• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جتنی بلندی (Climax) اُتنی ہی پستی (Anti-Climax) اور اِس سرعت سے، پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ انتہائی گرتی ہوئی ساکھ کا سامنا کر رہی عمران حکومت کے خلاف ایک بے وقت تحریکِ عدم اعتماد نے عمران خان کو ایک ایسا سنہری موقع فراہم کیا کہ ’’جنگ میں ہر حربہ جائز ہے‘‘کے مقولے کی تصدیق کر دی۔ ہاتھ لگا بھی تو امریکہ میں پاکستان کے سفیر کا خفیہ خط (سائفر)، پھر کیا تھا وزیراعظم نے اپنی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے آئینی عمل کو امریکہ کی رجیم چینج کی’’سازش‘‘کہہ کر ایسی سازش گھڑی کہ نہ صرف آنے والی اتحادی حکومت کے ہاتھ پائوں پھول گئے بلکہ جنہیں اس’’سازش‘‘میں آلہ کار قرار دیا گیا وہ بیچارے اپنی نیوٹریلٹی کی پاسبانی میں ہاتھ ملتے رہ گئے۔ سازشوں کی چٹپٹی داستانوں کے متلاشی عوام اور بے پایاں اضطراب کا شکار سوشل میڈیا میں جیسے آگ لگ گئی۔ سوئی ہوئی قومی غیرت جاگ گئی اور حقیقی آزادی کے ٹرک کی بتی کے پیچھے معصوم لوگوں کو لگا دیا گیا۔ پھر کیا تھا عمران خان کے طوفانی جلسوں میں ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گئے اور ہر طرف جے جے کار کا سماں بندھ گیا۔ لیکن سائفر پر جو تین آڈیو لیکس سامنے آئی ہیں اُنہوں نے اندر کی ساری کہانی کھول کر دُنیا کے سامنے رکھ دی ہے کہ کیسے ایک معمول کے سائفر کو ایک’’بیرونی مداخلت‘‘کی اشتعال انگیز اور نہایت غیرذمہ دارانہ صورت دینے کا پلان بنا، قومی سلامتی کی کمیٹی کو بھی گمراہ کیا گیا، مگر تحقیق میں بیرونی سازش کی طفلانہ کہانی ثابت نہ ہونے کے باوجود نام نہاد ’’امریکی سازش‘‘ اور رجیم چینج میں مقامی اور مقتدرہ کے’’سہولت کاروں‘‘کی بطور میر صادق اور میر جعفر برانڈنگ بھی کر دی گئی۔ اوپر سے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے تحریکِ انصاف کی حکومت کے معاہدے کو سبوتاژ کرتے ہوئے پاکستان کو مالیاتی دیوالیہ کرنے میں کسر نہ چھوڑی گئی۔ پھر سیاسی طوفان بپا کر کے پاکستان کو سری لنکا بنانے میں کون سا حربہ تھا جو استعمال نہ کیا گیا۔ اینٹی کلائمکس تو پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں کے باوجود اقتدار کی واپسی کے لیے کی جانے والی مہم جوئی سے شروع ہوا۔ ایک طرف تباہی میں ملک ڈوبا ہوا ہے، کروڑوں لوگ اُجڑ گئے اور سینکڑوں بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور ہمارے کپتان کی سیاسی فاسٹ بائولنگ جاری رہی۔ عوام کی مصیبتوں کا خیال، نہ اُن کی بحالی پر کوئی توجہ۔ اور جب حکومت نے عالمی سطح پر ماحولیاتی انصاف کی دُہائی دی اور اقوامِ متحدہ نے امداد کی اپیلیں جاری کیں تو خوفناک مہم چلائی گئی کہ چوروں کی حکومت سارا پیسہ کھا جائے گی۔ پیغام یہ دیا گیا کہ سیلاب زدگان کی مدد نہ کی جائے۔ سارا زور فوری انتخابات کی رٹ پر رہا اور میڈیا اور عالمی برادری کی توجہ سیلاب زدگان اور ماحولیاتی آفت سے ہٹانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ اصل نظر تو نئے آرمی چیف کی تعیناتی پہ رکھی گئی اور اُس کے آئینی و اداراتی عمل کو مشکوک بنانے کی کوشش کی۔ دراصل مقصد وہی پرانا تھا کہ کسی طرح 2018 کے مشکوک انتخابات سے گھڑا گیا ہائبرڈ سیاسی نظام پھر سے مقتدرہ کی مدد سے بحال کرایا جائے، مگر اس بار ذاتی مطلق العنانیت مسلط کر دی جائے۔ اس ساری مہم میں جمہوریت کی کوئی پاسداری تھی نہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا کوئی عنصر، نہ آئین کی حکمرانی کی کوئی رمق ۔ بس نعرے بازی و گالی گلوچ کا اخلاق باختہ کلچر اور شخصیت پرستی کا فروغ۔

