• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے۔ بیٹے بیٹیوں، پوتوں پوتیوں سے ملنے کا دن۔ خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ جب بیٹی بھی نواسے نواسی کو لے کر اچانک پہنچ جائے۔ پھر ڈھیروںباتیں۔ سوالات۔ کراچی آج کل سر راہ لٹیروں کی زدمیں ہے۔ وارداتیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ وحشت سوار ہے۔ یہ بے روزگاری کا جنوں ہے۔ یا امن و امان نافذ کرنے والے اداروں کی بے حسی۔ ہمارے نواسے نے اپنی آنکھوں سے ایک ڈکیت کو ہتھیار نکالتے دیکھا۔ ٹریفک کی بتّی سبزہوگئی۔ گاڑی چل پڑی۔ اللہ سب کو محفوظ رکھے۔

میرے ہم وطن 3کروڑ کی تعداد میں سیلاب 2022 کی زد میں ہیں۔ لاکھوں سڑک کنارے بے یارو مددگارپڑے ہیں۔ ترکی، متحدہ عرب امارات، چین اور جانے کہاںکہاں سے خیمے آرہے ہیں۔ لیکن کہاں جارہے ہیں۔ مچھر دانیاں کہاں بٹ رہی ہیں۔ ایسی آفات ناگہانی میں تو دل خوف خدا سے لرز جاتے ہیں۔ مگر ہم کیسے بوالہوس ہیں کہ مچھر دانیاں خیمے اپنے گوداموں رائس ملوں میں چھپا رہے ہیں۔ مہنگے داموںبیچ رہے ہیں۔ دوائیں گودام میں ذخیرہ کر رہے ہیں۔ شاہ لطیف’صدیوں پہلے یہ کہہ رہے ہیں۔ جانے رہبر کہاں گئے ہیں۔ مانجھی تیری کشتی میں اب چوروں کے ہیں ڈیرے ۔ قائد اعظم ذخیرہ اندوزوں کو خبردار کرتے رہے۔ لیکن 75سال میں ہم نے کسی کی نہ سنی۔ ملک میں حکمران آتے جاتے رہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی طبعی موت مرتی رہیں۔ نئی سیاسی تنظیمیں۔ قومی جماعتیں وجود میں آتی رہیں۔ لیکن اس مملکت کے ارتقا کے لئے استحکام کے لئے جو اقدامات ناگزیر تھے۔ وہ نہیںکئے گئے۔ موسمیاتی تبدیلی پر اقوامِ متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے خبردار کرتے رہے لیکن ہم نے 50 سال میں کوئی بڑا ڈیم نہیں بنایا۔ ہماری قوم پرستی عروج پر رہی۔ اب جب ڈیم نہ بنانے کے باعث کے پی کے، جنوبی پنجاب اور سندھ میںلاکھوں جیتے جاگتے خاندان۔ مائیں۔ بہنیں۔ بزرگ ، بچے بے سہارا ہیں تو وہ قوم پرست کہیں نظر نہیں آرہے ۔ جوں جوں وقت گزررہا ہے۔ سیلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہی اور بربادی کا دائرہ وسیع ہورہا ہے۔ دنیا ہماری مدد کررہی ہے۔ مگر لٹیرے اب بھی سرگرم عمل ہیں۔ جاگیردار۔ سردار اب بھی غلبہ پارہے ہیں۔ امداد اکٹھی کوئی بھی کرے۔ لیکن اس کی تقسیم ان کے ہاتھوں ہونی چاہئے۔

ایسے اقتصادی، سماجی، اخلاقی بحرانوں میں عام طور پر کہا جاتا تھا کہ ’قومی حکومت‘ قائم کی جائے تاکہ سب متحد ہوکر حالات کا مقابلہ کرسکیں۔ ہمارے بزرگ سیاستدان چوہدری شجاعت حسین کوتو قومی حکومت کا ہمیشہ بہت شوق رہا ہے۔ انہوں نے ملکی مسائل کا حل ہمیشہ قومی حکومت قرار دیا ہے۔ اس وقت اسلام آباد میں جو حکومت ہے، جس میں چوہدری شجاعت حسین کے صاحبزادے بھی شامل ہیں۔ وہ ہر طرح سے قومی حکومت ہے بلکہ اس میں تو قوم پرست جماعتیں بھی شامل ہیں۔ اسے مخلوط حکومت کہیں یا اتحادی حکومت۔ پاکستان میں مخلوط حکومتوں کا تجربہ ہمیشہ ’مائنس ون‘ سے ہی کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دَور میں قومی اتحاد کی حکومت پی پی پی کے بغیر تھی۔ 1988کے بعد ہر حکومت کو ایم کیو ایم کی ضرورت رہی۔ 90 جو اب جل کر انہدام کی زد میں ہے، اس کے در و دیوار نے کتنے وزرائے اعظم کو یہاں حاضری دیتے دیکھا ہے۔ لیکن

