرے ملک کی ’’کاغذی کرنسی‘‘ سے جوڑ سکتا ہے۔ یوں کاغذوں کے میل جول سے ہوائی قلعے تو تعمیر کئے جا سکتے ہیں لیکن انہیں باہمی زر ضمانت کے طور پر استعمال کرنا دیوانے کا خواب ہے۔
دوستو! سچی بات تو یہ ہے کہ آج اقتصادی موضوع پر لکھتے لکھتے مجھے بوریت ہو گئی ہے، آپ بھی یقیناً بور ہو گئے ہوں گے آیئے اس بوریت کو افشاں سجاد کے دو اشعار سے دور کرتے ہیں کہ
ممکن ہے تہہ آب ملیں لعل و گہر بھی
کشتی کو خود ہاتھوں سے ڈبویا نہیں جاتا
گم گشتہ زمانوں میں الجھ جاتی ہیں آنکھیں
سونا بھی اگر چاہوں تو سویا نہیں جاتا
تازہ ترین