• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی (تجزیہ،مظہرعباس)تیزی سے بدلتی سیاسی پیش رفت کے تناظر میں وزیر اعظم شہباز شریف، سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ممکنہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں تیزی سے بڑھتے ہوئے سیاسی واقعات کے حوالے سے کچھ اہم فیصلے کیے ہیں،سابق وزیر اعظم عمران خان اسلام آبادکیلئےلانگ مارچ کی کال کوایک بارپھرموخرکردیاہے اورمبینہ امریکی سائفرکی عدالتی تحقیقات کی شرط پرقومی اسمبلی میں ممکنہ واپسی کااشارہ دیاہے۔

ایسا لگتا ہے کہ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو محترم ڈار کا کردار وزیر خزانہ سے زیادہ ہو گا اور وہ ʼنائب وزیر اعظم کی طرح کام کر سکتے ہیںلیکن پاکستان واپس آنے کے بعدتنقیدکےشکار وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جگہ لینے سے پہلےانہیں خود کو عدالت سے کلیئر کرنا پڑے گا، سینیٹ میں واپس جانا پڑے گا۔ جو اگرچہ حکومت کی فنانس ٹیم میں شامل رہیں گے لیکن غالباً کچھ عرصے بعد چھٹی پر چلے جائیں گے۔

وزیر اعظم شہباز شریف ممکنہ طور پر پیچھے ہٹ جائیں گے اور اگر اسحاق ڈار بالآخر واپس آجاتے ہیں اور خود کو کلیئر کر الیتے ہیں تو وہ نواز شریف کے اہم مشیر کے طور پر بھی سیاسی کردار ادا کریں گے۔

ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ڈار کی واپسی نواز شریف کی ممکنہ واپسی کی جانب پہلا قدم ہے،جو سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے دوران ʼمیڈیکل گراؤنڈپر جانے کی اجازت ملنے کے بعد سے گزشتہ 3 سال سے لندن میں ہیں۔

اس فیصلےپرانہیں آج تک پچھتاواہے،اس کا یہ بھی مطلب ہےکہ اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت والی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم)،پی ٹی آئی اور ق لیگ کےحمایتی وزیراعلیٰ پرویزالہٰی کوہٹانےمیں کامیاب ہوجاتی ہےتوشہبازشریف کےبیٹےحمزہ شہبازاسکےوزیراعلیٰ کےامیدوارنہیں ہوں گے

 ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم شہبازشریف اور سابق وزیر اعظم نے ʼاہم تقرری پر ون آن ون ملاقات کی جس کا مقررہ وقت پر اعلان کیا جائے گا۔ دونوں نے اپنے حریف سابق وزیراعظم عمران خان اور طاقتورحلقوں کے درمیان بیک ڈور رابطوں کے بارے میں رپورٹس پر بھی تبادلہ خیال کیا اور پیش رفت پرغورکیا،دوسری طرف اہم اپوزیشن لیڈر عمران خان نے اس پیش رفت پران ذمہ داروں کوجنہیں وہ شریفوں اورزرداریوں کواین آراودینےوالاقراردیتےہیں کوشدیدتنقیدکانشانہ بنایالیکن حیرت انگیز طورپراسلام آبادلانگ مارچ کےمنتظرفیصلےکوموخرکردیاہے،اس سےپہلے خان نے رواں ہفتے کے اوائل میں موجودہ حکومت کو ہٹانے کے لیے ہفتہ سے تحریک آزادی مارچ کا اعلان کیا تھا۔

لیکن گوجرانوالہ کی طرح رحیم یار خان میں بھی انہوں نے اس کال کو روک دیا اور اطلاعات ہیں کہ انہوں نے مارچ کی کال کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی ہے اور جلسوں سے خطاب جاری رکھیں گےجبکہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اس اقدام کو محاذ آرائی سے بچنے کے لیے اپنے رہنما کی جانب سے آخری کوشش قرار دیاہے اورمقتدرحلقوں کو ایک پیغام دیاہےکہ عمران خان کےمخالفین اسےانکاایک اوریوٹرن کہیں گےجبکہ کسی تصادم کی صورت میںان کیلئےجیت کی صورتحال نہیں ہوگی

عمران خان کی مشروط واپسی کا اقدام چنددنوں بعدآیاہےجب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے ایم این ایز کے استعفوں کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بہتر ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں واپس چلے جائیں اوراپنا تعمیری کردار ادا کریں۔

پی ٹی آئی رہنمائوں کاخیال ہےکہ امریکی سائفرکےحوالے سےحکومت کی جانب سےکسی بھی تحقیقات کوقبول نہیں کریں گےلیکن اگرچیف جسٹس آف پاکستان کوئی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیتےہیںتو وہ اس کی رپورٹ کو تسلیم کریں گے اور ساتھ ہی یہ اشارہ بھی دیا کہ اگر چیف جسٹس کمیشن تشکیل دیتے ہیں تو وہ قومی اسمبلی میں بھی واپس آ سکتے ہیں۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت والی مخلوط حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان’ ’طاقت کی رسہ کشی‘‘ شروع ہو گئی ہے، جس میں آنے والے دنوں اور ہفتوں میںسیاسی درجہ حرارت بڑھنےسے شدت آنے کا امکان ہے۔

اہم خبریں سے مزید