• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دَورِحاضر میں دِل کی بیماریوں کی اہم وجہ طرزِ زندگی میں تبدیلی ہے کہ آج ہمارا رہن سہن اور کھانے پینے کے انداز یک سر تبدیل ہوچُکےہیں۔ پہلے گھر کے زیادہ تر امور خود انجام دیئے جاتے تھے، لمبی لمبی مسافتیں پیدل طے کی جاتی تھیں، مرغّن غذائیں، فاسٹ فوڈز، فروزن فوڈز، کولڈ ڈرنکس وغیرہ کا استعمال بہت کم تھا، مگر اب صُورتِ حال یہ ہے کہ مرغّن غذاؤں اور فاسٹ فوڈز کے بےتحاشا استعمال سے نہ صرف نوجوان طبقہ، بلکہ ہر عُمر کے مَرد و خواتین اور بچّے بھی ذیابطیس، موٹاپے اور بُلند فشارِ خون جیسے امراض میں عام مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔

نیز، ورزش کی عادت عام نہ ہونے کی وجہ سے بھی دِل کی بیماریوںمیں اضافہ ہورہاہے۔مشاہدے میں ہے کہ آج کل امراضِ قلب کے اسپتالوں میں علاج کے لیے آنے والے 30فی صد مریض40سال سے کم عُمر ہیں، کیوں کہ نوجوانوں میںآرام طلبی کا رجحان اورکھانے پینے کی بعض عادات ایسی ہیں، جوانہیں مسلسل ذہنی تناؤ میں مبتلا کررہی ہیں۔ اور شعور کی کمی کے باعث وہ اس ذہنی تناؤ کم کرنے کے لیے تمباکو نوشی یا منشیات وغیرہ کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں، جو بعد ازاں دِل کی صحت کے لیے سنگین مسائل کا باعث بنتی ہیں۔امراضِ قلب کو دُنیا بَھر میں اموات کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا گیاہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ ساڑھے تین لاکھ افراد دِل کی بیماریوں کے باعث انتقال کرجاتے ہیں،لہٰذا ضروری ہے کہ عوام الناس تک دِل کی بیماریوں سے متعلق معلومات عام کی جائیں۔

دِل کی دھڑکن کو زندگی تصوّر کیا جاتا ہے،مگرعدم آگہی کے سبب عارضۂ قلب کی ابتدائی علامات معمولی سمجھ کر نظر انداز کردی جاتی ہیں، جب کہ بروقت تشخیص کی صُورت میں دِل کو مزید متاثر ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ یاد رکھیے، شدید تھکن، چہرے اور پائوں پر سوجن، چکر آنا، گھبراہٹ محسوس ہونا، کھانے کے بعد سینے میں بھاری پَن ، کھانسی، بار بار شدید سَر درد، دِل کی تیز دھڑکن یا بے ترتیب دھڑکن اوربُلند فشارِخون امراضِ قلب کی علامات ہوسکتی ہیں ۔ 

ہمارےدِل کی دھڑکن جسم کو خون کی نالیوں کے ذریعے آکسیجن اور توانائی مہیا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، لیکن کولیسٹرول کی صُورت چربی کی زیادتی اور تمباکو نوشی دِل کو خون فراہم کرنے والی شریانوں کو خطرناک حد تک تنگ کردیتی ہیں، جس کے نتیجے میں دِل کے پٹّھوں کو خون، آکسیجن اور توانائی کی ترسیل کم ہو جاتی ہے۔ آکسیجن کی ترسیل میں کمی ،جب دِل کے پٹّھوں کی ضروریات کے لیے ناکافی ثابت ہو، تو دِل اور سینے میں شدید درد اور گھٹن کا احساس ہوتا ہے، جسے طبّی اصطلاح میں ’’ہارٹ اٹیک‘‘یعنی دِل کا دورہ کہا جاتا ہے۔

علامات کے بغیر عارضۂ قلب یا عضلات قلب کی بےقاعدگی اور بے ہنگم انقباض (Systole)، جس سے مُراد قلب یا شریانوں کا سکڑنا ہے(انقباض وہ دورانیہ ہے، جس میں دِل سکڑتا ہے اور اپنے اندر موجود خون کو جسم اور پھیپھڑوں کی طرف دھکیلتا ہے)، دِل دھڑکنے کی رفتار میں تبدیلی کا سب سے عام مسئلہ گردانا جاتاہے، جس کے نتیجے میں دھڑکن کی رفتار خاصی بڑھ جاتی ہے۔مریض کو لگتا ہے، جیسے دِل تیزی سے دوڑرہا ہو۔اس کے ساتھ ہی سینے میں درد اور کم زوری وغیرہ بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اگران علامات پر بروقت توجّہ نہ دیں، تو وقت گزرنے کے ساتھ دِل کم زور ہوجاتا ہے اور خون کے لوتھڑے بننے لگتے ہیں، جو ہارٹ اٹیک یا فالج کے امکانات بڑھا دیتے ہیں۔ 

عام طور پر صحت مند دِل کی دھڑکن ایک منٹ کے دوران 50سے100کے درمیان ہوتی ہے، مگر عضلاتِ قلب کی بے قاعدگی اوربے ہنگم انقباض کے شکار افراد میں یہ تعداد 450 تک بھی ہوسکتی ہے اور یہ کیفیت عموماً تناؤ ، تھکاوٹ کی صُورت یا تمباکو، کیفین اور الکحل کے استعمال سے بھی ہوسکتی ہے۔ اگر کسی فرد کواچانک سینے میں درد ، دَم گُھٹتا ہوا، گھبراہٹ اور بےچینی محسوس ہو، گردن کے دونوں جانب اور بائیں ہاتھ میں بھی درد، معمول سے زائد پسینہ آنے لگے، تو فوراً ایک گولی اینجی سیڈ زبان کے نیچے رکھی جائے اور ساتھ ہی ڈسپرین کی ایک گولی چباکر کھالی جائے اور پھر جس قدر جلد ممکن ہوسکے، مریض کو امراضِ قلب کے اسپتال لے جائیں۔ نیز، متاثرہ شخص کو چاہیے کہ علامات ظاہر ہونے کی صُورت میں زور زور سے خُوب کھانستا رہے، جب تک کہ آرام نہ آجائے یا طبّی امداد نہ مل جائے۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک عشرے سے پاکستان میں خاص طور پر کراچی میں امراضِ قلب کے مریضوں کی تعداد میں خاصا اضافہ دیکھا جا رہا ہے، لہٰذا فوری طور پر طرزِ زندگی میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے، جس کے لیے مرغّن غذائوں سے پرہیز کے ساتھ روزانہ 30منٹ کی ورزش معمول کا حصّہ بنالی جائے۔ فاسٹ، فروزن فوڈز، تمباکو نوشی، عام گھی میں تلی ہوئی اشیاء اور بیکری آئٹمز سے اجتناب برتا جائے۔ متوازن غذا، موسمی سبزیاں اورپھل زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ گھریلو امور خود انجام دیں، متحرک زندگی بسر کریں۔مثلاً لفٹ کی بجائے سیڑھیاں استعمال کریں اور کم مسافت کے لیے پیدل چلنے کو ترجیح دیں۔ (مضمون نگار، قومی ادارہ برائے امراضِ قلب،کراچی میں پروفیسر آف کارڈیالوجی/ انٹروینشنل کارڈیالوجسٹ خدمات انجام دے رہے ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید