• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچپن میں ہمارے محلے میں ایک بہروپیا آیا کرتا تھا، گریبان چاک، آنکھیں شعلہ بار، سر پہ ’زخم‘ سے بہتا تازہ خون چہرے پر پھیلتا ہوا، سینے میں خنجر پیوست جس کا خون آلود پھل پشت سے باہر نکلا ہوا ، کمر پر ایک مردہ چیل بندھی ہوئی ، اور ہاتھ میں اینٹ ، وہ راہ گیروں کی طرف لپکتا، انہیں اینٹ مارنے کی دھمکی دیتا، اوراکثر لوگ ڈر کر کچھ سکّے بہروپیے کے حوالے کر دیتے۔ اس زمانے میں لاہور میں موٹر کاریں کم کم تھیں، لیکن اگر گلی میں کوئی کار آ جاتی تو اسے لازماً کچھ نہ کچھ دے کر ہی گاڑی اور جان بچانا پڑتی تھی۔یہ الگ بات تھی کہ بہروپیے نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران کبھی کسی کو اینٹ نہیں ماری تھی، وہ بس ہر کسی کو ڈراتاتھا، دھمکاتا تھا، کہ ڈرانا دھمکانا ہی اس کا ذریعۂ معاش تھا۔ قومی سیاسی منظر نامہ دیکھ کر وہ بہروپیا ان دنوں کثرت سے یاد آتا ہے ، اور یہاں اس کا حلیہ اور طریقۂ واردات بیان کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر سیاسی اُفق پر کوئی بہروپیا نظر آئے تو احباب کو پہچاننے میں چنداں دشواری نہ ہو، ویسے ہمارا ذاتی معاملہ تو شہزاد احمد والا ہے یعنی’’میں نے پہلی ہی نظر میں تجھے پہچان لیا، ایک مدت نہ ہوئے لوگ شناسا تجھ سے۔‘‘سیاسی صورتِ حال کا جائزہ لینے سے پہلے ایک غیر سیاسی شخصیت کے غیر سیاسی بیان کا ذکر ہو جائے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کہتے ہیں کہ کسی فرد یا گروہ کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ پاکستان کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے دوچار کرے۔چیف صاحب کا روئے سخن کس طرف ہے؟ کیا وہ شہباز شریف سے مخاطب ہیں یا زرداری صاحب سے یا مولانا فضل الرحمٰن سے؟ یا عمران خان سے؟ ویسے لگتا ہے چیف صاحب نے یہ تکنیک عمران خان سے ہی سیکھی ہے کہ اشاروں کنایوں میں کسی کو ملک دشمن اور غدار کیسے قرار دیا جاتا ہے۔سادہ لفظوں میں چیف صاحب کہہ یہ رہے ہیں کہ خونی لانگ مارچ، جلائو گھیرائو اور صوبوں سے مرکز پر یلغار کے لیے یہ وقت موزوں نہیں ہے، ہم ابھی ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل رہے ہیں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کی کوشش میں ہیں، اور الیکشن تو ہو ہی جانا ہے، دو چار مہینے پہلے یا بعد میں، اور اگر کوئی حقیقی آزادی کی خواہش میں گُھلا جا رہا ہے تو اسے چاہیے، وہ وقتی طور پر پنجاب، کے پی کے، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے دورہ پر چلا جائے اور حقیقی آزادی کے انوار میں غسلِ شادمانی فرمائے اور انتظار فرمائے،لہٰذا کسی کو اینٹ پکڑ کر اسلام آباد آنے اور ڈرانے دھمکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی،اور پھر سیاست سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو چیف صاحب کی بات تو