• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک وقت تھاجب ہمارے دیس میں غربت اپنی انتہا پرتھی ۔خاص طور پر اس کا اندازہ ہمیں شاعری سے ہوتا ہے۔ماضی کے ہر شاعر نےاس حوالے سے کچھ نہ کچھ ضرور کہا ہوا ہے ۔ علامہ اقبالؔ سے قصہ شروع کریں تو فرشتے یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی

اُس کھیت کے ہر خوشہ ِ گندم کو جلا دو

فیض احمد فیضؔ اُس درد کی کیفیت کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں،

زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں

ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں

محسن نقویؔ نے کہا تھا،

وہ اکثر دن میں بچوں کو سلادیتی ہے اس ڈر سے

گلی میں پھر کھلونے بیچنے والا نہ آ جائے

سید نصیر شاہؔ نے اس دکھ کا اظہار کچھ یوں کیا تھا،

اب کبھی بازار جانے پر بضد ہوتا نہیں

میری غربت نے مرے بچے کو دانا کردیا

سید علی صباؔ نے کہا تھا،

جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا

ماں نے اپنے لعل کی تختی جلا دی رات کو

غلام محمد قاصرؔنے فرمایا تھا،

آیا ہے اک راہ نما کے استقبال کو اِک بچہ

پیٹ ہے خالی آنکھ میں حسرت ہاتھوں میں گلدستہ ہے

بیدل حیدریؔ نے اسے کچھ ایسےمحسوس کیا تھا،

بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے

بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے

اقبال ساجدؔ کے ہاں یہ دکھ یوں چیخ میںڈھل رہا ہے،

کیا مِلا اِقبال ساجِدؔ جدّتِ فن بیچ کر

اب گزر اوقات کر،دانتوں کا منجن بیچ کر

غربت کے حوالے سے شعر تو یاد آتے چلے جائیں گے مگر میں پچھلی دو تین دہائیوں سے خوش تھا۔حالات بہتر ہوتے جارہے ہیں ۔شاعروں کے ہاں غم ِ ِ دوراں کی شکل بدلنے لگی مگرعالمی بینک کی چھ اکتوبر کو جاری ہونے والی رپورٹ نے مجھے بہت افسردہ کر دیا ۔یہ رپورٹ سیلاب کے نقصانات کا اندازہ لگاکر تیار کی گئی ہے کہ فصلیں کتنی تباہ ہوئی ہیں، جانور کتنے ہلاک ہوئے ہیں، کتنی سٹرکیں، گھر، عمارات، پل اور دیگر چیزیں منہدم ہوئیں ۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں نوے لاکھ افراد خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔حکومت چاہے تو مزید لوگوں کوغربت کا شکار ہونے سے بچا سکتی ہے۔ جب کہ غیر جانب دار تخمینہ کار وں کا خیال ہے کہ ورلڈ بینک کااندازہ درست نہیں ۔اگر حکومت نےکچھ نہ کیا تو 20 ملین کے قریب لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے ۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پہلے ہی چار کروڑ سے زیادہ افراد غربت میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ مزید لوگوں کو غربت کے درجے میں گرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔اسحاق ڈار اسی وعدے پر دوبارہ وزیرِ خزانہ بنائے گئے ہیں ۔ عالمی بینک کی رپورٹ مگرجو کچھ کہہ رہی ہےاسے پڑھ کر لگتاہےکہ اس کا مداوا نہیں ہورہا۔ رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی شرح 23 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ 2022 ء میں تجارتی خسارہ اپنی بلند ترین سطح پر تقریباً 44.8 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور اس میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ نو ملین ایکڑ سے زیادہ زرعی رقبہ سیلاب برد ہوا ہے ۔یعنی اس سال چاول ، گندم اور کھانے پینے کی دوسری اشیاء حکومت کوبیرون ِ ملک سے منگوانی پڑیں گی ۔ایسی صورتحال میں سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے اور سیاسی استحکام صرف اور صرف فوری طورپر صاف شفاف انتخابات سے آ سکتاہے مگر وفاقی حکومت الیکشن کرانے پرابھی تیار نہیں ۔ شاید وہ عمران خان کی مقبولیت سے خوف زدہ ہے اور سمجھتی ہے کہ موجودہ حالات میں انتخابات کرائے گئے تو عین ممکن ہے عمران دوتہائی اکثریت کے ساتھ کا میاب ہو جائیں۔ابھی وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ وہ ملک میں مہنگائی کم کرے اور اس مقصد کےلئے انہیں وقت چاہئے مگر خالی وقت سے کام نہیں چل سکتا ۔وقت کے ساتھ سرمایہ بھی ضروری ہے مگر ابھی تک حکومت خاطر خواہ سرمائے کا بندوبست نہیں کر سکی۔ اوپر سے عمران خان کی احتجاجی تحریک کادبائو کمزور حکومت کو ہر روز کچھ اورخوف زدہ کردیتا ہے ۔ حکومت کو معلوم ہے کہ وہ صرف دو ووٹوں کے سہارے کھڑی ہے اور کسی بھی وقت پانسہ پلٹ سکتا ہے ۔نومبر کے بعد تو معاملات میں تبدیلی کے امکانات قوی ہیں ،جس سے ملک کی معاشی صورتحال مزیدبگڑنے کا خدشہ ہے۔یعنی ابھی غریب نے، غریب تر ہونا ہے اور امیر نے امیر تر اورشاعروں نے پھر اسی طرح کہتے پھرنا ہے،

ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم

ریشم و اطلس و کمخواب میں بنوائے ہوئے

جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم

خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے

پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیاکیجئے

اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجئے

مجھے لگتا ہے کہ پھر وہی ترانے بجنے والے ہیں

اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے

جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں

جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت

چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے

اے ظلم کے ماتو لب کھولو چپ رہنے والو چپ کب تک

کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا کچھ دور تو نالے جائیں گے

تازہ ترین