• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں ایک عرصے سے ٹیکسوں اور خصوصاً انکم ٹیکس کی عدم وصولی کی شکایت ہے، غالباً سب سے پہلے آج سے 12، 13 برس پہلے سرتاج عزیز کے دور وزارت میں ان کے حجم میں اضافے کی تجویز زیر غور آئی تھی، اگر اس وقت کوئی مناسب قدم اٹھالیا جاتا اور ہر سال ٹیکسوں کی رقم میں کم از کم 4.3 فیصد بھی اضافہ ہوجایا کرتا تو اس عرصے میں مجموعی حجم میں 42,40 ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہوتا اور ہمیں نہ تو آئی ایم ایف کی خوشامد کرنا پڑتی اور نہ اپنے بجٹوں کے مقررہ اہداف میں کمی کرنا ہوتی۔ مثلاً رواں سال کے بجٹ میں ٹیکسوں سے ہونے والی آمدنی کا اندازہ 247 ارب روپے لگایا گیا تھا، ابھی 4 مہینے بھی نہیں گزرے کہ نہ صرف 3 ماہ میں بجٹ کا خسارہ 293 ارب روپے رہا اور حکومت کو 513 ارب روپے کا قرض لینا پڑا۔ دوسری طرف ترقیاتی بجٹ میں 321 ارب روپے کی کمی کرنا پڑی اور آمدنی کے ہدف کو 2475 ارب سے گھٹاکر 2345 ارب کردیا گیا اور بہت ممکن ہے کہ مارچ، اپریل 14 تک پہنچتے پہنچتے اس میں مزید تخفیف کرناپڑے۔ ایک اخباری خبر ہے کہ اس سال بڑے پیمانے کی صنعتوں میں شرح نمو 6.3 فیصد رہے گی مگر ملکی شرح نمو کا 4.4 فیصد تک پہنچنا بھی مشکل ہے۔ اس کا واضح اشارہ سیکریٹری پلاننگ کمیشن کی طرف سے دیا جاچکا ہے۔ اس مرتبہ ایف بی آر نے جی کڑا کرکے 22 ہزار ٹیکس چوروں، بااثر اور نادہندہ ٹیکس ادا نہ کرنے والے مالداروں کو ٹیکس کی ادائیگی کے نوٹس بھیجے، ان میں سے 20ہزار نوٹس غلط فہمیوں کی وجہ سے واپس آگئے۔ پتے نادرا نے فراہم کئے تھے، اب نادرا اور ایف بی آر میں لفظی جنگ ہوتی رہے گی۔ نادرا نے اپنے آپ کو کسی الزام سے بری الذمہ بتایا ہے۔ جمعے کو ایف بی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 30 ہزار 533 ایسے افراد کو نوٹس جاری کئے گئے جو کہ ٹیکس کے دائرے میں نہیں تھے۔ جن کے متعلق قابل ٹیکس معاشی سرگرمیوں کی اطلاعات ادارے کے پاس تھیں۔ اب تک 11 ہزار 373 نوٹس وصول کئے جاچکے ہیں۔ ان میں سے 1189 افراد نے اپنے آپ کو بطور ٹیکس دہندہ رجسٹر نہیں کیا، 9365 نوٹس وصول نہیں کئے جاسکے۔ ان میں 30فیصد نامکمل پتوں کی وجہ سے واپس ہوئے، 32 فیصد جو پتے تھے وہاں کوریئر سروس کی خدمات موجود نہیں تھیں، 18فیصد رہائشیوں کی منتقلی یا گھروں کے بند ہوجانے کی وجہ سے واپس آئے، 15فیصد غلط پتے درج تھے، 5فیصد کا وصولی سے انکار تھا۔ اب ایف بی آر اور نادرا کو ایک دوسرے کو الزام دینے سے کیا فائدہ۔ وہی مثل ہے ’’گیا ہے سانپ نکل، اب لکیر پیٹاکر‘‘۔ کیا اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ ’’پرنالہ وہیں گرے گا جہاں پہلے گررہا تھا‘‘۔نئی حکومت کو ابتدا میں جن چند اہم مسائل کا سامنا کرنا پڑا، ان میں لوڈشیڈنگ، امن و امان کا فقدان اور مہنگائی تھی۔ اس درمیان عیدالاضحی آگئی، اس نے قربانی کے جانوروں کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ٹرانسپورٹ، صارفی اشیاء اور بالخصوص اشیائے خوردنوش کی تمام چیزوں کے دام بڑھا دیئے۔ عید کو گزرے ہوئے 2 ہفتے ہوچکے ہیں مگر ٹماٹر کے سوا اور کسی شے کی قیمت کم نہیں ہوئی بلکہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کردیا گیا۔ پاکستانیوں کی غذامیں گندم کا آٹاجزو اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاجروں نے اس کی قیمت میں2روپے فی کلو کا اضافہ کردیا۔ دوسری طرف بیرونی کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی قدر گر جانے سے درآمدی اشیاء کی لاگت بڑھ گئی۔ عام صارف حیران و پریشان ہے کہ کیا کرے اور اپنی خوراک کے بجٹ کی کیسے تکمیل کرے۔نہ تو امریکہ کی طرف سے کئی سالوں میں پھیلی ہوئی اقساط میں ملنے والی رقم سے بجٹ کا خسارہ پورا ہوگا اور نہ دسمبر میں 5 اور 7 سالہ 65 کروڑ ڈالرز کے بانڈز کےاجراسے کوئی مددملے گی (بلکہ ان کے اجراء سے کئی اہم سوالات جنم لیتے ہیں،ان پرسود کی شرح کیا ہوگی، ان کو کس غرض سے استعمال کیا جائے گا، ان کا سود کہاں سے ادا ہوگا اور مدت پوری ہونے کے بعد ان کے زراصل کی رقم کہاں سے ادا کی جائے گی اور کیا اس رقم کی ادائیگی کیلئے مزید قرض لینا ہوگا؟ )