معقول ہے، دوچار مہینے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یہی بات قصرِ صدارت میں ہونے والی ملاقاتوں میں بھی خان صاحب کو سمجھانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ویسے لگتا یہی ہے کہ عمران خان بھی لانگ مارچ کرنا نہیں چاہتے، بس ڈرانا چاہتے ہیں، اور ڈرا کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ڈرانا دھمکانا عمران خان کا طرزِ سیاست ہے، وہ اپنے سیاسی حریفوں کو ڈراتے ہیں، پولیس اور ایف آئی اے کو ڈراتے ہیں، عدالتوں کو ڈراتے ہیں، الیکشن کمیشن کو ڈراتے ہیں، اور پھر اپنی اسی پالیسی کی کامیابی دیکھتے ہوئے ایک دن وہ اینٹ پکڑ کر اپنے ’خالق‘ کی طرف دوڑ پڑے، حتیٰ کہ اب وہ آنے والے چیف کو دھمکانے کی کوشش کر رہے ہیں، دھمکی دے رہے ہیں کہ میری مرضی نہ مانی گئی تو ’آنے والے‘ کو متنازع بنا دوں گا۔ جب خان صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آپ کی فوری اقتدار کے حصول کی ضد سے پورا سسٹم ڈی ریل ہو سکتا ہے، تو خان صاحب مبینہ طور پر فرماتے ہیں کہ’ آپ مجھے ڈرانے کی کوشش نہ کریں۔‘ نومبر کی اہم تعیناتی کو عمران خان اپنے سیاسی مستقبل کی نسبت سے فیصلہ کن سمجھ بیٹھے ہیں، دراصل انہوں نے ابھی تک اقتدار میں آنے کا ایک ہی طریقہ دیکھا ہے، یعنی اداروں کے کاندھے پر سوار ہو کر، اور اس بات سے وہ بہت گھبراتے ہیں کہ اگلا سپہ سالار کوئی ایسا نہ آ جائے جو ان کے’ اعمال‘ کا شاہد ہو، اور بالخصوص ان کے مالی معاملات کی خیرہ کُن تفصیلات سے آگاہ ہو، کیوں کہ اس کا مطلب ہو گا کہ اگلے تین سال بلکہ غالباً چھ سال، یعنی اگلے دو انتخابات تک، انہیں کوئی فیصلہ کُن کاندھا میسر نہیں ہوگا، جس کا مطلب ہو گا کہ انہیں 2033 کا انتظار کرنا ہو گا،اور تب تک عمران خان Octogenarian یعنی پیرِ فرتوت ہو چکے ہوں گے۔ غالباً کچھ ایسے ہی اندیشے عمران خان کو جلد بازی پر اکسا رہے ہیں۔محسوس یوں ہوتا ہے انہیں خدشہ ہے کہ اگر اسحاق ڈار نے معیشت کو لگام ڈال لی تو ان کا اسپِ مقبولیت لنگڑانے لگے گا، اور اوپر سے اداروں کی حقیقی نیوٹریلٹی کا تازیانہ۔دوسری طرف آڈیو لیکس ہیں، جو کبھی ایک نقاب نوچتی ہیں کبھی دوسرا ، کبھی سائفر اور سازش کے بیانیے کا مذاق بنتا ہے، کبھی خان صاحب سب سے بڑے ’گھوڑوں کے تاجر‘ کے طور پر سامنے آتے ہیں، ایک لِیک حقیقی آزادی کے مجاہد کا سوانگ اُڑا لے جاتی ہے، تو دوسری ایمانداری کا میک اپ بہا لے جاتی ہے۔ اسی لیے عمران خان شاید قائل ہو چکے ہیں کہ یہ Now or Never والا معاملہ ہے۔

غلام عباس کا ایک افسانہ ہے ’بہروپیا‘ ، جس میں دو لڑکے ایک بہروپیے کا اصلی چہرہ دیکھنے کی خواہش میں متعدد بار بہروپیے کے گھر تک اس کا پیچھا کرتے ہیں، لیکن ہر بار بہروپیا ایک نیا سوانگ رچا کے گھر سے نکلتا ہے، اور وہ لڑکے کبھی اس بہروپیے کا اصل چہرہ نہیں دیکھ پاتے۔کیا پاکستانی قوم کبھی ’بہروپیے‘ کا اصل چہرہ دیکھ پائے گی؟

تازہ ترین