• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے وجود میں بیٹھا ہوا بچہ بضد ہے کہ میں ڈروں مت، جو کچھ میں سوچ رہا ہوں، لکھ ڈالوں۔ مگر یہ ہو نہیں سکتا۔انیس سو سینتالیس سے آج تک ہر حکومت ہمیں یقین دلاتی رہی ہے کہ ملک میں اظہار کی مکمل آزادی ہے۔ آپ جو سوچتے ہیں، اُس سوچ کو آپ کاغذ پر اُتار سکتے ہیں۔ کاغذ پر اتاری ہوئی سوچ کو آپ شائع کروا سکتے ہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ اس بات کی گارنٹی آپ کو پاکستان کے آئین نے دی ہے۔ اظہار کی آزادی آپ کا آئینی حق ہے۔آئین کوئی آدمی تو ہے نہیں کہ جس سے استفسار کیا جائے۔ بحث کی جائے۔ جس سے منطقی طریقے سے گفتگو کی جائے۔ اگر آپ اظہار کی آزادی کو آزمانا چاہتے ہیں تو پھر ایک باوصف کردار کے بارے میں افسانہ لکھ کر دیکھیں جو ملک اور معاشرے میں دہرا معیار دیکھ کر اپنے وجود میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کا عقیدہ ڈانواں ڈول ہو جاتا ہے۔ ایسے دوغلے، مکار اور فریبی معاشرے میں ذلت کی زندگی گزارنے پر موت کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ خودکشی کرنے کا طریقہ تلاش کرنے لگتا ہے۔ اس افسانے کی لپیٹ میں سیاستدان، مولوی صاحبان اور طاقتور اداروں کے افراد آجاتے ہیں۔ آپ کو اظہار کی آزادی کا پتہ چل جائے گا۔ تخلیقی ادب تحریر کرنے والے افسانہ یا ناول لکھتے ہوئے دو کیفیتوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ وہ بذات خود اپنے کردار میں سرایت کر جاتے ہیں، یا پھر ناول یا افسانے کا کردار ان پر حاوی ہو جاتا ہے۔ اپنے کردار کی ٹوٹ پھوٹ وہ اپنے وجود میں محسوس کرتے ہیں۔ کردار کی بغاوت اور پامالی کی بازگشت ارض و سما میں سنائی دیتی ہے۔ معاشرے میں بھونچال آ جاتا ہے۔ معاشرے کو نیکو کار رکھنے والے حیلے باز اور فاسد ایسی تحریروں کو تعزیرات کی پکڑ میں لے آتے ہیں۔ افسانہ لکھنے والے کو اظہار کی آزادی کا مزا چکھا دیتے ہیں۔شعور اور لاشعور کے درمیان بھٹکنے والے کرداروں کے بارے میں آپ افسانہ نہیں لکھ سکتے۔ مصیبتیں بغیر دستک دیئے آپ کے گھر میں گھس آتی ہیں۔ مثلاً شعور اور لاشعور کے درمیان بھٹکنے والے ایک کردار نے اچانک محسوس کیا کہ جب وہ ڈھائی تین برس کا تھا تب کھلونے اپنی مرضی کے، اپنی پسند کے لیتا تھا۔ نیکر، قمیض، جوتے اپنی مرضی کے پہنتا تھا۔ ماں باپ کا لاڈلا تھا۔ کوئی اس کو من مانی سے روکتا ٹوکتا نہیں تھا۔ تب ایک آگاہی نے اس کو اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس نے محسوس کیا کہ جب وہ لاغر تھا، بے بس تھا، نوزائیدہ تھا تب ماں باپ نے اپنی مرضی کا نام اسے دے دیا تھا۔ اسی شبھ گھڑی میں والدین نے رسم و رواج کے مطابق اسے اپنے آبائی عقیدہ سے وابستہ کر دیا تھا۔ وہ اپنے والدین کے دیئے ہوئے نام اور اُن کے عقیدے کے مطابق بڑا ہوا تھا۔ یہ دونوں کام اس کی مرضی ،اس کی منشا کے مطابق نہیں ہوئے تھے۔ یہ دونوں کام شعور آنے سے پہلے اس کیساتھ ہوچکے تھے۔ تب وہ اچانک اپنی سوچ سے لرز اٹھا۔ اس نے سوچا میں نوزائیدہ اگر کچرے کے ڈھیر پر پڑا ہوااناتھ آشرم والوں کو ملتا، تو آج میں ہندو ہوتا۔ اگر یتیم خانہ والوں کو ملتا تو آج میں مسلمان ہوتا۔ اگر میں کرسچن اورفینج Orphanage والوں کو مل جاتاتو آج میں کرسچن یعنی عیسائی ہوتا۔ لاشعور سے شعور تک آتے ہوئے وہ شخص اپنے ساتھ، اس نوعیت کے بے شمار سوالات لے آیا۔ اسے یقین تھا کہ لاکھوں برس پر پھیلی ہوئی انسانی تاریخ میں آج تک کسی ایک ایسے بچے نے جنم نہیں لیا کہ جس کے ماتھے پر اس کے عقیدے کا نام لکھا ہو۔ عقیدے ہمیں اس دنیا میں آنے کے بعد ملتے ہیں۔ ہمارے مر جانے کے بعد ہمارے احباب جو بھی رسومات بروئے کار لاتے ہیں، وہ دراصل ہمارے جسد خاکی کے لئے ہوتی ہیں۔ ہم مر جانے کے بعد جسد خاکی چھوڑ جاتے ہیں۔اس دنیا میں ہمارا جسد خاکی ہماری عارضی آماجگاہ ہوتا ہے۔ ہمارا جسم ہماری کٹیا ہوتی ہے۔ ایک نہ ایک روز کٹیا کو چھوڑ کر ہم چلے جاتے ہیں۔ ہمارے مر جانے کے بعد ہمارا جسد خاکی تمام رسومات سے بے خبر رہتا ہے۔ رسومات کے مطابق، ہمارے جسد خاکی کو دفن کر دیا جاتا ہے۔ دوسرے عقیدےکی رسومات کے مطابق ہمارے جسد خاکی کو چتا میں جلا کر خاک کر دیتے ہیں۔ تیسرے کسی عقیدہ کی رسومات کے مطابق ہمارے جسد خاکی کو Tower of Silence یعنی خاموشی کے اونچے مینار پر رکھ دیا جاتا ہے تاکہ ہمارا جسم گدھ، چیلوں اور کوئوں کو کھانے کے لئے ملے۔ دنیا میں بیشمار عقائد ہیں۔ بے شمار عقائد کی بیشمار رسومات ہیں۔ مجھے بڑا عجیب لگتا ہے جب میں کسی کو یہ کہتے ہوئے سنتا ہوں کہ : سامنے والی قبر میں میرے والد دفن ہیں یا، سامنے والی قبر میرے والد کی آخری آرام گاہ ہے۔ آپ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ قبر میں آپ کے والد صاحب نہیں، بلکہ آپ کے والد صاحب کا جسد خاکی دفن ہے۔ اور دوسرے یہ کہ قبر جسد خاکی کی آخری آرام گاہ نہیں ہوتی، جسد خاکی آخر کار فنا ہو جاتا ہے۔ آپ لاشعور اور شعور کے درمیاں بھٹکنے اور سوچنے والے شخص کی کہانی نہیں لکھ سکتے۔ کوئی بھی پبلشر آپ کی ایک کہانی کے لئے اپنا کاروبار دائو پر نہیں لگا سکتا۔ بہتر ہے کہ آپ ساس بہو کے افسانے لکھیں۔

آپ ایک صوفی کے بارے میں افسانہ یا ناول نہیں لکھ سکتے جو اکثر اوقات، جہاں اس کا جی چاہے اللّٰہ سائیں سے باتیں کرنے بیٹھ جاتا تھا۔ اللّٰہ سائیں سے شکوے شکایتیں کرتا رہتا تھا۔ اللّٰہ سائیں کو لطیفے سنا کر ہنستے ہنستے دہرا ہو جاتا تھا۔ کبھی اللّٰہ سائیں سے روٹھ جاتا تھا اور کئی دنوں تک اللّٰہ سائیں سے رجوع نہیں کرتا تھا۔ عقیدوں کے ٹھیکیدار آپ کو زندہ نہیں رہنے دیں گے۔

تازہ ترین