بہرکیف جس تہلکہ خیز بیانیے کا توڑ درجن بھر اتحادی جماعتوں اور اُن کی وسیع البنیاد حکومت نہ کر پائی اور میڈیا میں خوب ٹھٹھا اُڑایا گیا کہ جوابی بیانیہ کہاں غائب ہے، وہ کام سائفر پہ آنے والی تین آڈیو لیکس نے کر دکھایا۔ رہی سہی اخلاقی کسر چوتھی لیک نے پوری کر دی کہ کس طرح خان صاحب بذاتِ خود ہارس ٹریڈنگ میں مصروف تھے۔ ہیکر بھی کیا چن چن کر لیکس پہ لیکس مارے جا رہا ہے اور ابھی جانے یہ سلسلۂ خلوت میں کی گئی جانے کون کون سی اخلاق باختگی کی رسوا کن داستانوں پہ جا کے کہاں رُکے گا، جو طلسماتی شخصیت کا بُت دہائیوں تک کرکٹ ہیرو، سماجی خدمت گار، مردانہ وجاہت، صداقت و امانت، اور استقامت و شرافت کے ہیولوںکے گرد تراشا گیا تھا، لگتا ہے کہ وہ قومی وبالِ جان بن گیا۔ اور اب غالباً اس کو مسمار کرنے کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ اسلامی ٹچ رہے گا، نہ طلسماتی پردے، سب تار تار ہونے جا رہے ہیں۔ البتہ شخصیت پرستی کا بخار اُترنے میں کچھ وقت لگے گا۔

پاکستان دیوالیہ ہونے سے بال بال بچا تو ہے، لیکن اس کی عالمی مالیاتی ریٹنگ مزید گر گئی ہے۔ گو کہ عالمی مالیاتی ادارے اور عالمی برادری سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیشِ نظر کچھ فیاضی پہ راضی ہوئی ہے۔ حکومت اور وزیرِ خارجہ اور وزیرِ ماحولیات کی ماحولیاتی انصاف کی مہم خاصی پُراثر رہی ہے اور لگتا ہے کہ پاکستان عالمی تنہائی سے نکل آیا ہے اور آرمی چیف جنرل باجوہ کے امریکہ کے الوداعی دورے سے پاک امریکہ تعلقات میں ایک حقیقت پسندانہ اکویشن پیدا ہو چکی ہے۔ روپے کی قدر بڑھی ہے، لیکن مہنگائی ابھی پسپا ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ عالمی منڈی میں ڈالر اوپر جا رہا ہے اور عالمی کساد بازاری کے اثرات پاکستان پر پڑیں گے۔ اگر عالمی منڈی میں تیل اور دیگر درمیانی اشیا کی قیمتیں کساد بازاری کے باعث گریں تو پاکستانی معیشت کو کافی افاقہ ملے گا۔ سب سے بڑا مسئلہ سیلاب زدگان کی بحالی اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی تعمیرنو کا ہے۔ شہباز حکومت کے لیے یہ بڑا چیلنج ہوگا اور زراعت و صنعت کی بحالی کے لیے بہت ممد ثابت ہو سکتا ہے۔ حکومت سنبھل گئی ہے اور لانگ مارچ جیسے مہم جویانہ عمل سے نمٹنے کی بہتر پوزیشن میں ہے۔ اس ماہ یا اگلے ماہ کے شروع میں نئے آرمی چیف کا تقرر بھی ہو جائے گا۔ بہتر ہوگا کہ یہ عمل فوری شروع کر دیا جائے اور سینیارٹی کے اصول کو اپنا لیا جائے تاکہ کوئی کنٹرا ورسی پیدا نہ ہو۔ حکومت بھی اس قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے پر انتخابات کے انعقاد پر ڈٹ گئی ہے تو دوسری طرف تحریکِ انصاف کی پارلیمنٹ میں واپسی کے امکانات بھی پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں جو کہ اُس کے 12 اراکینِ قومی اسمبلی سے استعفوں کی منظوری کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر رٹ سے ظاہر ہوتا ہے۔ پاکستانی معیشت کی بحالی، مالیاتی استحکام، پارلیمانی جمہوریت کے تسلسل اور سیلاب زدگان کی بحالی اور تباہ حال بستیوں کی تعمیرنو پاکستان کے قومی ایجنڈے پر رہنی چاہیے۔ یوں لگتا ہے کہ ایک اور سیاسی ابال کے ساتھ ہی شاید سیاسی غبار بیٹھ جائے گا۔ گو کہ عمران خان چین سے بیٹھنے والے نہیں۔ ابھی دیکھتے ہیں کہ اُن کی آتما کو کتنی شانتی ملتی ہے یا پھر وہ اپنی ہی لگائی آگ کی نذر ہو جائیں گے۔ اُنہیں اب سنبھل کر پیچھے ہٹنا چاہیے جو اُن کے اور جمہوریت کے مفاد میں ہے۔

تازہ ترین