تھی وہ اک شخص کے تصور سے

اب وہ رعنائی خیال کہاں

اب تو ایم کیو ایم کے قائدین اپنے انتخابی حلقوں میں کارکنوں کے احتجاج کا نشانہ بن رہے ہیں۔ لیکن اس وقت جس قومی حکومت کا تجربہ ہورہا ہے یہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا ۔ تحریک عدم اعتماد میں تو انہوں نے نادیدہ قوتوں کے سہارے کامیابی حاصل کرلی۔ لیکن اس کے بعد مسلسل ناکامیوں کا سامنا ہے۔ خاص طور پر معیشت قابو میں نہیںآرہی ہے۔ کیا پی ڈی ایم نے صورت حال کا معروضی جائزہ لیا تھا؟ مسلم لیگ (ن)، پی پی پی، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، جمہوری وطن پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی، پشتونخواہ ملی پارٹی، قومی وطن پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، جمعیتِ اہل حدیث، نیشنل پارٹی، بزنجو، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ، نے تحریک عدم اعتماد لانے سے پہلے اپنی اپنی مجالس عاملہ کے اجلاس منعقد کر کے کیا کوئی مشاورت کی تھی کہ حکومت بنانے کے بعد کن مسائل کا سامنا کرنا ہو گا۔ ان کےلئے کیا تیاری کرنی چاہئے یا پہلی سلیکٹڈ حکومت کی طرح سوچ لیا تھا کہ اب ہم ایک صفحے پر ہیں؟ سنبھالنے والے سب کچھ خود سنبھال لیں گے۔

مجھے یہ تشویش ہے کہ تاریخ اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے کہ ہمارے ہاں اجتماعی قیادت کا تجربہ بھی ایک فرد کی قیادت کی طرح ناکام ہورہا ہے۔ ہر سیاسی جماعت ایک جمہوری نظام اور بالخصوص پارلیمانی سسٹم میں قابلِ احترام ہوتی ہےکیوں کہ ہمارے ہم وطن کم یا زیادہ تعداد میں اس کے حلقۂ بگوش ہوتے ہیں۔ ہم تو نیک نیتی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہر جماعت اپنے عوام کے لئےبنیادی طور پر نیک خواہشات لے کر میدان میںاترتی ہے۔ اور جب 14قیادتیں اتنے سارے دماغ ایک تسبیح میں پروئے جاتے ہیں تو وہ ایک طاقت بن جاتے ہیں۔ سارے ذہن مل کر ملک کے لئےپائیدار اقتصادی، سیاسی، سماجی، خارجہ، داخلہ، تعلیمی، صحت سے متعلق پالیسیاں مرتب کرسکتے ہیں۔ ان پارٹیوں میں پنجاب، سندھ، کے پی کے، بلوچستان کی بھرپور نمائندگی ہے تو یہ پورے ملک کی معیشت، سماج، تعلیم، صحت کیلئےمنصوبہ بندی کرسکتی ہیں۔ اصولاً تو حکومت کے قیام سے پہلے سے کوئی اجتماعی دستاویز مرتب ہوتی ہے۔ ساری پارٹیاں اپنے اپنے ماہرین کو اس فریضے پر مامورکردیتی ہیں کہ وہ کوئی میثاق مرتب کریں تاکہ عوام اور تاریخ کو یہ خبرداری مل جائے کہ یہ اتحاد مستقبل کیلئے کیا لائحہ عمل لے کر آرہا ہے۔ لیکن ایسا اب تک نہیں ہوا اور نہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

ایک پارٹی کے مقابلے میں 14پارٹیوں کا تو دبدبہ ہونا چاہئے۔ اتنے دماغ کسی جگہ اکٹھے ہو جائیں تو انہیں قیامت برپا کردینی چاہئے۔ اور جب آپ ایک ٹھیک ٹھاک چلتی حکومت کو گراکر مسند نشیں ہوئے ہیں تو ایک بہتر حکمرانی کا بہت روشن نمونہ پیش کرنا چاہئے۔ اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی پاکستان سے کیا مراد ہے؟ ڈیموکریٹک سے کیا اور موومنٹ سے کیا اور پاکستان کے عوام اسے اگست 2023 تک کیوںبرداشت کریں؟ ان پارٹیوں میں تجربہ کاردماغ موجود ہیں۔ وہ کوئی لائحہ عمل مرتب کرسکتے ہیں۔ اکتوبر 2022سے اگست 2023 تک ملک میں کیا کیا موڑ آئیں گے اور پاکستان کو کیا کرنا چاہئے؟لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ پارلیمانی۔ صدارتی۔ شرکت ِاقتدار۔ خالص فوجی حکومتوں کے تجربے ناکام ہوچکے ہیں۔ ایک خالص سول اجتماعی قیادت کا تجربہ بھی ناکام نہ ہوجائے۔

تازہ ترین