• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

PTI ارکان استعفیٰ کیس، درخواست گزار بیان حلفی دیں پارلیمنٹ بائیکاٹ کی پارٹی پالیسی نہیں مانتے، اسلام آباد ہائیکورٹ، 5 دن کی مہلت

اسلام آباد (آن لائن) چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کی سماعت کے دوران وکیل سے کہا کہ ہم آپ کو 5 دن دے دیتے ہیں، مطمئن کریں آپ پارلیمنٹ واپس جانا چاہتے ہیں، پٹیشنرز بیان حلفی دے دیں کہ پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کی پارٹی پالیسی کو نہیں مانتے، پارلیمنٹ کا بہت احترام ہے، اس کی بہت بے توقیری ہوگئی ہے، جمہوریت کا مذاق نہ بنائیں،سیاسی تنازعات حل کرنے کیلئے بہترین فورم پارلیمنٹ ہی ہے، عوامی بہترین مفاد میں یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام نہ ہو، پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال نہ کیا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے استعفوں کی منظوری سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی، پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے جبکہ پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان، شاندانہ گلزار سمیت دیگر اراکین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو پارلیمنٹ کا احترام ہے، اس سے قبل بھی ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی، کیا یہ سیاسی جماعت کی پالیسی ہے؟ ابھی تک باقیوں کے استعفی ہی منظور نہیں ہوئے، عوام نے اعتماد کر کے نمائندوں کو پارلیمنٹ بھجوایا ہے۔ یہ عدالت اسپیکر قومی اسمبلی کو ہدایات جاری نہیں کرسکتی، عدالت نے شکور شاد کیس میں بھی صرف نظرثانی کا کہا ہے، یہ سیاسی تنازعات ہیں، سیاسی جھگڑے دور کرنے کی جگہ پارلیمنٹ ہے، آپ کو دیگر ان مسائل کے حل کے لئے سیاسی جماعتوں سے ڈائیلاگ کرنا چاہئے، کیا یہ مستعفی ارکان واقعی پارلیمنٹ میں جاکر عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ پٹیشنرز کلین ہینڈز کے ساتھ عدالت آئے یا نہیں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پٹیشنرز اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف عدالت نہیں آئے، اسپیکر نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ اس شرط پر استعفے دیئے گئے تھے کہ 123 ارکان مستعفی ہوں گے، اسپیکر نے تمام استعفے منظور نہیں کئے اور صرف11 استعفے منظور کئے، ہم کہتے ہیں کہ دیئے گئے استعفے مشروط تھے، اگر تمام ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوئے تو شرط بھی پوری نہیں ہوئی، پارلیمنٹ واپس جانا سیکنڈری ایشو ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر وہ ممبر پارلیمنٹ ہوتے ہوئے اسمبلی کارروائی کا ورچوئلی بائیکاٹ کر رہے ہیں، آپ اس متعلق سوچ لیں اور بیان حلفی جمع کرائیں، کیا عدالت آنیوالے دس ارکان اسمبلی پی ٹی آئی پالیسی کے حق میں ہیں یا مخالف؟ ارکان خود مانتے ہیں کہ استعفے جینوئن تھے۔ بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا کہ ارکان اسمبلی کے استعفے جینوئن مگر مشروط تھے، ہم کہتے ہیں کہ تمام استعفے جینوئن تھے اور انہیں منظور کیا جائے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کا احترام ہے، سیاسی معاملات کو وہاں حل کریں، جن ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوئے وہ تو پارلیمنٹ میں جا کر بیٹھیں۔ ’یہ عدالت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال نہیں ہو گی، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس مرحلے پر ایسا ممکن نہیں کیونکہ آڈیو لیک آئی ہے اور گیارہ ارکان کو نکال دیا گیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کی بہت بے توقیری ہوگئی ہے، عدالتیں سیاسی تنازعات حل کرنے کیلئے نہیں ہیں، سیاسی تنازعات حل کرنے کیلئے بہترین فورم پارلیمنٹ ہے۔ جمہوریت اور پارلیمنٹ کو مذاق نہ بنائیں، پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں نے منتخب کیا ان کی نمائندگی کریں، پہلے اسمبلی جائیں اور پھر یہ درخواست لے آئیں عدالت درخواست منظور کرلے گی۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم اسمبلی واپس نہیں جاسکتے انہوں نے ہمیں نکال دیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کیلئے استعمال نہیں ہوگی، جائیں اور اپنی سیاسی لڑائی اس عدالت سے باہر لڑیں۔ علی ظفر نے کہا کہ پارٹی کو ابھی فیصلہ کرنا ہے کہ پارلیمنٹ میں واپس جانا ہے یا نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح نہیں ہوتا کہ آپ پارلیمنٹ میں بھی نہ جائیں اور نشست بھی باقی رہے، کیا عدالت یہ درخواست منظور کرکے حلقوں کے عوام کو نمائندگی کے بغیر چھوڑ دے، پارلیمنٹ کے ساتھ70 سال سے بہت ہوچکا، اب ختم ہونا چاہئے۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ درخواست گزار اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف نہیں جاسکتے، چیف جسٹس نے کہا کہ پھر یہ عدالت یہ درخواست بھی منظور نہیں کرسکتی، درخواست گزار اسپیکر کے پاس جا کر کہہ سکتے ہیں کہ ہم پارلیمنٹ میں واپس آنا چاہتے ہیں۔ علی ظفر نے کہا کہ ہم اسپیکر کے پاس تو نہیں جاسکتے، یہ عدالت نوٹیفکیشن معطل کرے پھر جاسکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت سیاسی ڈائیلاگ کیلئے آپ کی سہولت کاری تو نہیں کرے گی، ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں ہم پارلیمنٹ کو نہیں مانتے، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو مانتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی کہے کہ عدالت کو مانتا ہوں اور عدالت کو جو مرضی آئے کہتا رہے۔ سیاسی غیریقینی ملکی مفاد میں نہیں، یہ عدالت درخواست منظور کیوں کرے؟ جب تک پارلیمنٹ کے احترام کا اظہار نہیں کریں گے درخواست منظور نہیں ہوسکتی، پارلیمنٹ مانتے بھی نہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں بھیج دیں، یہ عدالت آپ کو5 دن کا وقت دے دیتی ہے، کل پارلیمنٹ واپس چلے جائیں یہ عدالت آپ کی درخواست منظور کرلے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ضمنی الیکشن پر کتنا خرچہ آتا ہے، سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں حل کریں، سیاسی تنازعات اس عدالت کیلئے نہیں، یہ عدالت مداخلت نہیں کریگی، یہ عدالت پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دے گی، سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں واپس جا کر سیاسی عدم استحکام کو ختم کرے، سیاسی عدم استحکام سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی تو پی ٹی آئی کو موقع دے رہے ہیں کہ آئیں اور عوام کی خدمت کریں جس پر پی ٹی آئی رہنماؤں کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ مجھے ایک گھنٹہ دیں میں مشاورت کرکے عدالت کو آگاہ کرتا ہوں جس پر عدالت نے کیس کی سماعت میں ایک گھنٹے کا وقفہ کردیا۔ پی ٹی آئی کے دس ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے خلاف درخواست پر دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو وکیل پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے مؤقف اپنایا کہ پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں پر کچھ قانونی مسائل پیش کرنا چاہتا ہوں، اسپیکر قومی اسمبلی نے ہمارے استعفے منظور کرتے ہوئے قانون کو مدنظر نہیں رکھا۔ پی ٹی آئی کے گیارہ ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری اسپیکر نے نہیں باہر کے لوگوں نے دی، ایک آڈیو لیک ہوئی جس میں ایاز صادق، اعظم تارڑ اور دیگر استعفے منظوری کے فیصلے کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی بات نہ کریں کہ اسپیکر نے کسی کے کہنے پر استعفوں کا فیصلہ کیا، پارلیمنٹ تحلیل کرنے یا ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کیا ان کا اپنا فیصلہ تھا؟ ماضی میں نہ جائیں، سب سے زیادہ ظلم اور زیادتی عام پاکستانیوں کیساتھ ہورہی ہے۔

اہم خبریں سے مزید