• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ایردوان اس وقت واحد عالمی رہنما ہیں جن پر دنیا کی نگاہیں مرکوز ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ اور روس پر عالمی سطح پر لگائی جانے والی پابندیاں ہیں لیکن ایردوان ایک ایسے رہنما کے طور پر ابھر ے ہیں جن کے روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے بڑے گہرے اور دوستانہ مراسم ہیں۔ مغربی ممالک جو روس پر پابندیاں لگانے کے بعد خود انرجی اور اناج کے بحران سے دوچار ہیں ا س بحران سے نکلنےکی اپنے تئیں کوششیں کرچکے ہیں لیکن تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں جبکہ صدر ایردوان نے مغربی ممالک ہی کی درخواست پر اپنے مضبوط مراسم استعمال کرتے ہوئے روس کو یوکرین کے اناج کو ترکی کے راستے بیرونی منڈیوں تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے ، ترکیہ کے اس اقدام سے ایک طرف دنیا نے اور خاص طور پر افریقی ممالک نے سکھ کا سانس لیا تو دوسری طرف ترکیہ نے اس صورتِ حال کو اپنی اقتصادی بہتری کیلئےاستعمال کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔

انہوں نے اس سے قبل روس سےقریبی تعلقات ہونے کے باوجود بڑی تعداد میں اپنے مسلح ڈرونز یوکرین کو فروخت کرکے نہ صرف یوکرین کےعوام کے دل جیت لئے بلکہ مغربی ممالک نے بھی ایردوان کے اس اقدام کی حمایت کی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکیہ کے اس اقدام کے باوجود روس ترکیہ سے اپنے گہرے تعلقات کو جاری رکھے ہوئے ہے اور اپنے اناج اور گیس کو اب ترکیہ کے راستے عالمی منڈیوں تک پہنچانےکیلئے ایردوان کی ثالثی کامنتظر ہے کیونکہ اس کے خیال میں ایردوان سے بہتر کوئی بھی رہنما ثالثی کا کردار ادا نہیں کرسکتا ۔ ایردوان کی کامیاب حکمتِ عملی نے نہ صر ف لیبیا ، مصر، عرب ممالک بلکہ روس اور فرانس کوبھی اس قضیے سے اس طریقے سے نکال باہر کیا جیسے مکھن میں سے بال نکالا جاتا ہے اوریوں لیبیا کے عوام کو اپنا گرویدہ بنالیا اور اب طویل عرصے بعد شام نے ترکیہ سے اپنے تعلقات کونئے سرے سے استوار کرنے کے لیے(روس کی کوششوں سے ) ترک حکام سے رابطہ قائم کئے ہیں ،دونوں ممالک کی خفیہ سروس کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہےاور جلد ہی ان مذاکرات کے مثبت نتائج کی توقع کی جا رہی ہے۔

ترکیہ نیٹو کا واحد ملک ہے جس نے روس سےبڑے قریبی تعلقات قائم کررکھے ہیں ، نیٹو کے رکن ممالک اس وجہ سے ترکیہ کو اکثر و بیشتر ہدفِ تنقید بھی بناتے رہے ہیں بلکہ امریکہ نے تو روس کی جانب سے فراہم کئے جانے والے ایس -400 میزائلوں کی فروخت کے بعد ترکیہ کو نہ صرف ایف-16طیاروں کی فروخت کو روک دیا بلکہ مشترکہ طور پر تیار کئے جانے والے ایف-35 طیاروں کے پروجیکٹ سے بھی اسے یک طرفہ طور پر نکال باہر کیا لیکن روس- یوکرین جنگ کے بعد امریکہ نے مجبور ہو کر ترکیہ پر ایف 16طیاروں کی فروخت سے متعلق مذاکرات شروع کرنے کی ہامی بھرلی جو ترکیہ کیلئے ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اگرچہ یونان اور متعدد یورپی ممالک ترکیہ کو نیٹو سےخارج کروانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن اس اتحاد کابانی امریکہ اچھی طرح جانتا ہے نیٹو ترکیہ کے بغیر ایک ’’نمائشی اتحاد‘‘ ہے اسلئے امریکہ کبھی ترکیہ کو نیٹو سے خارج کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ ترکیہ اگرچہ شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن نہیں لیکن ازبکستان نے چین اور روس کی خواہش پر ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان کو خصوصی طور پر اس سربراہی اجلاس میں مدعو کرتے ہوئے اس ملک کی اہمیت کو تسلیم کرلیا جبکہ اس کانفرنس میں نیٹو کے کسی دیگر ملک کو مدعو نہیں کیا گیا۔ ترکیہ نے اس کانفرنس میں شرکت کرنے کے بعد تنظیم کی رکنیت حاصل کرنےکیلئے بھی غور کرنا شروع کردیا ہے ۔ جدید جمہوری دنیا میں کئی ایک ممالک کے رہنما ایسے بھی ہیں جو اگرچہ طویل عرصے سے برسر اقتدار ہیں لیکن بد قسمتی سے ان تمام ممالک میں سے کسی ایک میں بھی مغربی معیار کے جمہوری نظام پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا ، اس لئے ان ممالک کے رہنماؤں کا صدر ایردوان سے تقابلی جائزہ ممکن نہیں یعنی چین کا نظام اور روس کا نظام ترکیہ سے کافی حد تک مختلف ہے جبکہ مغرب میں ایسا کوئی رہنما موجود نہیں جسے صدر ایردوان کی طرح طویل عرصے سے عوام کی حمایت حاصل ہو۔ مغرب میں جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل اگرچہ طویل عرصے تک عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں لیکن وہ بھی عوامی حمایت اور کامیابی کی شرح کے لحاظ سے صدر ایردوان کی مقبولیت اور کامیابیوں کے معیار سے بہت پیچھے رہیں ۔

صدر ایردوان واحد عالمی رہنما ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ میں پانچ عالمی قوتوں ،جنہوں نے ویٹو پاور حاصل کررکھی ہے ،کے خلاف علمِ بغاوت بلند کررکھا ہے اور وہ جنرل اسمبلی میں خطاب اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر واشگاف الفاظ میں’’ دنیاپانچ سے عظیم تر ہے‘‘ کا صرف نعرہ ہی نہیں لگا رہے بلکہ اس کیلئے انہوں نے باقاعدہ مہم بھی شروع کررکھی ہے۔ صدر ایردوان طویل عرصےتک ترکیہ میں برسراقتدار رہنے والےاور جمہوریہ کے بانی غازی مصطفیٰ کمال کو اپنے پیچھے چھوڑنے والے پہلے رہنما بن گئے ہیں۔ غازی مصطفیٰ کمال 5492 دن برسر اقتدار رہے تھے جبکہ ایردوان 9مارچ 2003سےمسلسل اقتدار میں ہیں۔طویل عرصے اقتدار میں رہنے والی شخصیت کا عموماًیہ المیہ ہوتا ہے کہ عوام اس سےاُکتا جاتے ہیں لیکن صدر ایردوان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ اب تک عوام میں مقبول ہیں اور یہ مقبولیت کب تک برقرار رہتی ہے ؟ یہ 2023 ءکے صدارتی انتخابات ہی بتاسکیں گے۔

پاکستانیوں کے نقطہ نظر سے بھی ایردوان بڑے کامیاب لیڈر تصور کئے جاتے ہیں کہ انہوں نے جس جرات مندانہ طریقے سے عالمی پلیٹ فارمز پر مسئلہ کشمیر کی حمایت کی اور پاکستان میں ماضی میں اور موجود دور میں قدرتی آفات میں مدد کی ہے اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔

تازہ ترین