آئی ایم ایف سے جن شرائط پر حالیہ قرض لیا گیا ہے، اس میں ایک اہم شرط یہ ہے کہ ان سرکاری اداروں کو جو نقصان میں چل رہے ہیں اور جن کے نقصانات کو پورا کرنے کیلئے ہر سال خزانے سے بھاری رقوم ادا کی جاتی ہیں، ان کی فوری نجکاری کی جائے، ان میں پی آئی اے، اسٹیل ملز اور پاکستان ریلویز سرفہرست ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک وقت یہ ادارے بڑے منافع بخش تھے۔ پی آئی اے، باکمال لوگ، لاجواب پرواز کے نام سے دنیا کی ممتاز ایئرلائنوں میں شمار کی جاتی تھی، اب نوبت یہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے اس نے اپنے حصے داروں کو کوئی منافع نہیں دیا، اس کے دس روپے کے حصے کی قیمت04.3 روپے ہے۔ اسٹاک ایکسچینج نے اس کو کوٹ کرنا ترک کردیا ہے۔ ایک جہاز پر 270 افراد متعین ہیں یعنی مسافروں سے زائد ملازمین۔ سال رواں میں 30 جون تک 18.4 ارب روپے کا نقصان ہوا۔2008 تک اسٹیل ملز ایک منافع بخش ادارہ تھااور آج اس کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہ دینے کیلئے رقم موجود نہیں۔ یہی صورتحال ریلوے کی ہے۔ ایک زمانے میں لاہور کی مغلپورہ ورکشاپ کو ایشیاء کی بہترین ورکشاپ سمجھا جاتا تھا۔ حکومت ان کو ہر سال اربوں روپے کی امداد دیکر تھک چکی ہے چنانچہ نجکاری کا ایک وسیع پروگرام بنایا گیا ہے جس میں 61 ادارے شامل ہیں۔ مالی اداروں میں نیشنل بینک آف پاکستان، فرسٹ وومین بینک، این آئی ٹی،اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزنگ، نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ، نیشنل انشورنس کمپنی، اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی، پاکستان ری ویسٹ کمپنی، ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن خاص طور پر قابل ذکر ہیں یعنی حکومت اپنا سارا مالیاتی شعبہ نجی شعبے کے حوالے کردے گی۔ 1990 کے اردگردبھی نجکاری کی گئی تھی اور بعض ادارے جیسے ایک بینک جس کا حصہ 270 روپے اور منافع 17 ارب تک پہنچ گیا ہے۔ 1990 کے عشرے میں بھی بڑے زور شور سے نجکاری پر عمل ہوا تھا، اس وقت پورے ادارے کو نجی شعبے کے سپرد کردیا گیا تھا یعنی یہ ادارے فروخت کردیئے گئے تھے، اس مرتبہ 26 فی حصص اور انتظامی امور کے ساتھ یہ ادارے نجی ملکیت میں دیئے جائیں گے۔ تعجب ہے کہ ان میں نیشنل بینک، حبیب بینک اور این آئی ٹی جیسے ادارےبھی شامل ہیں۔ چند سال پہلے اس کے دس روپے والے حصے کی قیمت 135/130 ہوا کرتی تھی اور اسٹاک ایکسچینج میں روزانہ دیگر اہم حصص کے ساتھ اس کی قیمت بھی کوٹ ہوا کرتی تھی مگر اب وہ 50 روپے کے اردگرد گھومتی رہتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ حال میں اس کے منافع میں کمی ہوئی ہے، اس کا کاروباری سرمایہ 25 ارب ہوچکا ہے، اب بھی یہ سونے کا انڈا دینے والی مرغیاں ہیں، کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ ردعمل کا یہ نیا تجربہ، سرکاری اور نجی شعبے کی کوشش ان مرغیوں کو بانجھ کردے اور سرکار اور عوام دونوں سونے کے انڈوں سے محروم ہوجائیں۔البتہ پی آئی اے، اسٹیل ملز اور ریلوے جیسے اداروں کو جلد سے جلد نجی شعبے میں منتقل کرکے عوام الناس سے بڑی مشکل سے حاصل کردہ رقوم کو ترقیاتی اور فلاحی کاموں پر صرف کرکے عوام کا معیار زندگی بڑھانے کی کوشش کرنا چاہئے یعنی ہم کو اپنے ہی پائوں پر کھڑا ہونا پڑے گا اور بعض ناگوار فیصلے کرناہوں گے۔
تازہ ترین