• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان آج کل امریکی سائفر اور آڈیو لیکس کے حوالے سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ گزشتہ دنوں عمران خان اور اُن کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی وائرل آڈیو لیکس نے اُن کے امریکہ مخالف بیانیے کی قلعی کھول دی ہے۔ اِن آڈیو لیکس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ عمران خان کا اپنی حکومت گرانے کی امریکی سازش کا بیانیہ جھوٹ پر مبنی تھا اور اس کا مقصد اپنی سیاست چمکانا تھا۔ وائرل آڈیو لیکس میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی گفتگو سے یہ انکشاف سامنے آیا کہ امریکی سازش اور امریکی غلامی نامنظور کا اسکرپٹ دراصل عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے لکھا تھا جس میں شاہ محمود قریشی اور اسد عمر بھی شریک تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان نے ان آڈیو لیکس کی کوئی تردید نہیں کی بلکہ ان کے افشا ہونے کا ذمہ دار شہباز شریف حکومت کو قرار دے دیا۔ یاد رہے کہ عمران خان نے 27 مارچ کو ایک جلسے سے خطاب کے دوران جیب سے ایک کاغذ نکال کر لہراتے ہوئے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد اور حکومت گرانے کی امریکی سازش کا تعلق سائفر سے جوڑا تھا۔ بعد ازاں سائفر کو بنیاد بناکر نیوٹرلز کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، امپورٹڈ حکومت کے ہیش ٹیگ بنائے گئے، میر جعفر اور میر صادق کی اصطلاح پیش کی گئی، غدار اور سازش کا بیانیہ بنایا گیا حالانکہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ شروع سےہی عمران خان کے الزامات کی سختی سے تردید کرتا رہا جبکہ حالیہ آڈیو لیکس کے بعد بھی پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے عمران خان کے الزامات کی سختی سے تردید کی۔

عمران خان کے لہرائے جانے والے سائفر جسے وہ امریکی مراسلہ کہتے ہیں، کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے منتخب ہونے کے بعد دنیا بھر کے لیڈروں سے فون پر گفتگو کی مگر انہوں نے عمران خان کو فون تک کرنا گوارا نہ کیا۔ ایسے میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید پر پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے دبائو ڈالا گیا کہ وہ امریکی صدر سے عمران خان کی بات کروائیں۔ اس سلسلے میں اسد مجید نے اپنی سفارتکاری کے آخری ایام میں 7 مارچ کو امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو سے الوداعی ملاقات کی اور شکوہ کیا کہ آپ نے صدر بائیڈن سے عمران خان کی بات نہیں کروائی جس پر ڈونلڈ لو نے واضح کیا کہ ’’عمران خان نے 2020ء کے امریکی صدارتی الیکشن میں صدر جوبائیڈن کے مخالف صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو آفیشل طور پر سپورٹ کیا اور عمران حکومت کی طرف سے امریکہ مخالف ٹوئٹس بھی آتی رہتی ہیں جبکہ انہوں نے ایبسلوٹلی ناٹ جیسی کہانی بھی گھڑی، ایسے میں وہ جوبائیڈن سے عمران خان کی کس طرح بات کرواسکتے ہیں البتہ پاکستان میں نیا وزیراعظم آنے کی صورت میں وہ صدر جوبائیڈن کی پاکستانی وزیراعظم سے بات کرواسکتے ہیں۔‘‘ یہ گفتگو اسد مجید نے ایک سائفر کے ذریعے پاکستانی وزارت خارجہ کو اسلام آباد بھیجی اور اپنے ریمارکس میں تحریر کیا کہ ’’امریکی انتظامیہ ہم سے ناخوش ہے، ہمیں اپنی سفارتکاری پر توجہ دینا ہوگی۔‘‘ اس مراسلے کی کاپی روایتی طور پر وزارت خارجہ، آرمی چیف اور آئی ایس آئی کو بھیجی گئی۔ 11 مارچ 2022ء کو کامرہ ایئر بیس پر جے ایف تھنڈر جنگی طیاروں کی تقریب میں آرمی چیف نے یہ مراسلہ عمران خان کو دیتے ہوئے کہا کہ ’’آپ ٹوئٹس اور اپنے بیانات میں احتیاط کیا کریں۔‘‘ عمران خان نے مراسلہ پڑھا اور مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’ایسے مراسلے معمول کی بات ہیں۔‘‘ بعد ازاں عمران خان نے مراسلہ میں ٹمپرنگ اور اپنی مرضی کے منٹس بنوائے اور مراسلہ کو بنیاد بناکر جلسے جلوسوں میں امریکی سازش کا ڈھونگ رچاتے ہوئے اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ قرار دیا۔موجودہ صورتحال میں سائفر جو اس پوری کہانی کی بنیاد ہے، کا وزیراعظم کے دفتر سے غائب ہوجانا، معاملے کو مزید سنگین بناچکا ہے۔ عمران خان نے خود یہ اعتراف کیا ہے کہ سفارتی مراسلہ اُن کے پاس تھا لیکن نہ جانے کہاں گم ہوگیا۔ اتنی اہم دستاویز کا غائب ہوجانا یقینا ًباعث تشویش ہے۔

عمران خان کی آڈیو لیکس سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ انہوں نے اپنی سیاست بچانے کیلئے ریاست کو خطرے میں ڈال دیا۔ عمران خان نے ایسا کرتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ ان کی اس مہم جوئی کے نتیجے میں پاکستان کے امریکہ سے تعلقات کشیدہ ہوسکتے ہیں، آئی ایم ایف کا پروگرام متاثر ہوسکتا ہے اور نوبت پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے تک جاسکتی ہے جبکہ امریکہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے پاکستان کے FATF وائٹ لسٹ میں جانے کی اُمید کو بھی سبوتاژ کرسکتا تھا اور پاکستان کی امریکہ کے ساتھ ایف سولہ طیاروں کی اپ گریڈیشن اور پرزوں کی فراہمی بھی خطرے میں پڑسکتی تھی۔ مزید یہ کہ سائفر لیک اور گم ہوجانے نے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں کیونکہ آئندہ کوئی غیر ملکی آفیشل ہمارے سفیروں سے کھل کر بات نہیں کرسکے گا اور پاکستانی سفیر بھی حکومت کو جو مراسلہ ارسال کریں گے، اس میں اپنے ریمارکس دینے سے گریز کریں گے جو یقیناً لمحۂ فکریہ ہے۔ عمران خان اپنی سیاست چمکانے کیلئے کچھ دیر کیلئے اپنے لوگوں میں ہیرو بن گئے کہ انہوں نے امریکہ جیسی سپر پاور کو للکارا ہے مگر اس سے ریاست کو کیا نقصان پہنچے گا، اس کی عمران خان نے کوئی پروا نہیں کی۔ سائفر پر سیاست ملک سے کھلواڑ کے مترادف ہے۔ وفاقی کابینہ کا آڈیو لیکس کے معاملے پر عمران خان اور دیگر کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کا فیصلہ ایک اہم پیشرفت ہے جس سے سفارتی مراسلہ پر گھنائونی سیاست کرنے والے کرداروں کا چہرہ بے نقاب ہوسکے گا۔

تازہ ترین