• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان کیوں اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ پاکستان کی رجسٹری اور انتقال ان کے نام پر ہے لیکن اس پر کسی اور نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ اور ان کواگر ان کی ملکیتی جائیداد نہیں ملتی تو اس کو حاصل کرنے کے لئے وہ قانون کے بجائے کوئی بھی ’’ اور راستہ‘‘ اختیار کرسکتے ہیں۔ ان کو یہ بھی غلط فہمی ہے کہ وہ کسی بھی ناجائز طریقے سے اپنی یہ جائیداد واپس لے سکتے ہیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ ’’ناجائز قابضین‘‘ کوبھی یہاں نہیں رہنے دیں گے، خواہ اس کے لئے اس جائیداد کو تاراج اور اس پر بنی املاک کو جلانا اور گرانا ہی کیوں نہ پڑے۔

 وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ پاکستان کسی فرد، جماعت یا گروہ کی ذاتی جائیداد نہیں بلکہ23کروڑ عوام کا وطن ہے جو بےشمار قربانیوں اور جدوجہد کے بعد حاصل کیا گیا اور اس کی حفاظت نہایت مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ کسی کی جرأت ہی نہیں کہ اس کو نقصان پہنچانا تو درکنار میلی آنکھ سے بھی دیکھ سکے۔

عمران خان جیسے نوآموز سیاستدان اور ان کے غیر منطقی بیانات اور منفی سوچ کو دیکھ کر قوم خود فیصلہ کرلے کہ کیا ان کے بیانات کی کوئی اہمیت ہے؟ وہ نیا پاکستان بنانے کے نام پر ایک عرصے سے لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔

ان کو اندازہ ہی نہیں کہ پاکستان کو بنے ہوئے75سال ہوچکے ہیں۔ پاکستان بنانا کیا اتنا آسان ہے کہ ناچ گانوں اور گلوں میں رنگ برنگے دوپٹے ڈالنے سے بن جائے؟ پھر بھی اگر انہوں نے اپنی بادشاہت کےلئے کوئی اور ملک بنانا ہے تو اس پر کوئی پابندی نہیں ، وہ دنیا میں کہیں اور جاکر اپنی سلطنت قائم کرلیں اور یہ پہلے سے طے کرلیں کہ اس ملک کانام نیو ریاست مدینہ ہوگا یا نیو پاکستان ہوگا۔

 البتہ یہ سوچ لیں کہ ریاست کریانے کی دکان یا جنرل اسٹور نہیں ہوتی کہ کسی اور کے معروف نام کے آگے نیو یا نیا لگاکر قانونی جواز پیدا کر لیاجائے۔ ابھی تک وہ یہ بھی طے نہیں کر سکے کہ اس نئے ملک کا نظام ریاست مدینہ کا ہوگا، چینی نظام ہو گا یا یورپی نظام،کیونکہ وہ مختلف مواقع پر ان سب کی مثالیں دیتے رہے ہیں، لیکن خیر12موسموں کی طرح اپنی ریاست میں وہ اسی فارمولے سے یہ تمام نظام بھی موسم کے مطابق ترتیب دے سکتے ہیں۔

ہمیں تو یہ بنیادی بات ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ عمران خان کو خود اپنی باتوں کی سمجھ نہیں ہے بس جس وقت جو منہ میں آیا بول دیا یا وہ عوام کو بیوقوف سمجھ کر مزید احمق بنانے کی وقتی کوششیں کرتے ہیں۔عمران خان ان اداروں کے بارے میں محرومی اقتدار کے بعد ہرزہ سرائی کررہے ہیں کہ جب وہ برسر اقتدار تھے تو ببانگ دہل اور دعوے سے کہا کرتے تھے کہ میری حکومت اور ادارے ایک صفحے پر ہیں۔ عمران خان اور ان کے بعض وقتی ساتھی ریکارڈ چیک کرلیں۔ اگر ان کے پاس اور ریکارڈ نہیں تواس وقت کے اخبارات چیک کرلیں۔

اب تو خیر سے شیر شاہ سوری کے مقابلے کی باتیں کرنے لگے ہیں جو انتہائی گمراہ کن ہیں۔ کہاں شیر شاہ سوری اور کہاں وہ۔ ویسے سوری خاندان کے ’’ چشم وچراغ‘‘ قاسم سوری کواس بات پر احتجاجاً عمران خان کا ساتھ اور پی ٹی آئی کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دینا چاہیے۔

عمران خان کا یہ کہنا کہ ذمہ داری ان کی اور اختیارات کسی اور کے تھے، سراسر غلط بیانی ہے، وہ جرأت کرکے صاف بتادیں کہ وہ کون تھے جن کے پاس اختیارات تھے اور وہ کون تھے جو ٹیکس نادہندگان اور کرپٹ لوگوں کو چھڑواتے تھے۔عمران خان کا یہ الزام نہایت قابلِ مذمت ہے کہ ملکی ایجنسیاں بیرونِ ملک مقیم جرائم میں ملوث کرپٹ عناصر کی مدد کرتی ہیں۔ اہم ترین دفاعی اداروں کو کمزور کرنے کی ان کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں۔

ان کی دیگر منفی کوششوں کی طرح یہ کوششیں بھی اب خاتمے کے قریب ہیں۔ پتہ نہیں انہوں نے پونے چار سال کیسے حکومت کی کہ ان کو یہ پتہ نہیں چلا کہ اس ملک کے دفاع اور معیشت کی بہتری کے لئے ان اداروں کا کیا کردار اور کتنی اہمیت ہے یا وہ جان بوجھ کراہم ترین اداروں کو کمزوراور ملک کو معاشی طور پر مفلوج کرنا چاہتے ہیں۔ جس میں یقیناً وہ ناکام ہوں گے البتہ وہ اپنا بہت نقصان کر جائیں گے۔

عمران خان کبھی اداروں کی اہم شخصیات،کبھی وزیر اعظم اور کبھی وزیر خارجہ کا مذاق اڑاتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو کمزور وبدنام کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔

ان کا یہ کہنا کہ وزیر اعظم بھیک مانگنے بیرونی ممالک جاتے ہیں اوروزیر خارجہ بلاول بھٹو ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں، ایک منفی سوچ اور ملک کی بدخواہی ہے۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیر کے بارے میں بین الاقوامی حمایت اور سیلاب کی تباہی، کے بعد جواب بھی جاری ہے ،سے نمٹنے کے لئے امداد کا حصول اور وعدے کن کی کوششوں سے ممکن ہوئے ہیں۔

 آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول میں عمران خان اور ان کے بعض ساتھیوں کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی کرنے، سیلاب متاثرین کی مدد سے بین الاقوامی برادری کوروکنے کی مذموم کوششوں کے باوجود کامیابیاں حاصل ہوئیں، جن کا سہرا بلاشبہ وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے سر ہے۔

 ذرائع کے مطابق ان لوگوں کےخلاف بھی کارروائی جلد ہوگی جو آئی ایم ایف پروگرام کو روکنے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں۔ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ بہت کچھ تبدیل ہونےوالا ہے اور سیاسی ومعاشی عدم استحکام پیدا کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین