• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خان کی ذو معنی باتیں بڑے بڑوں کے دل چیر دیتی ہیں۔ اپنے مخالفین پر ایسے فقرے کستے ہیں کہ سوچنے والا مجبور ہو جائے کہ ان کا نشانہ اگلے ہیں یا پچھلے لیکن اتنی گنجائش ضرور رکھتے ہیں کہ فوادچوہدری ان کے خطابات میں ذو معنی القابات ، اشاروں، کنایوں پر فوراً وضاحتی ٹویٹ کرسکیں۔ اب آپ خان کے لاہور میں وکلاءکنونشن سے خطاب کے دوران کہے گئے ان الفاظ ”شیروں کا کمانڈر گیدڑ ہو تو شیر بھی ہار جاتا ہے اور اگر گیدڑوں کی فوج کا لیڈر شیر ہو تو وہ جیت جاتے ہیں۔“ اسی طرح جی سی یونیورسٹی کے طلباسے خطاب کے دوران سوال پوچھتے ہیں کہ امریکی سائفر کے پیچھے کون تھا؟ تو جواب میں ایک آواز گونجتی ہے، نیوٹرل ، نیوٹرل، نیوٹرل اور پھر طلباءکو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ آپ پہلے امتحان میں پاس ہوگئے۔ گویا کہ پپو پاس ہوگیا۔ آپ خود ہی تجزیہ اور فیصلہ کرلیں کہ براہ راست یہ کس کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ صبر کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے کہ کم از کم اپنے محسنوں کا ہی کچھ خیال کرلیں یا پھر حضرت علیؓ کے اس قول پر ہی یقین کرلیں کہ ”جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔“ اگر خان ہی کے الفاظ میں جواب دیا جائے تو صاف نظر آرہا ہے کہ بڑے گھر سے کورا جواب مل چکا ہے اورمچھلی بغیر پانی کے تڑپ رہی ہے۔ پوری قوم کو گزشتہ پانچ ماہ سے جس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے آپ دیکھیں گے یہ بتی آہستہ آہستہ مدہم پڑتی جائے گی۔ پھر ایک وقت وہ بھی آئے گا کہ آپ سوچیں گے ، ہم نے احتجاجوں، دھرنوں، لانگ مارچوں میں کیا کھویا کیا پایا؟ ابھی تو خان اعظم قدم بہ قدم پیچھے ہٹتے جارہے ہیں۔ امریکی سازش کا تڑکہ باسی دال ثابت ہوا۔ ہر جلسے میں اپنے مداحوں کو یہ کہہ کر بلاتے ہیں کہ کل اہم اعلان کروں گا۔ لاہور میں ہفتے کو حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ رحیم یار خان میں کہنے لگے تیار رہو، بہت جلد تحریک چلاؤں گا۔ کرک پہنچے تویہی کہہ کر چلے آئے جبکہ انہی جلسوں کے درمیانی وقفے میں فرماتے ہیں کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کب اور کیسے تعلقات خراب ہوگئے۔ جلسوں میں فوری انتخابات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ درونِ خانہ

ملاقاتوں میں کہتے ہیں کہ میں اسمبلی میں واپس جانے کوتیار ہوں لیکن ذرا امریکی سازش کی تحقیقات کا ٹچ ہو جائے تو.... باکمال لوگ لاجواب سروس۔ مذہبی ٹچ ہو یا امریکی ٹچ، ٹچ می ناٹ وے بشیریا والی صورت حال ہے۔ بات کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے ہم آپ کو سازش کرنے کے ساتھ ساتھ سازش انجام کو کیسے پہنچتی ہے۔ آنے والے دنوں میں سب سمجھ آجائے گا۔ خیبرپختونخوا میں کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب پاک فوج کے جوانوں کو افغانستان کی حدود سے نشانہ نہ بنایا جاتا ہو۔ آپ ہی ان کے سب سے بڑے ہمدرد تھے۔ دنیا بالکل خاموش تھی آپ انہیں تسلیم کرانے پر سر دھڑ کی بازی لگا رہے تھے۔خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بچانے کی خاطرآپ نے پاکستان کو ایک نئے امتحان میں ڈال دیا۔ عالمی رائے عامہ آپ کی اس سوچ سے خوف زدہ ہونے لگی۔آج آپ کے صوبائی وزراء، اراکین اسمبلی و پارلیمنٹ اپنی جانیں بچانے اور ووٹ بینک برقرار رکھنے کی خاطر ان لوگوں کو بھتہ دینے پر مجبور ہیں۔ افغانستان میں انتظامی تبدیلی کے اثرات پاکستان کی معیشت کو بھی نگل چکے ہیں۔ آج مہنگائی کا جو بحران ہماری گردنوں کو جکڑے ہوئے ہے کبھی کسی نے سوچا ہے کہ اصل وجہ کیا ہے؟ یہ سرمایہ داروں کا ایسا گٹھ جوڑ ہے جو ہماری ہی گردنیں کاٹ کر تجارت کے نام پر (اسمگلنگ) افغانستان کو زندہ رہنے کی ہر چیز فراہم کرکے منافع کے انبار لگا رہا ہے اور ہمارے خان اعظم پہلے طالبان کے حامی اور اب دہشت گردی کے واقعات پر اظہار تشویش کررہے ہیں اور الزام موجودہ حکومت کے سر تھونپ رہے ہیں۔ پوچھنا یہ تھا کہ آخر سازش کیا ہوتی ہے؟ پہلے بگاڑ پیدا کرتے ہیں پھر کہتے ہیں مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا۔ امریکی صدر جوبائیڈن کی کال کے انتظار میں ہلکان ہو کر پاکستان کی ساکھ خراب کرنا، ایبسولیوٹلی ناٹ کہنا، ہواؤں کا رُخ بدلتے دیکھ کر امریکی سازش کا بیانیہ تیار کرنا اور اس بیانیے پر اکڑ کر کھڑے ہوجانا اور جب بات نہ بنے تو امریکیوں کے سامنے لیٹ جانا، آئی ایم ایف معاہدے کی راہ میں روڑے اٹکانا، فارن فنڈنگ کیس میں، میں نہ مانوں کی رٹ لگائے رکھنا، عوام کو قومی سلامتی کے اداروں، شخصیات کے خلاف اُکسانا اور دشنام طرازی کرنا یہ سب کچھ سازش نہیں تو کیا ہے؟ فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں کہ دنیا بھر میں پاکستان کو رسوا کرکے کیا ملا؟ ہر آنے والا لمحہ خان اعظم کی ”سازش“ کے چھپے رازوں کو بے نقاب کرتا رہے گا اور یہ راز از خود طشتِ ازبام ہونا شروع ہو جائیں گے۔

تازہ ترین