• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’اسلام دہشت گردی کی ہرگز اجازت نہیں دیتا لہٰذا اسلام کو دہشت گردی سے نہ جوڑا جائے‘‘۔ یہ الفاظ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز کے ہیں جو انہوں نے خطبہ حج دیتے ہوئے کہے۔ مفتی اعظم نے بجا فرمایا کہ اسلام کو دہشت گردی سے نہیں جوڑنا چاہئے۔ دہشت گردی کو کسی بھی قوم، مذہب خصوصاً اسلام سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ اسلام تو امن اور رواداری کا مذہب ہے۔ مسلمان مبینہ دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں ۔دہشت گردی کو کسی بھی مذہب کے ساتھ جوڑنے کا سلسلہ ختم ہو جانا چاہئے۔ دہشت گردی کو سیاسی مفادات کیلئے بھی استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ آج دنیا بھر میں دہشت گردی کے موضوع پر جابجا مذاکرے، جلسے، سیمینار اور کانفرنسیں ہو رہی ہیں۔ سب ایک ہی ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ دہشت گردی کو ختم ہونا چاہئے۔ ستم ظریفی تو یہ کہ دہشت گردی کے مرتکب بھی ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی کو ختم ہونا چاہئے لیکن کوئی اس جانب توجہ نہیں دیتا کہ دہشت گردی ہے کیا چیز؟ اس کی تعریف کیا ہے؟ آج تک کوئی اس کی تعریف نہیں کر سکا اور نہ ہی دہشت گردی کی کسی تعریف پر اتفاق ہوسکا ہے۔ ہر کوئی اپنی مرضی اور منشا کے مطابق جسے چاہے دہشت گردی کہہ دیتا ہے اور جسے چاہے امن کا نام دے دیتا ہے۔ یہی امریکہ اسّی کے دہائی میں مسلمانوں کے سوویت یونین سے لڑنے کو ’’جہاد‘‘ کہتا تھا لیکن آج وہی مسلمان اپنے ملک اور وطن کی آزادی کیلئے جدوجہد کرتے ہیں تو امریکہ کی نظر میں سب سے بڑی دہشت گردی بن جاتے ہیں۔ اگر اسرائیل فلسطینیوں کو خاک وخون میں تڑپادے تو اسے دفاع کا ’’حق‘‘ گردانا جاتا ہے لیکن حماس سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم قرار پائے۔ اگر امریکہ افغانستان اور عراق میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کو کارپٹ بمباری اور بی بائون طیاروں کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتارتا ہے تو امن کی فاختہ، اگر برطانیہ کا شہزادہ ہیری صلیبی جنگ سمجھ کر افغانستان میں مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے آئے تو عظیم ترین انسان اور بہادر شہری کا لقب پائے۔ بھارتی فوجی کشمیری مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کریں تو عالمی نظروں میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے والے قرار پائیں لیکن اگر کشمیری بھارتی تسلط سے نجات کیلئے اپنی سی جدوجہد کریں تو وہ دہشت گرد۔ اگر امریکہ صومالیہ کے مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے ایتھوپیا کی پیٹھ ٹھونکے تو امن پسندی لیکن اگر صومالیہ کے ’’اسلام پسند‘‘ احیائے اسلام کی تحریک کے لئے کوشش کریں تو دہشت گرد قرار پائیں۔ یہ تضاد اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک دہشت گردی کی کوئی متفقہ اور جامع تعریف متعین نہیں کردی جاتی۔
اقوام متحدہ میں دہشت گردی کی تعریف متعین کرنے پر بحث ہوتی رہی ہے جو اب تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی اور نہ ہی دوغلی پالیسی رکھنے کی صورت میں کبھی ہوسکتی ہے۔ جب تک ایسا نہ ہوگا تب تک انسداد دہشت گردی کے لئے کی جانے والی قومی، ملکی اور عالمی سطح پر تمام کوششیں اور اقدامات سعیٔ لاحاصل ہوں گے کیونکہ اصل بات یہی ہے کہ دہشت گرد کسے کہا جائے؟ مذہبی انتہا پسندی کا اطلاق کن پر ہو؟ دہشت گردی کی اصل تعریف کیا ہے؟ یہ سب وہ پہلو ہیں جن پر سنجیدہ غور و فکر کرنے کی ضرورت پہلے بھی رہی ہے اور اب اس سے زیادہ ہے۔ درحقیقت حق خودارادیت کی جدوجہد اور مبینہ دہشت گردی کی تعریف کے متعین کرنے اور اس کے لئے بنیادی اصول بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ سامراجی اور جارحیت پسند طاقتیں ہیں ۔اس سے چھٹکارے کے لئے دنیا کے مختلف خطوں میں تحریکیں چل رہی ہیں۔ آزادی کی اس جدوجہد کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور حریت پسندوں کو دہشت گرد باور کرایا جاتا ہے جبکہ کئی ممالک آزادی اور حق خودارادیت کی جدوجہد کوجائز قرار دیتے ہوئے ان کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر حق خودارادیت کی جدوجہد اور دہشت گردی میں فرق تسلیم کرلیا جاتا ہے تو یہ بات لازمی ٹھہرے گی کہ یہ سامراجی طاقتیں مقبوضہ علاقے واپس کریں۔ اس لئے وہ اس بحث کو نمٹانے پر کبھی سنجیدگی سے تیار نہیں ہوتیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تاحال کوئی جامع مانع اور متفقہ تعریف متعین نہیں ہو سکی۔ ہم سمجھتے ہیں اگر کبھی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دہشت گردی کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی تو امریکہ ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہوگا۔ المیہ در المیہ یہ ہے کہ 9/11 کے بعد تشدد اور دہشت گردی کے ہر واقعے کو اسلام اور مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا بڑے زور شور سے پروپیگنڈہ کرتا ہیں اسلام دہشت گردی اور انتہا پسندی کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلامی ممالک دہشت گردی کی آماجگاہ ہیں۔ اسلامی ادارے اور مراکز تشدد کے اڈے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں اگر یہ بات یورپ اور مغربی ممالک کے پس منظر میں کہی جاتی تو صحیح ہوتی کیونکہ ان کی پوری تاریخ تشدد، انتہا پسندی اور دہشت گردی پر ہے۔ مغربی میڈیا ہمیشہ صرف مسلمانوں کی طرف منسوب واقعات کو پیش کرتا ہے اور مغرب کے کرتوتوں پر دبیز پردے ڈال دیتا ہے جس سے دنیا کی نظروں سے تصویر کا دوسرا رُخ پوشیدہ رہتا ہے۔ دنیا کو تہذیب حاضر کا روشن چہرہ تو دکھائی دیتا ہے لیکن امریکہ کا وہ چہرہ جو خونِ مسلم سے تر ہے، نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں دہشت گردی اور تشدد کا نیٹ ورک جتنا مستحکم، فعال اور مضبوط ہے وہ کسی اور ملک میں نہیں۔ اگر عصبیت سے بالاتر ہوکر منصفانہ ذہن سے پوری دنیا میں تشدد اور دہشت گردی کا جائزہ لیا جائے تو امریکہ اور اسرائیل سرفہرست نظر آئیں گے۔ کئی دہشت گرد گروپ امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے کی زیرنگرانی مسلم ممالک میں قتل عام کررہے ہیں۔ افسوس! آج یورپ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کو خونیں تاریخ کی شکل میں پیش کررہا ہے جبکہ خود اس کی اپنی تاریخ قتل وغارت گری، خون خرابہ اور بے گناہ معصوم جانوں کو تہ تیغ کرنے سے لبریز ہے۔ یورپ کی خانہ جنگیاں خصوصاً فرانس اور برطانیہ کی پچاس سالہ جنگیں اس کی بین دلیل ہیں۔ ایشیا اور افریقہ کے براعظموں میں نصرانیت کے فروغ وتبلیغ کی خاطر وحشیانہ کارروائیاں کی گئیں جن میں لاکھوں انسان قتل کر دیئے گئے۔ امریکہ کے اصلی باشندوں ریڈ انڈین کو قتل کرکے جن کی مجموعی تعداد 112ملین ہے، سفید فاموں نے قبضہ کرلیا اور افریقہ کے کروڑوں سیاہ فاموں کو لاکر غلام بنایا۔ اسپینیوں کے چالیس سالہ دور ظلم و جارحیت میں 12ملین انسان موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ اسی طرح عیسائیوں نے اپنے مذہب کی تبلیغ واشاعت کی خاطر کس قدر مظالم ڈھائے۔ خون کی ہولیاں کھیلیں۔ تاریخ ان کے مظالم سے بھری پڑی ہے جبکہ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ عدل وانصاف، عفو ودرگزر، امن وامان اور انسانیت کے احترام سے مزین ہے۔
تازہ ترین